سزا بھی ضروری ہے مگر ۔۔۔!

سزا وجزا کانظام مذہب و ریاست میں اس لیے ہوتاہے کہ اس سے خوف زدہ ہوکر مجرمانہ ذہنیت کے لوگ تائب ہوں اورپاکیزہ زندگی بسر کرنے لگیں ۔ ہمارے یہاں بھی یہ نظام ریاستی سطح پر نافذ ہے کہ مختلف مجرموں کو ان کے گناہوں کی سزا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیوں کہ یہاں نظام ِ عد ل ایساہے کہ "دے دِ لا ” کر اپنے کو شفاف قرار دلوایاجاسکتاہے ۔ زینب کا مقدمہ ایسے چند مقدما ت میں ہے جن میں مدعی کو انصاف مِلاہے ۔

سال بیت چُکا ہے اس اندوہ ناک واقعے کو جسے سوچ کر بھی انسان کا رواں رواں کانپ اٹھتا ہے ۔زینب! آج سے ایک برس پہلے 10،11 جنوری کوہی یہ نام ذرائع ابلاغ میں اہم مسئلے میں سامنے آیا ۔ قوم نے یک زبان ہوکراس پر ہونے والے ظلم کی مُذمت کے ساتھ ظالم کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ۔ چند روز میں ملزم پکڑاگیا ،اس نے اقرار ِ جرم کیااور اسے سزاے موت دے دی گئی۔

اس مقدمہ کے فیصلہ اور مجرم کو مِلنے والی سزا کا سماج پر کیا اثر پڑا ہے اس پر کوئی مثبت رائے قائم نھیں کی جاسکتی ۔ زینب کے مجرم کو پکڑنے کے بعد سے اب تک کئی ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں زینب سے بھی کم عمر بچوں اور بچیوں کو درندگی کانشانہ بنایاجاچکا ہے ۔ بھکر میں ایسا ظلم بھی ہواکہ بچے کو درندگی کانشانہ بنانے کے بعد اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے ۔ مذہب و ریاست کا یہ نظریہ کہ سزا سے جرائم کی شرح کو کم کیاجا سکتا ہے اپنی جگہ پر درست ہے مگرسزاؤں کاخوف تب ہی پیداہوتا ہے جب سزا کانظام مؤثر اور منصف باضمیر ہوں ۔

یہاں 100 واقعات میں سے 20 ،30 ذرائع ابلاغ میں بطور خبر کے سامنے آتے ہیں اور ان میں سے سزائیں 2 مجرموں کو ملتی ہیں تو اس طرح سماج میں جرائم کی شرح کم ہونے کاخواب دیکھنا ایک مذاق ہے ۔ سزا ایک علاج ضرور ہے مگر ایک ہی علاج نھیں ہے۔ہم نے سزا کو بطور ایک ہی علاج کے رائج کیا ہواہے اور جرائم کے دوسرے پہلوؤں کی طرف توجہ نھیں دے رہے جس کے سبب ہم جرائم کی شرح کم کرنے میں ناکام ہورہے ہیں ۔

دہشت گردی ،چوری ،راہزنی اور جنسی ہذیان جیسے مسائل کےدوسرے پہلوؤں کی طرف ہم نے توجہ نھیں کی ۔ چند لوگوں کو پکڑ کر انھیں ایک عرصہ تک جیلوں میں قید کرنے یا سزائیں دینے اور عسکری کارروائیوں میں انھیں "پار” لگانے کے علاوہ ان مسائل کی جڑوں تک پہنچنے کی کوشش ریاست وسماج کی ترجیحات میں نھیں رہی ۔ اس سے مجرموں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے کیوں کہ ان مسائل سے نجات کے لیے فکری سطح پر کوئی کام نھیں ہورہا۔

سزاؤں کےمؤثر نظام کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ جرائم کے پسِ منظر، مجرم کی ذہنی کیفیت اور اس میں پروان چڑھنے والے منفی رجحانات کا بغور جائزہ لیاجاناچاہیے ۔ اگر ایسا نھیں کرتے توپھر محض سزائیں ہمیں ان مسائل سے نجات دلانے میں کامیاب نھیں ہوسکتیں ۔ مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات بھی ان مسائل کاسامنا کرتے ہیں جن میں ان کے ہم مکتب ساتھیوں اور اساتذہ کاگھناونا کردار ان کی زندگی تباہ کرنے کاسبب بنتاہے۔ یوں یہ کہنا کہ مذہبی یا عصری نظام تعلیم منفی رجحانات کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے غلط ہے بلکہ اس کے لیے ہمیں فکری سطح پر ان مسائل سے نجات پانے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی ۔کیوں کہ مجرموں کی بڑی تعداد اداروں میں نھیں بلکہ سماج میں رہتے ہوے بُرائیوں کے فروغ کاذریعہ بنتی ہے ۔

لیکن چوں کہ ہم سہل پسند قوم ہیں جبکہ فکری سطح پر کام کرنے ،جرائم کے پسِ منظر اور مجرم کی ذہنی کیفیات کاجائزہ لینے کے لیے محنت وغور وفکر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اسی نظریے کاپرچار کرتے ہیں کہ سزائیں ہی سماجی برائیوں کے خاتمے کاذریعہ ہیں کیوں کہ سزادینا نہایت آسان ہے ۔ ۔ریاست و سماج اسی میں آسانی محسوس کرتے ہیں کہ مقدمات جتنا جلدی ممکن ہوں نبٹادیے جائیں اورایسا بھی ہوتاہے کہ مقدمہ کی تفصیل میں جایا جاے تو ندیشہ ہوتاہے کہ پُشت پر کوئی صاحبِ حیثیت ہوں گے تو مقدمہ دبا دینا ہی بہتر ہے۔ سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے تھانہ کچہری کے معاملات میں ماہرین نفسیات،ماہرین ِ سماجیات اور ماہرین ِ تعلیم سے بھی رجوع کرنا چاہیے۔ اس سے ہمیں سماجی بُرائیوں کے خاتمے میں مدد ملے گی اور زینب وفریال جیسی کلیوں کو محفوظ زندگیاں جینے کا موقع ملے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے