’’دعا دیتا ہوں راہزن کو‘‘

چشم بددور، حضور پرنور، فیض گنجور، فخر جمہور، برکت قیدی نحوست مفرور! میں تو یہ پڑھ کر ہی لرز اٹھا ہوں کہ آپ کی حکومت نے 5ماہ میں قرضوں کے تمام تر گزشتہ ریکارڈتوڑ دیئے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی دستاویزات کے مطابق آپ کا کل قرضہ 2240ارب روپیہ بنتا ہے جس میں 1334ارب غیر ملکی اور 906 ارب ملکی قرض شامل ہے۔ دروغ برگردن سٹیٹ بینک، بغیرکسی معجزے یا بہت ہی ’’آئوٹ آف بوکس‘‘ آئیڈیاکے یہ کمپنی چلتی نظر نہیں آتی۔ بزرگ کہا کرتے تھے کہ شبنم سے خالی کنویں کبھی نہیں بھرتے لیکن کنویں کیا یہاں تو کشکول بھرتے دکھائی نہیں دیتے۔ ایام غنچگی میں ہی یہ حال ہے تو پھول کے پوری طرح کھلنے پر کیسے کیسے گل نہ کھلیں گے؟

ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک ماہر معاشیات موجود ہے۔ فیورٹ اسد عمر بھی کسی کونے میں بیٹھ کر دہی چاول تناول کرتا رہے تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن ضرورت ایسے ماہرین کی ہے جو معیشت کے ساتھ ساتھ ملکی مزاج سے بھی بخوبی واقف ہوںورنہ اعلیٰ سے اعلیٰ یونیورسٹیوں کا تعلیم و تربیت یافتہ تمام تر بیرونی تجربہ کاری کے باوجود کچھ نہ کرسکے گا۔ ساری غیر ملکی تعلیم اور تجربہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ اصل بات یہ کہ بندہ معاشیات کا ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ اس معاشرے کے موڈ، مزاج اور پریکٹسز سے بھی آشنا ہو ورنہ یہ شتر بے مہار معیشت فلرٹ کرتے کرتےآشنا کے ساتھ فرار ہو جائے گی۔

عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی بجائے پوری طرح اعتماد میں لینا بھی لازمی ہوگا۔ اس کا فوری ری ایکشن خوشگوار نہ ہوگا لیکن ’’ان دی لانگ رن‘‘ یہی بہتر رہے گا۔Godfrey Bloomنامی برطانوی سیاستدان جو یورپین پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہ چکے ہیں، انہیں YOU TUBEپر سنئے جو کہتے ہیں کہ سیاستدان مسلسل پیسے کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ آمدنی سے زیادہ خرچ کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک دیوالیہ، بدحال اور کنگال ہو جاتے ہیں۔ یہ نامعقول، جاہل اور غیر موثر سیاستدان قرضے لیتے ہیں اور پھر لیتے ہی چلے جاتے ہیں۔

Bloom صاحب نے یہ دلچسپ نشان دہی بھی کی ہے کہ …’’ سیاستدانوں کے پاس مرکزی بینک میں ایک مشین ہوتی ہے جہاں کرنسی نوٹ پرنٹ ہوتے ہیں اور یہ جاہل نوٹ چھاپتے چلے جاتے ہیں جبکہ یہی کام کوئی غیرمنتخب عام شہری کرے تو یہ جرم ہے جس کی سزا جیل ہے۔ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ ملک دیوالیہ اور کنگال اس لئے ہوتے ہیں کہ ان کے سیاستدان احمق ہوتے ہیں اور یہ پرلے درجہ کی بداخلاقی ہے کہ ناکام سیاستدانوں کی نااہلی کی سزا عام لوگ مزید ٹیکسوں کی صورت میں بھگتیں۔‘‘عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قرضوں پر قرضے اٹھائے چلے جانے یا نوٹ چھاپنے کے لئے تو کسی عقل، مہارت، تجربہ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ کام تو کوئی گاماں ماجھا بھی کرسکتا ہے اس لئے کچھ نیا سوچیں، نیا کریں تاکہ ’’نیا پاکستان‘‘ بنتا دکھائی بھی تو دے کہ صرف دہائی دینے سے کام نہیں چلے گا۔ یاد رہے کہ مینڈک کی چھلانگ، ہرن کی قلانچ اور چیتے کی جست میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے اور خلق خدا آپ کو ہرن بلکہ چیتا سمجھ کر لائی ہے۔

نہلے پہ دہلہ خبر یہ کہ شہباز شریف کے لئے این آر او کی کوششیں تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہیں جس کے نتیجہ میں آپ علاج کے بہانے بیرون ملک چلے جائیںگے یعنی اقتصادیات کا تو جو ہے سو ہے، احتساب کو بھی سوکڑا پڑ جائے گا۔ تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟اس لئے ہر وزیر باتدبیر کے لئے میرا مشورہ ہے کہ دھیرج راج دلارو دھیرج! مسواک اس لئے نہ کرو کہ طعنے اور طمع کے دانت تیز ہوں اور نہ تسبیح اس لئے کہ دوسروں کے عیب ہی شمار کرتے رہو۔ یاد رکھو قدرت نے زبان پر دو دروازے یعنی دانت اور ہونٹ اس لئے لگائے ہیں کہ زبان آوارہ گردی کے لئے کم سے کم باہر نکلے لیکن یہ کمبخت ہے کہ گھر میں ٹکتی ہی نہیں۔ تمہارے بولنے سے تو بھولے بھالے عثمان بزدار کی خاموشی کروڑ گنا بہتر ہے۔ کچھ اور نہیں سنبھل رہا تو کم از کم زبانیں ہی سنبھال لو۔

قارئین! اقتصادیات سے احتساب تک تو ہم چکھ چکے اس لئے اب چلتے ہیں تھر کے صحرائوں کی جانب کہ اس بار ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ تھر میں گزرا۔ اپنا سہیل وڑائچ واشنگٹن سے تھر تک پورا وڑائچ ہے۔ میرا ایک منہ بولا بیٹا ہے عامر فیاض جس کے والد فیاض صاحب ایک سینئر ترین بیورو کریٹ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ ان کی بیگم یعنی عامر کی والدہ عامر سے اکثر کہا کرتی ہیں کہ ’’بیٹا! شلوار سوٹ نہ پہنا کرو دور سے ہی وڑائچ لگتے ہو۔‘‘ سہیل وڑائچ بھی کہیں ہو، کسی لباس میں ہو، پورا وڑائچ لگتاہے۔

’’ایک دن تھر کے ساتھ‘‘ کمال کا ایپی سوڈ تھا، ایک مسحورکن پروگرام۔ شرمندہ ہوں کہ دنیا دیکھی اپنا تھر نہیں دیکھا۔ حیران کن معلومات کا خزانہ۔ بندہ کس کس بات کا حوالہ دے کہ قدم قدم پر آنسو قہقہوں پر تیرتے دیکھے لیکن ایک بات مجھے بری طرح لڑ گئی ہے۔ تھر اور اہل تھر کے بارے بریف کرتے ہوئے اک مقام پر سہیل نے کہا کہ ’’تھر کے باسی اپنی جھونپڑیوں کے دروازے کبھی بند نہیں کرتے کیونکہ یہاں چوری ڈکیتی کا کوئی رواج ہی نہیں۔‘‘ میرا فوری ردعمل تو خوشی کا تھا جو یہ سوچ کر گہرے دکھ، غم، رنج اور ملال میں غرق ہوگیا کہ چور ڈاکو تو صرف اس طرف دیکھتے ہیں جس طرف چوری ڈکیتی کے قابل کچھ ہو۔

تھر والوں کی جھونپڑیوں سے کسی چور ڈاکو کو بھوک، ننگ، غربت عسرت کے علاوہ کیا ملے گا؟ سہیل نے بتایا ’’تھر میں دستی چکی میں پسے آٹے اور پیاز کے علاوہ کھانے کے لئے کچھ نہیں۔‘‘ میر ی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس لئے نہیں کہ میں حساس ہوں یا مجھ میں کوئی شرم حیا موجود ہے، تازہ کٹے پیازوں کی وجہ سے آنسو آگئے ورنہ کہاں تھر کہاں میرا گھر….. تھر میں چوری ڈاکے کا رواج نہیں تو وہ یاد آیا جس نے لکھا تھا ۔’’رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں راہزن کو‘‘یہ چور اور ڈاکو کون ہیں جنہوں نے ہمیں چوری ڈاکے سے ہی بے نیاز کردیا۔ تھینک یو سہیل!اپنی بے بسی اور بے حسی پر رونا آتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے