2018 کیسا گزرا:دنیا میں‌ مچی ہلچل پرمارکسی نقطہ نگاہ

مادے میں موجود تبدیلی کا جوہر ہی مادے کو بہتر سے بہترتر بناتا ہے۔ کائنات میں ہر لمحہ ہر چیز گزرتے وقت کے ساتھ اپنی سابق شکل سے بہتر اور نئی شکل میں ڈھلتی رہتی ہے۔ مادے میں موجود تبدیلی کی خصوصیت کے علم نے سماجی ہی تبدیلی کے جوہر کو تلاشا۔ پرانے کے خاتمے اور نئے کے جنم نے ہر لمحہ دنیا کو پہلے کی نسبت بہتر اور جدید پایا۔ کمزور کو طاقتور اور طاقتور کو کمزوری کی راہوں پر گامزن پایا۔

یورپ میں کلیسا زندگی و موت کا مالک سمجھا جاتا تھا مگر حرکت کے عمل نے آج اس کو سائنس کے طالب علم کی تحقیق پر تعلیمات بدلنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اسی طرح ہند کا برہمن ایک وقت میں کلیسا کی طرح تعلیم کو اپنی پرت سے باہر جرم سمجھتا تھا مگر آج انتخاب ہی انسانی برابری اور تعلیم کا نعرہ لگا کر لڑنے پر مجبور ہے۔ وہ مُلا جو پرنٹر اور لاوڈ سپیکر پر فتوی لگاتے تھے ، آج وہ سائنس کو لازم قرار دے رہے ہیں۔ وہ عرب جہاں عورت کو ایک جاگیر سمجھاجاتا تھا ، آج اس کو تمام برابری کے حقوق دینے پر مجبور ہیں۔

ماضی کی موجود طاقت کی کوئی بھی شکل دیکھیے ، سب کی سب کمزوری کی طرف گامزن ہیں۔ جہاں طاقتور بنا سوچے اپنی خواہش پوری کیا کرتا تھا ، آج ہر جگہ مزاحمت اور حقوق کی لڑائی کے آگے بےبس نظر آتا ہے۔ آج ہم سرمایہ داربحرانی دور میں رہ رہے ہیں جہاں سامراجیت اپنی چھوٹی چھوٹی قومی تحریکوں کے آگے جھکتی اور کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ایک وقت میں سامراجی سرمایہ دار برصغیر کو اپنی کالونی بنانے کے فیصلے پر ایک لمحے کے لئے بھی سوچنا گوارا نہیں کرتا تھا ، آج وہی سامراجی قوتیں قومی آزادی کی جمہوری سوچوں کے سامنے سرنگوں ہوتی دکھائی دیتی ہیں اور نئی بنتی ہوئی قومی ریاستوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔

2018 نے خطے میں موجود ہر شکل کو نئی اور جدید شکل میں بدلاہے۔ اچھل کود، حرکت و بدلاؤ کی کیفیتوں سے گزر کر سماجی سرگرمیاں اور تحریکیں منطقی انجام کی طرف گامزن رہیں۔ یہ سال ایک دہائی میں پکنے والی تحریکوں کے اظہار کا سال تھا۔ رجعت و ترقی کی جنگ میں حرکت نے اپنی فتح کو عمل میں ثابت کیا ہے۔ سرمایہ داری کی ٹوٹ پھوٹ کے عہد میں اس سال نے بین الاقوامی سطح پر سامراجی شکلوں کوشکست دی ہے۔

امریکہ سے یورپ ،یورپ سے عرب، عرب سے بھارت ، بھارت سے امریکہ تک پوری دنیا کو ایک نئی عوامی انگڑائی نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ جیسے ملک کو سوشلزم کے خلاف ریاستی مشینری کے استعمال نے اپنے شہریوں میں زبردست پروپیگنڈہ کروانے کے عمل نے سامراجیت کے اندرونی کھوکھلے پن اور اندرونی تضادات کی معیاری تبدیلی نے اس سال کو اہم ترین سال ثابت کیا۔

امریکہ جیسے سیکولر اور خود کو مادیت پرست کہلوانے والوں نے مذہب کے نام پر سرمایہ داری کی حمایت کرنے پر اس کے نام نہاد اعلانات کی دھجیاں اڑا کے رکھ دیں۔ لبرل ازم اور نیو سرمایہ دارانہ پالیسیاں زبردست طریقے سے فلاپ رہیں۔ عوام کی زندگیاں بہتری کی نسبت مزید پستی کی طرف گامزن رہیں۔ مجموعی طور پر کروڑوں لوگوں کی صورت بیروزگاروں میں اضافہ رہا۔

نیپال کی حکومت نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بطن سے ہی قومی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لا کر سوشلزم کی تعمیر کے سفر کا آغاز کیا۔جوکہ واضح طور پر سماجی ہلچل کا ثبوت ہے۔

اس سال کمیونسٹ پارٹی آف چین نے شی چنگ پنگ کو تاحیات صدر منتخب کیا۔ یہ چین کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ شی چنگ پنگ کی تقریر کو ریاستی پالیسی بنایا گیا جوکہ عوامی جمہوریہ چین میں ماؤزے تنگ اور ڈینگ کے بعد تیسرے فرد کی حیثیت اختیار کرگئے۔ جن کی تقریر کو ریاستی پالیسی بنایا گیا۔کمیونسٹ پارٹی آف چین نے 2030 کے بعد چین میں سوشلزم کے بالغ مرحلہ کی طرف جانے کا بھی اعلان کیا۔ چین کی حکومت اعلانات اور قراردادوں کے باعث دنیا میں ایک سامراجی چہرے کی جھلک بھی نظر آ رہی ہے جس کے خلاف وہاں کے محنت کشوں کی بھی ایک مضبوط آواز اٹھتی نظر آ رہی ہے جوکہ کل کو ایک بہترین منزل کی جانب گامزن ہوگی۔

سرمایہ داری کی اعلیٰ ترین شکل امریکہ جوکہ ہر ملک پر اپنی مرضی سے چڑھ دوڑتا تھا۔ اقتدار کے فورا بعد ٹرمپ ٹویٹ کیا کرتا تھا کہ شمالی کوریا کو تباہ کیا جائے مگر وہی ٹرمپ شمالی کوریا کو دعوت دے کر فیصلے کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس سال شمالی کوریا کی حکمت عملی کے سامنے تقریبا اکثر ممالک اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے جن میں امریکہ جنوبی کوریا وغیرہ شامل ہیں۔

یہ سال جاگیرداروں کی موت کی شروعات یعنی فرانس میں بھی بڑی تحریکوں کے اظہار کا سال رہا جس میں مزدور طبقے کی بڑی تعداد نےاحتجاج کرکےنظام سے بیزاری کا اظہار کیا۔ عالمی سرمایہ داری کی بحرانی کیفیتیں مزید گہری ہوتی دکھائی دیں ہیں۔ یورپ بھی بہت سی شہری سہولتوں میں کمی کرتے دکھائی دیا، اسی طرح روس میں موجود پیوٹن کی سربراہی میں بورژوازی کے خلاف عظیم اسٹالن کی تصاویر اٹھائے مزدور تحریکیں چلاتے نظر آئے۔ روس ، امریکہ فرانس و آسٹریلیا میں سوشلزم کی آواز بڑی خوفناک آواز میں سنائی دی جس کا ربط نظام کے بحران کے ساتھ جڑتا ہے۔ جس کا حل اب نظام کی تبدیلی کے ساتھ جڑ کر رہ چکا ہے۔

ہندوستان میں طلبہ تحریک کے بعد تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج ریکارڈ کروائے گئے اور نظام سے نجات کا مطالبہ کیا گیا۔ ریاست جموں کشمیر کی تحریک پر ہندوستانی ریاست کے جبر کی بےبسی اور کشمیری مزاحمت کل کو کشمیر میں آزادی کے سورج کی امید ہے۔ کشمیر میں ہندوستانی ریاستی جبر پر طلبہ کا مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا، تمام اسکول کالجز کا بند ہونا ، عورتوں بچوں نوجوانوں اور بزرگوں کا تحریک میں شامل ہونا ، لڑنا اور لڑنے کے بعد ایک بار پھر جان دار تحریک کا آغاز کرنا ہندوستان میں ایک شعلے کی مانند ہے۔

کشمیر میں ریاستی جبر پر ہندوستان کے طلبہ اور ترقی پسند کا کھڑے ہوکر لڑنا اور حکومت کے خلاف جانا ، ہندوستان میں محکوم عوام کی جڑت کی ایک بڑی وجہ ثابت ہورہا ہے۔ ہندوستان میں تیزی سے ابھرتا شعور کل کو عظیم ہندوستان میں سوشلزم کی تعمیر کی ضمانت ہے۔

پوری دنیا جس بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے ، وہ دراصل عالمی سرمایہ داری نظام کے استحصال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کی ایک گھمبیر شکل ہے ، موجودہ بحران کا خاتمہ اب اصلاحات نہیں بلکہ انقلابات سے ممکن ہے۔ اگر ہم اسی تناظر میں پاکستان اور اس کے مقبوضہ علاقوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ عام دنوں کی نسبت چیزوں نے بہت تیزی سے حرکت کی ہے۔

پنجاب اور پاکستانی زیر انتظام علاقوں میں عام خاموشی نے ایک زبردست مزاحمت میں تبدیلی اختیار کی ہے۔ ہم جائزہ لیں تو اب کی بار پنجاب کا بالائی حکمران بھی لڑائی میں کھل کر اسٹبلیشمنٹ کے سامنے آیا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں اسٹبلیشمنٹ کا کھل کر وار کرنا اور اس کے جواب میں ایک بھرپور مزاحمت کا ابھر کر آنا چیزوں کی تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے۔ راولپنڈی پنجاب کچہری ،دیہاتوں اور شہروں میں ”خلائی مخلوق” کے نام سے اسٹبلیشمنٹ کے خلاف عوام کا اٹھ کھڑا ہونا اور نعرے بازی کرنا عوام کی بےچینی کا اظہار تھا۔ مظلوم پشتون قوم کا ایک طاقتور اور جاندار آواز کے ساتھ سامنے آ کر بڑی دلیری سے ملک پر قابض اداروں اور طبقے کے خلاف آواز بلند کرنا اور پھر اس پر پوری ریاست میں احتجاج کرکے عوام سے خطاب کرنا ایک بڑا معیاری فرق تھا۔

بلوچ تحریک کا بھی سابقہ پالیسیوں کی نسبت اب مزید عوامی ہونا اور پشتون بلوچ اتحاد کے بعد اپنی محکوم لڑائی کو لڑنے کا عمل محکوم قوموں کے اتحاد کی جانب ایک بہتر پیش رفت ثابت ہوئی۔ جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی، پیپلز نیشنل یوتھ لیگ سمیت عوامی اور قومی حقوق کی سیاست پر یقین رکھنے والے جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیاسی کارکنان کا راولپنڈی پریس کلب کے سامنے پشتون و بلوچ تحریک کے ساتھ یکجہتی کے لیے مظاہرہ بھی محکوم قوموں اور عوام کے اتحاد کی بنیاد پر لڑنے کا ایک جاندار اشارہ تھا۔

اسی طرح جب ہم پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر و گلگت بلتستان کے حالات کو دیکھتے ہیں تو یہ سال حرکت ، حادثات اور دھماکوں سے بھرا پڑا ہے۔ حرکت اپنی رفتار کے ساتھ ساتھ معیارات بھی بدل چکی۔ جابر کا جبر بڑھنے کے ساتھ عوام کا غم و غصہ بھی سامنے آیا۔ گلگت بلتستان کے لئےآرڈیننس 2018 پاس کیا گیا۔ جس کا مقصد گلگت بلتستان میں موجود وسائل کو ہڑپنے ،عوام پر مزید ٹیکس بڑھانے اور سی پیک کو من چاہی راہ فراہم کرنا تھا۔ گلگت بلتستان کے حقوق کی جنگ لڑنے والے ترقی پسندوں کو ہراساں کرنے اور اُن کو شیڈول فور میں ڈالنے جیسے اقدامات کیے گئے۔ صوبہ و عبوری صوبے جیسے نعرے دیے گئے ، عوام کو گمراہ کرنے کے ہر سیاسی حربہ استعمال کیا گیا مگر عوام نے ٹیکس بڑھنے پر ہی مارچ کے مہنیے میں عوامی ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام تاریخی احتجاج ریکارڈ کروا دیے۔ گلگت کو مکمل طور پر ایک کمیٹی نے جام کرکہ رکھ دیا جس سےبالا دست ا قوتوں نے گھبرا کر فیصلے واپس لیے۔

پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر میں بھی ایکٹ 1974 پر ترمیم کی گئی ، جس کے نتیجے میں آزاد کشمیر اسمبلی کو مزید بے اختیار کرکہ سارے اختیارات کو وزیراعظم پاکستان کو منتقل کیا گیا۔ پاکستان کی طرف سے اپنا جبر مزید مضبوط کیا گیا۔ خطے میں ڈیم تعمیر کرکے پرانے ڈیموں کے ساتھ ساتھ نئے ڈیموں کا اختیار بھی حکومت پاکستان کو دے دیا گیا اور خطے کے عوام کو مزید بے بس کرنے کے حربے اختیار کیے گئے مگر وہ محنت کش عوام ہی کیا جو جبر کے نتیجے میں بغاوت کا علم کا تھامے؟ تاریخ میں سب سے بڑے مظاہرے مظفرآباد دریاؤں کا رخ تبدیل کرکے پانی کو پاکستان منتقل کرنے اور مقامی لوگوں کو اس سے محروم کرنے کی بھیانک سازش کے نتیجے میں سامنے آئے۔ جس سے نہ صرف مظفرآباد بلکہ پورے ”آزاد کشمیر” نامی خطے میں عوام کی طرف سے احتجاج کیا گیا۔

دریا ڈیم اور بجلی کے مسئلے پر مکمل طور پر یکے بعد دیگرے احتجاج ریکارڈ کروا کر عام میں موجود جمود کو توڑا گیا۔ جس میں ریڑہ ، مظفرآباد، ہاڑی گہل ، داتوٹ ،تراڑکھل ، کوٹلی، میرپور سمیت ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے میں احتجاج کیے گئے۔ نہ صرف بجلی کے مسئلے بلکہ ایکٹ 74 کی ترمیم کے بعد ٹیکسوں کے خلاف بھی ایک منظم تحریک نے جنم لیا جس میں ضلع باغ میں سب سے پہلے انجمن تاجران اور ٹرانسپورٹر حضرات نے مکمل بازار و گاڑیاں بند کرکے احتجاج ریکارڈ کروائے جس کے نتیجے میں یہ تحریک خطے کے باقی حصوں میں بھی پھیلی اور باقی اضلاع نے بھی اس کے خلاف احتجاج کیے۔ اپنے حقوق کی جنگ لڑتے بھیڈی کے نوجوانوں نے فاروڈ کہوٹہ سے مظفرآباد پیدل لانگ مارچ کرکے ریاست کے ہوش گنوا دیے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ریاست کی رٹ ہر گلی محلے اور گھر میں چیلنج ہوتی نظر آئی۔

اسی طرح ہندوستان کی حکومت نے ریاست جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے ایکٹ 35-اے میں ترمیم کرنے کی کوشش کی جس کو بھیانک قسم کی عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ، جس پر عدالت نے بھی ہندوستانی مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال رکھا۔ کچھ ایسا ہی انکشاف راولاکوٹ پونچھ میں زمینوں کو غیر ریاستی ریٹائرڈ فوجی افسروں کو دینے کے ساتھ ساتھ بیرونی شہریوں کو بیچنے کا ہوا جس کو لے کر ایک بار پھر عوامی مزاحمت دیکھنے کو ملی۔ اسی طرح سیز فائر لائن پر پاکستانی اور بھارتی فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہونے والے عام انسانوں کی اموات، املاک کی تباہی اور لوگوں کی نقل مکانی پر بڑے پیمانے پر امن مارچ کئے گئے اور ایک امن مارچ پر ریاستی جبر کی صورت میں نعیم بٹ شہید ہوئے جس سے ریاستی نظام کا گھناونا کردار اور کاسہ لیسی کھل کر سامنے آئی۔ 2018 کے آخر میں کشمیری سیاست کار سردار خالد ابراہیم کی وفات کے بعد دستور ساز اسمبلی میں ان کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخابات کے نتیجے میں ان کے بیٹے کو تقریبا آٹھ سو ووٹوں سے فتح ہوئی۔

کسی بھی خطے کا مطالعہ کیجیے ، ہم یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ پوری دنیا ہلچل کے عہد سے گزر رہی ہے ، پرانی چیزیں ٹوٹ رہی ہیں اور نئی چیزوں کا جنم ہو رہا ہے۔ اس سال نے چیزوں کی تبدیلی میں نقش و نگار کو واضح کیا۔ اب منزلیں واضح ہوچکی ہیں ہر خطے نے ایک منظم چھلانگ(انقلاب) کی تیاری تقریبا مکمل کر رکھی ہے ، جس کا اظہار کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ اب محنت کش کےراج کو روکنا ممکن نہیں رہا۔ موجودہ سماجی ہلچل ، عوامی مزاحمتی تحریکوں کا جنم اور حکمران و غاصب کی گرفت کے کمزور ہونے کے عمل سے ہم مستقبل قریب میں محنت کش عوام کو راج کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے