کیا صالحین بھی یوٹرن لیتے ہیں؟

عمران خان تو بہت یوٹرن لیتا ہے کیوں نہ اب صالحین کے قافلہ انقلاب کی بھی کچھ خبر لے لی جائے ؟ یہ راہ حق میں پوری استقامت کے ساتھ ناک کی سیدھ میں رواں دواں ہے یا گاہے اپنے سارے زعمِ تقوی سمیت یہ بھی اچانک یوٹرن لے لیتا ہے ۔

انتخابی سیاست میں جتنے جتن جماعت اسلامی نے کیے ، ہمارے سامنے ہیں ۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت پر مرد مومن مرد حق کی گواہی دی ، نواز شریف کو امیر المومنین بنا کر پیش کیا اور اسلامی جمہوری اتحاد کا پرچم اٹھا لیا ، مجلس عمل بنا لی ، تحریک انصاف سے اتحاد کر لیا ۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے ایک زمانے میں الیکشن میں حصہ لینے اور امیدوار کھڑا کرنے کے بارے میں جماعت اسلامی کی رائے کیا تھی؟

جماعت کا موقف کچھ یوں تھا : ’’ ہماری اجتماعی زندگی اور قومی سیاست کو جن چیزوں نے سب سے زیادہ گندا کیا ہے ان میں سے ایک یہ امیدواری اور پارٹی ٹکٹ کا طریقہ ہے۔اس لیے جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا ہے کہ اس ناپاک طریقہ انتخاب کی جڑ کاٹ دی جائے ۔ جماعت اپنے پارٹی ٹکٹ پر آدمی کھڑے گی نہ اپنے ارکان کو آزاد حیثیت سے کھڑا ہونے کی اجازت دے گی ۔ نہ ہی وہ کسی ایسے شخص کی تائید کرے گی جو خود امیدوار ہو اور اپنے لیے آپ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔یہی نہیں جماعت اپنی انتخابی جدوجہد میں ، خاص طور پر، یہ بات عوام الناس کو ذہن نشین کرائے گی کہ امیدوار بن کر اٹھنا اور اپنے حق میں ووٹ مانگنا آدمی کے غیر صالح اور نا اہل ہونے کی پہلی اور کھلی ہوئی علامت ہے ۔ ایسا شخص جب کبھی اور جہاں کہیں سامنے آئے لوگوں کو فورا سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ایک خطرناک شخص ہے اور اس کو ووٹ دینا اپنے حق میں کانٹے بونا ہے‘‘۔

جماعت اسلامی نے ان دنوں ایک حلف نامہ بھی وضع کیا تھا ۔ اس کی عبارت کچھ یوں تھی : ’’میں کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو خود امیدوار بن کر کھڑا ہو اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرے ۔ اگر مجھے کوئی نیک آدمی ووٹ دالنے کے لیے نہیں ملے گا تو میں سرے سے ووٹ ہی نہیں دالوں گا‘‘۔

اب عالم یہ ہے کہ جماعت اسلامی الیکشن میں حصہ بھی لیتی ہے اور اس کے لوگ ووٹ بھی مانگتے ہیں ۔ سراج الحق صاحب کی درویشی کا عالم تو یہ ہے کہ سینیٹ کا رکن ہوتے ہوئے بھی قومی اسمبلی کے انتخابات میں کسی اور کو ٹکٹ دینے کی بجائے خود کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب ہار جاتے ہیں تو چادر جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ لو بھئی میں تو اسلامی انقلاب لانے سینیٹ چلا ۔ چلیں مروت میں یوٹرن کا طعنہ نہ بھی دیا جائے تو اتنا سا سوال پوچھ لینے میں تو کوئی مضائقہ نہیں اپنے حق میں ووٹ مانگنے کے بعد سراج الحق صاحب کیا ایک خطرناک شخص بن چکے ہیں اور ان کو ووٹ ڈالنا کہیں اپنے حق میں کانٹے بونے کے مترادف تو نہیں ہے؟

جب قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان کی تحریک چل رہی تھی تو مولانا مودودی ؒ سے سوال کیا گیا کہ براہ راست انتخابات میں حصہ لیے بغیر اگر انتخابات میں باہر رہتے ہوئے مسلم لیگ سے ہمدردی کی جائے تو اس بارے میں کیا خیال ہے ؟ سید مودودی نے جواب دیا : ’’ یہ جماعت کسی ملک یا قوم کے وقتی مسائل کو سامنے رکھ کر وقتی تدابیر سے ان کو حل کرنے کے لیے نہیں بنی ۔ پیش آمدہ یا آئندہ ٓانے والے انتخابات کی اہمیت جو کچھ بھی ہو اور اس کا جیسا کچھ اثر بھی ہماری قوم یا ملک پر پڑتا ہو ، ایک بااصول جماعت ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ ناممکن ہے کہ کسی وقتی مصلحت کی بناء پر ہم ان اصولوں کی قربانی گوارا کر لیں جن پر ہم ایمان لائے ہیں‘‘۔

کانگریس اور مسلم لیگ کے مقابلے میں تو اتنی لاتعلقی لیکن کچھ عرصہ بعد جب بھٹو صاحب سے انتخابی معرکہ درپیش ہوا تو نہ صرف اس ناپاک طریقہ انتخاب میں صالحین نے حصہ لیا بلکہ امیدوار بن کر ووٹ بھی مانگے ۔ بلکہ اس گندے طریقے سے اور اس ناپاک طریقے سے لڑے جانے والے انتخابات کو غزہ تبوک سے ملاتے ہوئے سید مودودی ؒ نے فرمایا : ’’ جب خیر اور شر کی طاقتوں میں کشمکش برپا ہو اور فیصلہ کن معرکے کا وقت آ جائے ، اس وقت خیر کے ہر حامی کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اس نے اس معرکے میں اپنا حصہ پوری طرح ادا نہ کیا ، اپنے وقت کا ، اپنے مال کا، اپنی ذہنی و جسمانی قوتوں کا سارا سرمایہ لا کر اللہ کے کام میں نہیں ڈالا تو اس کے پچھلے سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا ۔ اب آپ کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کہ یہ کیا وقت کیا ہے ؟ یہ بعینہ وہی وقت ہے جب شر اور خیر کی قوتوں کے درمیان فیصلہ کن معرکہ برپا ہوتا ہے‘‘۔

ذرا غور فرمائیے ’’ یہ بعینہ وہی وقت ہے‘‘ کا کیا مطلب ہے ۔ یعنی اگر آپ نے بھٹو کے خلاف ساری توانائیاں اس الیکشن میں صرف نہ کیں تو آپ کے پچھلے سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا ۔ کہاں اس طرح کا الیکشن گندا اور نا پاک طریقہ تھا اور کہاں وہی الیکشن معرکہ حق و باطل قرار دے دیا گیا اور غزوہ تبوک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا یہ بعینہ وہی وقت ہے۔

بے نظیر بھٹو کی جماعت اسلامی نے مخالفت کی اور اس وقت جماعت اسلامی کے بیانیے کی بنیادی بات یہ تھی کہ عورت ریاست کی حکمران نہیں بن سکتی ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہی جماعت اسلامی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کر چکی تھی ۔ یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ بے نظیر وزارت عظمی کا الیکشن لڑ رہی تھیں اور مادر ملت صدارت کا ۔ ریاست کا سربراہ صدر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہوتا ہے ۔ ایوب خان کے دور میں کہا گیا ہم جمہوریت کے علمبردار ہیں لیکن ضیاء الحق کے دور میں کابینہ میں تشریف فرما ہو کرگواہی دی گئی ’’ مرد مومن مرد حق ضیاء الحق ضیاء الحق‘‘۔

مجلس عمل بنائی تو کہا اسلام کی خدمت کے لیے بنائی ۔ چھوڑی تو یہ بھی اسلام کی خاطر۔ 3 نومبر 2012میں پشاور کے افغان فٹ بال گراؤنڈ میں ایک علماء و مشائخ کانفرنس بلا کر امیر جماعت نے ایک پوری فرد جرم مولانا فضل الرحمن کے خلاف سنا ڈالی کہ وہ لٹیروں سے مل گئے، وہ امریکی ایجنٹوں کے ساتھی بن گئے اور ان کی سربراہی میں کشمیر کمیٹی نے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا ۔ کچھ وقت گزرا تو جماعت اسلامی پھرمجلس عمل میں شامل ہو گئی ۔ الیکشن میں ہاتھ کچھ نہ آیا تو اب پھر اس سے الگ ہو رہی ہے۔

دیکھ لیجیے ، ابھی مطلع ہی مکمل ہوا تھاکہ کالم تمام ہو گیا ۔ کہانی تو ابھی باقی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے