کوہالہ ہائیڈل پراجیکٹ اور مفاداتی ترجمان

ترجمان لکھتا ہے کہ:
کوہالہ ہائیڈل پراجیکٹ کی تعمیر میں رکاوٹیں مظفرآباد شہر اور آزادکشمیر میں سرمایہ کاری کے خلاف ہیں ۔ سی پیک کے ثمرات سے فیض یاب ہونے کے لیے پاکستان کے صوبے اپنے اپنے علاقوں میں منصوبے لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ، مگر آزادکشمیر ایسا بدقسمت خطہ ہے جہاں حکومت سی پیک کے زیادہ سے زیادہ ثمرات سمیٹنے کے بجائے کوہالہ ہائیڈل پراجیکٹ کو سبوتاژ کرنے کے لیے بڑے عرصہ سے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور چینی کمپنی کو بھگانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں ۔

ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ:
ایسا کر کے کفران نعمت اور ناشکری کی جا رہی ہے ، حکومت کو اس منصوبے میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ اس میں اس کے ذاتی مفاد نہیں ، چینی کمپنی حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کو نواز نواز کر تھک گئی ہے لیکن روز حکومتی بلیک میلنگ بڑھتی جا رہی ہے ۔

ترجمان افسوس کا اظہار کر رہاہے کہ
ہمارا اجتماعی شعور ان حالات کو سمجھنے کے بجائے محض دریا کی خشکی کو لے کر حکمرانوں اور بعض ٹھیکیدار کمپنیوں کے مفادات کا ایندھن بن رہا ہے

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ
قسمت کی دیوی بار بار دروازے پر دستک نہیں دیتی ۔

مسئلہ یہ ترجمان نہیں ،مسئلہ ترجمان کے پشتی بانوں کی سوچ ہے، یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے، 31دسمبر کے ڈان اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی پہلے اُس خبر کا متن دیکھتے ہیں ۔

Since AJK is not part of Pakistan under the constitution, The State is not entitled to receive share from hydrel profit. However considering it as an issue of justice and equality, the federal Government has agreed to give equal share to AJK on a par with KP and Punjab. Since AJK had no representation in the national finance commission, council of common interests and Indus River System authority, no benefit was given to AJK.

اس متن میں ہم پر احسان عظیم کیا گیا کہ ہم آئینی حصہ نہ ہونے کی وجہ سے قومی مالیاتی کمیشن، ارسا، مشترکہ مفاداتی کونسل کا حصہ نہیں لیکن انصاف اور برابری کے معاملہ کو دیکھتے ہوئے آزادکشمیر کو خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے برابر ہائیڈل پرافٹ میں حصہ ملے گا۔ ڈان اخبار پاکستان کی ٹاپ لیڈر شپ اور بیورو کریسی کا پسندیدہ اخبار ہے، اس اخبار میں ایسی خبر شائع کرنے کا مطلب کہ آزادکشمیر کے لوگوں کو بدوں استحقاق نیٹ ہائیڈل پرافٹ دے کر احسان عظیم کا مائنڈ سیٹ بنانا ہے، جبکہ حقائق اس سے باالکل مختلف ہیں۔ آزادکشمیر کا پاکستان سے انتظامی رشتہ ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پاکستان کا اس خطہ پر کنٹرول ہے، تاہم منقسم کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری سے مشروط ہے، یہ بھی درست ہے کہ آزادکشمیر پاکستان کا آئینی حصہ نہیں، اگر آئینی حصہ نہیں تو یہاں ڈیم اور ہائیڈل پراجیکٹ بنانے کی کیا جوازیت ہے اور وہ بھی یہاں کے لوگوں اور لولی لنگڑی حکومت سے معاہدہ کیے بغیر؟۔۔۔ یہ سب کچھ آزادکشمیر حکومت کی حیثیت جو پاکستان کی تشکیل کردہ ہے، پاکستان کے آئین ،اقوام متحدہ کی قراردادیں اور حق خود ارادیت کے تحت اس خطہ کے وسائل پر یہاں کے لوگوں کے حق کو تسلیم نہ کرنے کی مشق ہے، جب آئینی حصہ نہیں تو پھر پراجیکٹ کیسے بن رہے ہیں؟۔۔۔۔۔ بات سیدھی ہے اگر ہم اپنے حق اور حصے کی بات کریں تو کہا جاتا ہے آپ ہماراآئینی حصہ نہیں اور جب ان پراجیکٹس کی تعمیر کی مخالفت کی جائے تو الزامات عائد کیے جاتے ہیں اور ترجمان میدان میں اتارے جاتے ہیں ۔

ترجمان کی اپنی تنخواہ کا مسئلہ یقیناً ترجیح اول ہے، ایسے کئی اور ترجمان سامنے آئیں گے، جنہیں اپنی تنخواہ تک غرض ہے پاکستان اور آزادکشمیر کے لوگوں سے کوئی غرض نہیں، ترجمان نے فاروق حیدر پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے اور ان کے خاندان نے کوہالہ ہائیڈل پراجیکٹ سے فائدہ اٹھایا ہے ، ترجمان کے اوپر نیچے دونوں جملے پڑھیں

پہلا جملہ’’حکومت کو اس منصوبے میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ اس میں اس کے ذاتی مفاد نہیں ‘‘۔۔۔۔۔دوسرا جملہ ۔۔۔۔چینی کمپنی حکمران اور ان کے خاندانوں کو نواز نواز کر تھک گئی ہے‘‘

اب آپ خود فیصلہ کریں یہ دونوں جملے ایک دوسرے کے متضاد نہیں؟ یقیناً کرائے کی تحریر ایسی ہی ہوتی ہے۔ ابھی کئی مزید کرائے کے لکھاری میدان میں اتریں گے۔۔۔۔ میرا یقین ہے کہ وہ بھی ایسے ہی بے نقاب ہوں گے، اس لیے کہ دریاؤں کے رخ تبدیل کرنے، لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے حق میں کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی۔ رہی بات ہائیڈل پراجیکٹس کی مخالفت ۔۔۔۔کا لا باغ ڈیم کی شکل میں تو تاریخ اور ریکارڈ کا حصہ ہے ، ہمارے ہاں تو اہل میرپور نے دو مرتبہ قربانی دی، واپڈا نے بدوں معاہدہ نیلم جہلم مکمل کیا، اپنی آباد کاری اور دیگر مسائل کے حوالے سے لوگوں نے آواز اٹھائی مگر پراجیکٹ کی مخالفت نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کو جہنم میں دھکیل دیا گیا، درجنوں دیہاتوں کے پانی خشک ہو گئے، مظفرآباد شہر کی موجودہ آبادی اور آنے والی نسل موت کے حوالے کر دی گئی۔ اب کوہالہ پراجیکٹ میں وہی مشق کی جا رہی ہے، کرائے کے ترجمان اور لکھاری بھی میدان میں اتار لیے گئے، جملہ ہے دریاؤں کی خشکی کا بہانہ بنا کر ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے ، دریاؤں کی خشکی ان کا رخ تبدیل کرناہی تو لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔

اگر فاروق حیدر لوگوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوں گے تو تاریخ میں اچھے لفظوں میں یاد کیے جائیں گے اگر ایسا نہ کر سکے۔۔۔۔۔تو تاریخ میں میر جعفر اور صادق کے کردار ضرور مد نظر رکھیں ، رہی بات ایسے ترجمانوں کی توان کی حیثیت ایک ٹشو سے زیادہ نہیں ہوتی ۔
رہی بات کوہالہ ہائیڈل پراجیکٹ کو تعمیر ہونا چاہیے یا نہیں۔اس بارے میں اختلاف موجود ہے۔میری ذاتی رائے یہ ہے اگر یہ ناگزیر ہے تو اسے چلتے دریا پر بنایا جائے مگر آزاد حکومت سے معاہدہ کر کے یہاں کے لوگوں کے حقوق اور مفادات کا مکمل تحفظ کرتے ہوئے ہی اس کی تعمیر کی جائے۔جس کا کوئی بین الاقوامی ضامن ہو ۔کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ ہمارے اعتبار اور محبت کو ہمیشہ ہماری کمزوری اور بیوقوفی سمجھا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے