سلاحِ معنویہ- خوابیہ وکشفیہ

لگتا ہے کہ عمران خان اور کچھ کرے نہ کرے مگرپاکستان سے کٹھ ملائیت کا صفایا کرجائے گا-

صورتحال کچھ یوں ہے کہ کوئ مولوی، کسی "عملی دلیل” کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف کچھ کہتا ہے تو جدید تعلیم یافتہ نوجوان، سوشل میڈیا پر اسکے علم کی بتی بناکر رکھ دیتے ہیں- اگر کوئ مولوی "خلوص دل” کی بنا پر عمران خان کی حمایت میں کچھ کہتا ہے تو اسکے ہم مسلک مولوی ، اسکی بزرگی اسکے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں- غرض مولوی طبقہ میں ایک غدر مچا ہوا ہے-

آپ جانتے ہیں کہ دلیل کی جنگ میں مولوی کا آخری ہتھیار”خواب ” یا "کشف” ہوا کرتا ہے- اس بنیاد پر، قیام پاکستان سے ہی علمائے دیوبند کے دوگروپ بن گئے تھے- میں ان کو گروپ الف (خوابوں والے) اور گروپ ب(کشف والے) کا نام دیتا ہوں-

چنانچہ گروپ الف کے سرخیل، قائد اعظم کے دست راست، مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے” خواب” دیکھا کہ نبی کریم اورصحابہ کرام، اٹھ کرقائد اعظم کا استقبال فرما رہے ہیں- گروپ ب کے مولانااحمد علی لاہوری (جو جمعیت علماء کے سرپرست تھے)، انکو بہرحال یہ” کشف” ہوا کہ اعمال بد کی وجہ سے قبر میں جناح صاحب کی شکل بدل دی گئی ہے-

آگے چلئے- جنرل ضیاء الحق نے سیاستدانوں پہ شب خون مار کر مارشل لاء لگا دیا تھا- جس پر گروپ ب کے مفتی محمود مرحوم کو”کشف” ہوا کہ جنرل ضیاء، قادیانی ہے-( جمعیت کے ایک محترم سینئر ساتھی کے مطابق انکے پاس اس جلسہ کی کیسٹ موجود ہے جس میں کارکنان نے ضیاء قادیانی ایجنٹ کے نعرے لگائے تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ ایجنٹ نہیں بلکہ خود قادیانی ہے)- البتہ گروپ الف والوں نے جنرل ضیاء کے لئے مبشرات پر مشتمل باقاعدہ رسالہ شائع کیا جس میں رسول کریم نے خواب میں جنرل ضیاء کو خصوصی سلام بجھوائے تھے-

اب عمران خان پر آجایئے-

گروپ ب کے مولانا فضل الرحمان کو”کشف” ہوا کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے-دستور کے مطابق، گروپ الف کا” خواب” آنا باقی تھا- الحمدللہ، اسکی ویڈیو آچکی ہے جسکے مطابق نبی کریم نے خواب میں بتایا ہے کہ عمران خان تو میرا بندہ ہے-

تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ سوشل میڈیا پہ ایک ویڈیو اپ لوڈ کی گئی ہے جس میں لکھنئو کے ایک مولوی صاحب اور جامعۃ الرشید کے مفتی عبدالرحیم صاحب( وہی جو پچھلے دنوں فوجی ہیلی کاپٹر پر وزیرستان کا دورہ کرآئے)، حرم کعبہ کے صحن میں بیٹھے ہیں- مولانا کلیم صدیقی صاحب اپنا خواب سنا رہے ہیں جسکا خلاصہ یہ ہے عرفات کی شب انہوں نے خواب دیکھا جس میں رسول کریم نے انکو عمران خان کے وزیر اعظم بننے کی گویا مبارکباد دی-

اس کلپ کی تصویر اور آواز کو واضح رکھنے کیلئے ایک اچھے موبائل اور مائیک کا انتظام کیا گیا ہے- جس بے تابی و مسرت سے ایک بزرگ اپنا خواب سنا رہے ہیں اور جس خشوع سے دوسرے بزرگ سن رہے ہیں، ہردوبزرگان کے احترام کے پیش نظر میں اسکو "بے ساختہ ادکاری” تو نہیں کہہ سکتا مگر سب کچھ بڑامصنوعی سا لگ رہا ہے-

مجھے اس کلپ کے وائرل کرنے پر افسوس ہوا-اس لئے نہیں کہ یہ عمران خان کے حق یا مخالفت میں ہے- وجہ اور ہے-

دیکھئے، ایک عام مسلمان پر بھی بیت اللہ کے جلال کا وہ اثر ہوتا ہے کہ اسکو فقط تعلق مع اللہ کا ہی دھیان رہتا ہے اور اسی طرف لولگی ہوتی ہے- تبلیغ والے تو خیر سیاسی بات چیت کولایعنی کہتے ہی ہیں مگر عام مسجد میں بھی دنیاوی گفتگو کرنے سے منع کیا جاتا ہے- اب مذکورہ ویڈیو کلپ ، جس میں بیت اللہ کے صحن میں بیٹھ کر پاکستانی پالیٹیکس ڈسکس ہورہی ہے، اس میں عوام کی کیا تربیت کی جارہی ہے؟- اسی پر بس نہیں بلکہ جمہوری سیاست میں رسول کریم کو بھی انوالو کرلیا گیا اور پھر رسول کریم کے منہ مبارک سے بعینہ وہی جملہ کہلوایا گیا جو جنرل الکشن کی رات جنرل آصف غٖفور نے ٹویٹ کیا تھا یعنی نصر من اللہ وفتح قریب- میں نہیں مانتا کہ دومعتبر حضرات کا پرسنل کلپ بغیر اجازت کسی نے سوشل میڈیا پہ پھینک دیا ہے-( البتہ اس مضمون کے بعد اگر کوئ "وضاحت” آجائے تو آپ مزید سمجھ لیجئے گا)-

واضح ہو کہ ہم سیکولر مسلمانوں کے نزدیک کسی کے خواب یا کشف کی کوئ حیثیت نہیں( ورنہ خاکسار خود اپنے اس خواب کو اہمیت دیتا جو عمران خان بارے چھ سال پہلے دیکھا تھا)- تاہم، اپنی ذاتی حیثیت میں مجھے گروپ الف کی بجائے، گروپ ب کے مولوی صاحبان پسند ہیں-

اسکی دو وجوہ ہیں- ایک یہ کہ گروپ ب والے علماء، میدان عمل کے لوگ ہیں جو عوام کے جمہوری حقوق کیلئے قید وبند کی سختیاں برداشت کرتے رہے ہیں- دوسرے یہ کہ اس گروپ والے وسیع الظرف علماء ہوتے ہٰیں جنکی محفل میں ہر مسلک ومشرب کا بندہ، بخوبی ایڈجسٹ ہوجاتا ہے-

گروپ الف والوں کی اکثریت کا مگر دہرا روپ ہوتا ہے- یہ لوگ تدریس وتصنیف کے میدان کے لوگ ہیں اور خود کو غیر سیاسی باور کراتے ہیں مگر درحقیقت یہ غیر جمہوری قوتوں کا اثاثہ ہوتے ہیں جو موقع بر موقع، گروپ ب والوں کے مقابل لایا جاتا ہے-

مگر سیاست کے ہٹ کر بھی ، گروپ الف والے مولوی ، ڈبل گیم کے ماہر ہیں- داڑھی کے مسئلہ کو ہی دیکھ لیجئے- عام مسلمان کیلئے انکا فتوی یہ ہے داڑھی شیو کرانے والے کو جناب نبی کریم دیکھنا بھی پسند نہیں کریں گے- انکے پرکھوں کا یہ فتوی بھی موجود ہے کہ داڑھی شیو کرانے والا ایمان سے خارج ہوجاتا ہے- اسی جامعۃ الرشید کے بانی، مفتی رشید احمد صاحب مرحوم توہر نماز سے پہلے یہ اعلان کرتے کہ نابالغ حضرات پچھلی صفوں میں چلے جائیں-( نابالغ سے انکی مراد، داڑھی منڈے حضرات ہوتے تھے-بعد میں چند "مستقل مقتدیوں” کی شکایت کے بعدمفتی صاحب مرحوم نے یہ اعلان فرمانا بند کردیا تھا)-بہرحال، عام مسلمانوں کو داڑھی مونڈھنے پرنبی کریم کی ناراضی کی وعید سنانے والے گروپ الف کے مولوی، جب مسٹر جناح، جنرل ضیاء اور عمران خان جیسے کلین شیوڈ لوگوں کیلئے نبی کریم کو استقبال میں کھڑا کردیں تو اسکو دورنگی کے علاوہ کیا نام دیا جائے؟)-

برسبیل تذکرہ، مفتی رشید احمد صاحب کی زیرسرپرستی ، افغان طالبان کی امداد کیلئے”الرشید ٹرسٹ” اورپاکستانی نوجوانوں کے شکار کیلئے ایک ہفتہ واری میگیزین "ضرب مومن” شائع ہوتا تھا(جس میں ایک معروف کالم نگار، یاسر خان کے نام سے کالم لکھا کرتے تھے)- ضرب مومن کی اصل لاگت فی پرچہ سات روپے تھی مگر عوام کو پانچ روپے میں دستیاب تھا- (اب آپ الرشیدٹرسٹ کے بجٹ کا خود اندازہ کرلیں)-

ضرب مومن اخبار کی شہ سرخی پر، کسی سربراہ مملکت کی بجائے، مفتی اعظم پاکستان، مفتی رشید احمد صاحب کا فرمودہ شائع ہواکرتا تھا- چونکہ مفتی صاحب کو” رد المنکرات” کاآئیکون پینٹ کیا گیا تھا لہذا ہر شمارے میں”اللہ کے باغی مسلمانوں ” کے نام بھی انکا خصوصی پیغام شائع ہواکرتا تھا- اسی پیغام میں ایکبار انہوں نے لکھا کہ انکے پاس تبلیغی جماعت کے دو حضرات تشریف لائے جن میں سے ایک بنک میں ملازمت کرتا تھا- اسکو بنیاد بنا کر انہوں نے تبلیغی جماعت کی چھترول کی ہوئ تھی- اس دن بھی خاکسار کا ضبط ایسے ہی جواب دے گیا تھا جیسا کہ آج کے ویڈیو کلپ پر –

چنانچہ، سنہ 2001ءمیں حضرت مفتی صاحب کو خط لکھا جسکا لب لباب یہ تھا کہ مولوی اور مفتی کی سند تو مدارس سے مل جاتی ہے لیکن” پاکستان کے مفتی اعظم” کی سند، کس مدرسہ یا ادارے کی طرف سے ملتی ہے؟، اسکا خاکسار کو علم نہیں ہے- چونکہ آپ کے سامنے آپکو "مفتی اعظم پاکستان” لکھا جاتا ہے جو کہ صریح غلط بیانی اور” منکر” ہے تو آپ اس منکر کو کب روک رہے ہیں؟-

مولانا اسلم شیخوپوری شہید، جسمانی طور پر معذور مگر ذہنی طور پر بڑے قوی عالم دین تھے-غالبا” 2005ء کے حج کے دوران، منی میں خاکسار انکے ساتھ "خیمہ فیلو” تھا-وہ ضرب مومن کے صف اول کے لکھاری اور مفتی رشیداحمد صاحب کے عقیدت مند تھے مگر خاکسار کو بھی بات اگلوانے کا فن آتا ہے- چنانچہ، انکے ساتھ تین روزہ صحبت کے بعد، اپنے سیکولرنظریات پہ مزید پختگی حاصل ہوئ جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اگر شخصیات، معاملات اور روایات کو” تقدس” کی عینک کی بجائے” دلیل” کی عینک سے دیکھا جائے تو حقیقی آزادی کا ذائقہ محسوس ہوگا- وما علینا الا البلاغ-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے