بادشاہی مسجد کے سرکاری بھکاری

کسوٹی کھیلتے ہوئے میں نے اپنے ذہن میں بادشاہی مسجد رکھتے ہوئے بچوں سے سوال کرنے کا کہا۔ عمومی طور پر لمبے سفر کے دوران دیگر مشاغل کے علاوہ ہم بچوں سے کسوٹی بھی کھیلتے ہیں ۔ تاکہ انہیں سوال کرنے اور تجزیہ کرنے کی عادت پڑے ۔ بہرحال دس سوالات کے بعد وہ عمارت تک نہ پہنچ سکے تو اپنی مما کی مدد مانگی جو لائف لائن ہے ۔ اور اس طرح انہیں جواب مل گیا۔

اسی تناظر میں بچوں نے کہا کہ لاہور میں تو مینار پاکستان ، داتا دربار اور شاہی قلعہ بھی ہے ۔ ہمیں یہ سب دیکھنا ہے۔ چونکہ لاہور میری علمی درس گاہ رہی ہے اس لئے اس شہر سے ایک قلبی لگاؤ بھی ہے ۔ سو ،دسمبر کے پہلے ہفتے میں لاہور کی طرف عازم سفر ہوئے۔ مشہور زمانہ پھجے کے بد ذائقہ پائے کھانے کے بعد داتا دربار پر حاضری دی ۔

اس کے بعد بادشاہی مسجد پہنچے ۔ جہاں پر جوتے رکھنے والے ہرکاروں سے سے واسطہ پڑا۔ ان کا رویہ ایسا تھا ۔جیسے وہ سیاحوں پر احسان چڑھا رہے ہوں ۔ وہاں ایک جوتے کی رکھوائی بیس روپے سے لے کر سو روپے تک وصول کی جاتی ہے ۔ اس سے آگے کی صورتحال دلچسپ تھی- جونہی ہم داخلی دروازے سے داخل ہوئے ۔ وہاں پر لائن میں کھڑے تین لوگوں سیاحوں کو تقریباً دھکیلتے ہوئے لائن میں کھڑا ہونے پر مجبور کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ پہلے تبرکات مقدسہ کی زیارت کریں۔ کیونکہ یہ حصہ تھوڑی دیر میں بند ہونے والا ہے ۔حالانکہ یہ دو بجے کا وقت تھا ۔ اور وہاں پر لکھا ہوا تھا کہ تبرکات والا سیکشن مغرب کے وقت بند کیا جاتا ہے ۔

بہرحال ہم بھی اس لائن میں کھڑے ہوئے اور آہستہ آہستہ اوپری منزل کی سیڑھیاں چڑھنے لگے کہ آواز آئی ۔ اپنا اپنا نذرانہ ہاتھ میں رکھیں ۔ کوئی دئیے بغیر نہ جائے۔ موبائل کیمرے بند کر دیں۔ کیونکہ اس پر دو ہزار جرمانہ ہے ۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں نے عمارت کو دیکھا تو دل خون کے آنسو رو رہا تھا ۔ عمارت بری حالت میں ہے ۔ جگہ جگہ سے سیمنٹ اکھڑا ہوا ہے ۔ سرخ ٹائلز ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں ۔ چھت کی طرف نگاہ کی تو وہ بھی خستہ حالی کا شکار ہے ۔

تبرکات مقدسہ والے مقام کو ایک تنگ سی راہداری میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ جہاں بمشکل ایک بندہ گزر سکتا ہے ۔اس راہداری میں سٹاف کے چھ سے آٹھ کے قریب لوگ کھڑے یہی شورمچا رہے تھے کہ نذرانہ دائیں ہاتھ میں رکھیں۔ لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھارتے ہوئے وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ سو ،پچاس،پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹ ہاتھ میں رکھیں۔ یہ نذرانہ ہم یہاں Renovation کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

بہرحال میں جب اس نیکی سے مصلحتا پہلو تہی کرتے ہوئے جب آخر میں پہنچا اور ڈبےمیں کچھ نہ ڈالا تو وہاں کھڑے شخص نے کہا کہ آپ نذرانہ ڈالیں۔ میں نے کہا کہ یہ مسجد اور اس کا انتظام محکمہ اوقاف کی زمہ داری ہے ۔ مجھے نہیں پتہ کہ آپ لوگ کس حیثیت سے پیسے بٹور رہے ہیں –

وہاں سے نکلے تو آگے دو لوگ اور کھڑے تھے جو قرآن محل کی طرف لوگوں کو ہانک رہے تھے۔ قرآن محل میں بھی یہی صورتحال تھی ۔ لاہور کے عطا محمد کی شاندار کاوش سے سونے کے دھا گے سے لکھا ہوا یہ قرآن مجید بارش کے پانی یا نمی کی وجہ سے خستہ حال ہو چکا ہے ۔ وہاں بھی لوگوں کو ایک قطار میں کھڑا کیا جاتا ہے اور پھر مذہبی جذبات کو ابھارتے ہوئے عطا محمد کے خاندان کے نام پر نذرانہ مانگا جاتا ہے ۔

وہاں تبرکات مقدسہ کی حالت دیکھ کر بھی دل آزردہ تھا ۔ شوکیسوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اندر سے ان کی کافی عرصے سے صفائی نہیں کی گئی ۔ تبرکات کو بھی بارش کے پانی اور نمی نے خراب کر نا شروع کر دیا ہے ۔ محکمہ اوقاف اور ان کے سرکاری بھکار ی تبرکات مقدسہ اور قرآن محل کے نام پر جو نذرانے وصول کرتے ہیں ان کی اجازت کس نے دی ہے ؟ ان دو اہم مقامات کی ابتر حالت کو بہتر بنانے کے لئے اوقاف والے کیا کر رہے ہیں ؟

میر ی تمام میڈیا والوں ، کالم نگاروں ، سیاست دانوں اور علماٗ سے اپیل ہے کہ وہ بادشاہی مسجد جیسے تاریخی مقام کی ابتر حالت کے مسئلے کو اجاگر کریں ۔ تبرکات مقدسہ اور قرآن محل کے مقام پر یہ جگا ٹیکس لینے والوں اور لوگوں کو ہراس کرنے والوں کے خلاف کاررروائی کی جائے ۔ اگر تبرکات مقدسہ کو احترام و عزت کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا تو مہربانی کر کے ان کو کسی ایسے ملک کے ہدیہ کر دیں جہاں ان کی عزت و توقیر کا خیال رکھا جا سکتا ہو ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے