بوڑھی اتفاق فائونڈری کی کہانی

گھر اس وقت تباہ ہوتے ہیں جب اس کے مکین اس کی اینٹیں بیچنے لگتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ہمارا گھر اتفاق فائونڈری کے ہمسائے میں تھا۔ اردگرد کے کئی لوگ یہاں مزدور‘ کاریگر یا کلرک وغیرہ کے طور پر کام کرتے تھے۔ بتایا جاتا تھا کہ میاں نواز شریف کے پانچ چھ چچا تائے اور ان کی اولاد بھی یہاں کچھ نہ کچھ کام کیا کرتیں۔ مالکان میں سے ایسے بھی تھے جو اپنا ذاتی خرچ پورا کرنے کے لئے گاڑی کی ڈگی میں پیتل کا کوئی ٹکڑا رکھ کر اسے باہر بیچ دیتے۔ اس طرح کے واقعات بے شمار ہیں۔ یہ اتفاق فیکٹری ایک خاندان کی کاروباری ساکھ تھی یہاں چار پانچ ہزار مزدور کام کرتے تھے مگر جوں جوں شریف خاندان سیاست میں آگے بڑھا یہ کارخانہ خاندان میں نااتفاقی اور جھگڑے کا سبب بن گیا۔ نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے تو یہ شاندار فائونڈری سیاست کی نذر ہونے لگی۔دوسری بار وزیر اعظم بنے تو کارخانہ اجڑ گیا۔ سب حصہ داروں نے الگ الگ کارخانے لگا لئے۔

حکومت اپنی تھی اس لئے خاندانی جھگڑے نمٹانے کے لئے شوگر‘ ٹیکسٹائل اور دیگر کاروبار کے لائسنس اور بینکوں سے قرضوں کا انتظام کر کے تمام حصہ داروں کو مطمئن کر دیا گیا۔ بوڑھی اتفاق فائونڈری کے نام پر کئی ارب کے قرضے ایک بار پھر لئے گئے۔ پرویز مشرف آئے تو بینک قرضوں کی عدم ادائیگی پر اتفاق فائونڈری ضبط کر لی گئی بلکہ شریف خاندان نے کئی جائیدادوں سے دستبرداری کا معاہدہ کیا۔ اتفاق فائونڈری پہلے ہی بند تھی۔ اب نہ کوئی چوکیدار نہ محافظ۔ چوروں نے دیواروں کو جگہ جگہ سے توڑ کر راستے بنا لئے۔ آغاز نشے کے عادی افراد نے کیا۔ وہ اندر جاتے لوہے کا کوئی ٹکڑا چرا کر لے آئے اور اپنی ضرورت پوری کر لیتے۔ پھر دوسرے چوروں نے یلغار کی بوریاں بھر بھر کر سامان باہر لے آتے۔ فیکٹری بہت بڑی تھی۔ سکریپ ‘ تیار مصنوعات‘ مشینری ارو دیگر سامان کی کمی نہ تھی۔ دیواروں کے سوراخ نما راستے بڑے ہوتے گئے۔

این آر او کی برکتوں سے شریف خاندان وطن واپس آیا۔2008ء کے انتخابات میں پنجاب میں ان کی حکومت بن گئی۔ پولیس‘ بیورو کریسی‘ بینک ایک بار پھر تابعدار ہو گئے۔ اتفاق فائونڈری کو بنک نے نیلام کرنے کا اعلان بھی شریف خاندان کی واپسی کے بعد کیا۔ مہنگے وکیلوں نے کام دکھایا۔ نیلامی کے کام کو رکوا دیا گیا اور پھر داخلی بندوبست کرکے اپنے ہی ایک گروپ کے ہاتھ فیکٹری بیچ دی گئی۔ اس فروخت سے پہلے اہل علاقہ نے عجیب ڈرامہ دیکھا۔ ٹوٹی ہوئی دیواروں کے ساتھ رات گئے کچھ ٹرک آ کر لگ جاتے۔ چور فائونڈری کا سامان ان پرلوڈ کرتے۔ پھر اچانک کسی پیدل چور کا تعاقب کرتے ہوئے پولیس کی فائرنگ کی آواز آتی۔ لوگ گھروں میں دبک جاتے اور بڑے چور بغیر کسی رکاوٹ کے سامان سے بھرے ٹرک نکال لے جاتے۔

تھانہ فیکٹری ایریا میں اس زمانے میں سینکڑوں درخواستیں دی گئیں اور چوروں کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا گیا مگر پولیس تو نامعلوم بڑے چوروں کی محافظ بنی ہوئی تھی۔ جب بنک نے فائونڈری ضبط کی تو قرض کا حجم 4ارب روپے کے قریب تھا۔ اس وقت اتفاق کی اصل قیمت سات ارب کے قریب تھی۔ سات آٹھ سال بعد جب بنک نے اسے شریف خاندان کے رشتے دار گروپ کو فروخت کیا تو اس کی صرف زمین کی قیمت دس ارب کے قریب ہو چکی تھی۔ عمارت‘ بھاری مشینری اور چوروں سے بچ جانے والا سامان کئی ارب روپے کا تھا۔بینک کوقرض کے برابر نیلامی پھر بھی نہ ملی اور تاریخی کارخانہ منہدم کر دیا گیا۔ ملک ریاض نے اسے ایک مہنگے ہائوسنگ و کمرشل منصوبے میں ڈھال دیا ہے۔

جہاں اونچی دیواروں کے پرے جامن اور آم کے پیڑ دکھائی دیتے تھے اور ان پیڑوں سے پرے لوہے کے بھاری ٹکڑوں کے گرنے کی آوازیں آیا کرتی تھیں اب وہ اتفاق فائونڈری پلاٹوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ شریف خاندان نے اتفاق کے نام سے ایک کارخانہ سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں لگا لیا ہے۔ دو تین سال پہلے شہباز شریف کا ایک انٹرویو ٹی وی پر دیکھا۔ کہہ رہے تھے ’’میٹرو بس اور ٹرین منصوبے میں اتفاق کی مصنوعات استعمال ہونے کا الزام غلط ہے۔ اتفاق تو کئی سال ہوئے بند ہو گئی۔ ہو سکتا ہے میٹرو منصوبوں میں رائے ونڈ سندر انڈسٹریل اسٹیٹ والی اتفاق فیکٹری نے براہ راست اپنی مصنوعات نہ فروخت کی ہوں مگر کارخانے کے ذرائع بتاتے ہیں کہ ان منصوبوں پر جب کام ہو رہا تھا تو فیکٹری کی پیداوار دن رات بڑھ رہی تھی۔ اب یہ کون سا مسئلہ ہے کہ آپ کسی ڈیلر کو سپلائی ٹھیکہ دے دیں اور پھر اپنا مال بیچتے رہیں۔

مقصد تو لوہا بیچنا ہے۔ وہ بک رہا تھا۔ مہینے میں تیس دن ہوتے ہیں۔ سات دن قومی اسمبلی کا اجلاس ہو، دو دن آنے جانے میں گزر جائیں، پھر ایک ہفتہ تک پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس جاری رہے تو بتائیے نیب شہبازشریف سے کیا تفتیش کرے گا۔ ہماری بدقسمتی کہ سیاسی نظام کی ہر کتاب میں ریاست کے اقتداراعلیٰ کو جو برتر حیثیت حاصل ہے ہمارے ہاں ریاست وہی طاقتور نہیں، یہاں ہر طبقے کے ساتھ ریاست کا تعلق الگ ہے۔ ریاست اور شہری کے باہمی تعلق کی وضاحت کرنے والی دستاویز کو آئین کہتے ہیں۔ آئین پاکستان شہری کو جو ضمانتیں دیتا ہے وہ پوری نہیں ہورہیں۔ ہم عوام تو صرف چھوٹے چھوٹے مینڈک ہیں جو سمجھتے ہیں سارا پاکستان‘ اس کی نہریں اور شادابی ہماری ہے۔

مینڈکوں کے لئے ایک آنکھوں دیکھا واقعہ پیش ہے: سرسوں کے قد آور پودے برسیم کے سبز کچورکھیت کی مینڈھوں پر کھڑے تھے۔ ہوا میں گھلی ہوئی خوشبو بتا رہی تھی کہ یہ زمین انسان کی بری نظر سے ابھی تک محفوظ ہے۔ کھیتوں کے درمیان ایک کچا راستہ چلا جا رہا ہے۔ راستے کو درمیان سے ایک کھال کاٹ دیتا ہے۔ کھال میں صاف پانی بہہ رہا ہے۔ تہہ میں اگے گھاس کی پتیاں تک گنی جا سکتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے دو مینڈک جانے اپنی گرم پناگاہوں سے کیسے باہر پھر رہے تھے۔ شائد ماں باپ سے پوچھے بنا کھیلتے کھیلتے اس طرف آ گئے جہاں پچھلے دو گھنٹوں سے ایک بگلا گردن جھکائے‘ بت بنا بیٹھا تھا۔ ننھے مینڈک کھال سے باہر آ گئے تھے۔ شلجم کے بکھرے ہوئے پتوں پر اچھل کود کر رہے تھے کہ بگلا جاگ گیا۔ لمبی لمبی ٹانگیں شکار کی طرف بڑھنے لگیں‘ شیر ہو‘ بلی ہو یا بگلا شکار کرتے وقت ان کا بدن خود بخود شکاری بن جاتا ہے۔ایک مینڈک ذرا دور ہوا تو بگلے نے جھٹ چونچ میں دبا لیا۔ ہلکا سا شور‘ چیخنا چلانا اور ہاتھ پائوں مارنا بے سود ثابت ہوا۔ کچھ دیر چونچ میں جکڑا رہا پھر بے دم ہو گیا۔ بگلے نے سالم لقمہ بنا کر پیٹ میں اتار لیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے