بابا مردانہ کے گائوں کی خوشبو

وزیراعظم عمران خان‘ جنرل قمر جاوید باجوہ اور نوجوت سنگھ سدھو نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان امن کی خوشبو کے لئے کرتارپور کا دروازہ کھولنے کا اعلان کیا تو امن کے خواہش مندوں کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ میں اس حوالے سے صوفی منش بزرگ بابا جی گورونانک پر دو کالم لکھ چکا ہوں۔ آج کا کالم بابا جی گورونانک کے اہم ترین دوست بابا جی مردانہ پر لکھنے کا پروگرام بنایا‘ تاکہ کرتارپور کے راستے سے امن کا جو خوشبودار چراغ جلا ہے وہ مدھم نہ ہونے پائے۔ میں نے چراغ میں تیل ڈالنے کا پروگرام بنایا اور مردانہ گائوں جا پہنچا۔ نارووال شہر کے جنوب میں مردانہ گائوں ہے اور شمال میں کرتارپور گائوں ہے۔ نارووال دونوں دیہات کے وسط میں ہے۔ دونوں گائوں دریائے راوی کے کنارے سے قدرے ہٹ کر ہیں۔

باباگورونانک اور بابا مردانہ دونوں ہی ننکانہ میں پیدا ہوئے۔ بابا مردانہ مسلمان گھرانے میں 1459ء میں پیدا ہوئے‘ جبکہ بابا گورونانک ہندو گھرانے میں 1469ء میں پیدا ہوئے یوں بابا مردانہ دس سال بڑے تھے۔ دونوں دوست تھے۔ ننکانہ سے نکلے تو بابا مردانہ نے مردانہ گائوں کی بنیاد رکھی اور مرتے دم تک یہیں رہے۔ بابا گورونانک نے کرتارپور کی بنیاد رکھی اور آخری دم یہیں دیا۔ میں مردانہ گائوں پہنچا تو میرے ہمراہ عرفان مہیس اور صلاح الدین تھے۔ گائوں کے بڑے چودھری جناب رانا اقبال اپنے ڈیرے پر ہمارے منتظر تھے۔ انہوں نے مردانہ کی تاریخ کے پرت کھولنے کے لئے اپنے چچا رانا نصراحمد اور دیگر بزرگوں کو بلا رکھا تھا۔ جناب نصراحمد صاحب بتانے لگے کہ سارا گائوں بابا مردانہ کی اولاد ہے۔ اردگرد کے پانچ دیہات جن میں ملک وال اور میرووال وغیرہ ہیں‘ وہاں بھی زیادہ تر بابا مردانہ کی اولاد ہی بس رہی ہے۔

مردانہ گائوں مغل بادشاہوں کے دور میں بہت بڑا قصبہ تھا۔ یہاں عطریات کے ایک سو چالیس کارخانے تھے۔ کولہو چلتے تھے اور عطر تیار ہوتا تھا۔ یہ عطر سارے ہندوستان میں سپلائی ہوتا تھا۔ خاص طور پر اعلیٰ ترین عطر مغل بادشاہوں کے دربار میں جاتا تھا۔ شاہِ ہند جہانگیر اور ان کی ملکہ نورجہاں کے پاس لاہور کے قلعہ میں عطر یہیں مردانہ سے جایا کرتا تھا۔ بابا جی محترم نصراحمد صاحب بولتے جا رہے تھے کہ ہم حضرت علیؓ کے بیٹے حضرت عباس علم دار رحمہ اللہ کی اولاد میں سے ہیں۔ ہمارے بڑے افغانستان میں آئے اور وہاں سے سلطان محمود غزنوی رحمہ اللہ کے ساتھ پنجاب آئے تھے۔ یہاں ہندو راجپوتوں کے ساتھ شادیوں کی وجہ سے ہمارے بڑے راجپوت اور رانے کہلوانے لگ گئے۔ بابا مردانہ انہی کی اولاد میں سے تھے ‘یوں اب ہمارے اردگرد کے دیہات بھی راجپوتوں کے دیہات کہلاتے ہیں۔

رانا رحمت علی بولے کہ ہمارے گائوں کے ساتھ جب سیم نہر کی کھدائی کی گئی تو مغلیہ دور کے چاندی کے سکے برآمد ہوئے۔ ساتھ ہی بی آر بی کی نہر ہے اور اس کے بعد دریائے راوی ہے۔ انہوں نے ایک تاریخی تندور کا بھی ذکر کیا۔ میں دیکھنے کو ان کے ساتھ چل دیا ؛چنانچہ گائوں سے کوئی آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر سطح زمین سے نیچے دبا ہوا تندور دیکھا ‘جہاں مغلوں کے دور میں یہاں کے باسی روٹیاں پکایا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مغلوں کے دور کا مردانہ بہت بڑا قصبہ تھا‘ جہاں کھیتوں میں ہر جانب طرح طرح کے پھول کھلا کرتے تھے۔ دریائے راوی کا پانی ان کھیتوں کو سیراب کرتا تھا۔

ہر جانب خوشبوئوں کی بہار تھی۔ پھر ان پھولوں سے عطر بنتا تھا‘ کیمیکلز کا اس دور میں رواج نہ تھا۔ 140کارخانوں کے عطریات کی خوشبو جب مردانہ گائوں کی گلیوں اور چہار اطراف میں پھیلتی تھی تو کیا منظر بنتا ہو گا۔ اب تو یہ چھوٹا سا گائوں رہ گیا ہے اور بلندی پر واقع ہے۔ یہیں بابا مردانہ کی چند سال پہلے تک قبر بھی واضح تھی‘ مگر اب مجھے دور سے رانا رحمت علی وہ گھر دکھلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ بابا جی کی قبر جس کو ہم نے خود دیکھا اس کا نشان مٹ گیا اور اب اس پر گھر بن چکا ہے۔ بابا مردانہ جب 1534ء میں 75سال کی عمر میں فوت ہوئے تو بابا جی گورونانک یہاں تعزیت کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے واویلا کرنے والوں کو نصیحت کی تھی کہ میرے دوست کے لئے واویلا کیوں کرتے ہو‘ وہ تو اپنے اللہ کے پاس گیا ہے۔

بابا جی گورونانک نہ جانے اپنے دوست سے کتنی بار ملنے کو مردانہ آئے‘ جبکہ آخری بار دوست کی وفات پر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ سکھوں نے ضلع گورداسپور میں بھی مردانہ نام کا ایک قصبہ بنا دیا ہے۔ اس سے بابا مردانہ کے ساتھ سکھوں کی محبت کا پتہ چلتا ہے۔ عقیدت کا عالم یہ ہے کہ گولڈن ٹیمپل امرتسر کے خزانے کی چابیاں بابا مردانہ کی مسلمان اولاد کے پاس ہیں‘ جو نسل درنسل نذر کی گئی رقم کے محافظ و نگہبان ہیں۔ سمجھدار سکھ آج بھی حسرت و افسوس سے ہاتھ ملتے ہیں کہ 1947ء میں ماسٹر تارا سنگھ کو اتنی بھی سمجھ نہ آئی کہ جب گولڈن ٹیمپل کا مقدس خزانہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے‘ تو پنجاب کی ایکتا اور یکجہتی کے لئے اس نے بابا جی قائداعظم کا ساتھ کیوں نہ دیا؟ بہرحال! یہ تو اب تاریخ ہے ‘لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ گورونانک کا جگری یار بابا مردانہ‘ یار کی اولاد اور گائوں کہ جہاں کئی بار گورنانک آئے سب کچھ پنجاب اور پاکستان میں ہے۔

بابا گورونانک اور بابا مردانہ نے زندگی میں کُل چار بڑے سفر کئے‘ پہلا سفر بنگال‘ آسام‘ اڑیسہ اور وسطی ہندوستان سے ہوتے ہوئے راجستھان کا سفر کیا اور بارہ سال بعد 1509ء میں واپسی ہوئی۔ دوسرا سفر جنوبی ہند اور سری لنکا کا ہے۔ پانچ سال بعد واپسی ہوئی تو کرتارپور کی بنیاد رکھی۔ تیسرا سفر کوہ ہمالیہ کی پہاڑی ریاستوں‘ تبت اور کشمیر کا ہے ‘جس میں تین سال لگے۔ آخری اور چوتھا سفر ایران اور عراق سے ہوتے ہوئے سعودی عرب کا سفر ہے۔ بابا جی گورونانک کو اس سفر کا کس قدر شوق تھا اس کا اندازہ ”جنم ساکھوں‘‘ نامی کتاب میں ان کا یہ قول ہے ”مردانہ! ان حاجیوں کو جانے دو‘ اگر ہماری قسمت میں کعبہ کا حج ہے تو ہم بھی پہنچ جائیں گے۔‘‘

قارئین کرام! بابا جی کے مندرجہ بالا قول سے واضح ہوتا ہے کہ بابا مردانہ نے اپنے دوست گورونانک کے دل میں دیدار حرمین کی چاہت کو اس قدر بڑھا دیا تھا کہ حاجیوں کے جس قافلے میں وہ شرکت نہ کر سکے ‘اس پر بابا گورونانک بابا مردانہ کو تسلی دیتے ہیں کہ آئندہ سہی… دوسری بات یہ کہ بابا گورونانک باقاعدہ حج کرنے کا قصد رکھ کر حج کرنے کو گئے۔ اور پھر دونوں دوستوں نے مکہ اور مدینہ میں ایک سال قیام کیا۔ بابا جی گورونانک پر حج کے جو اثرات مرتب ہوئے اس پر وہ قرآن مجید کے بارے میں لکھتے ہیں:

”کل جگ کے (آخری زمانے) میں قرآن شریف ہی منظور شدہ کتاب ہے۔ دوسری تمام کتابیں منسوخ ہو گئی ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمانی جلوہ گر ہے۔‘‘ بابا جی گورونانک پل صراط کے بارے میں لکھتے ہیں ”پل صراط کا راستہ بڑا کٹھن ہے ‘وہاں کوئی کسی کا ساتھ نہ دے گا۔ ہر ایک کو اکیلا گزرنا ہو گا۔‘‘
حضرت محمد کریمؐ کے بارے میں کہتے ہیں:

”سچے دل سے تصدیق کرو کہ اللہ اور اس کا رسولؐ برحق ہیں۔ اس کے سوا کچھ نہ پوچھو۔‘‘ جی ہاں! گوروگرنتھ صاحب کہ جس کی پہلی بانی ”جپ جی‘‘ ہے وہ سورئہ اخلاص کی شرح ہے۔ بابا جی گورونانک اس کے بعد بابا فرید گنج شکر رحمہ اللہ کے اشعار لائے ہیں ”اٹھ فریدا وضو ساج صبح نماز گزار‘‘ یعنی اے فرید! صبح سویرے اٹھو اور نماز پڑھو… جی ہاں! جس طرح بابا فرید رحمہ اللہ کا کلام گرنتھ صاحب کا حصہ ہے۔ اسی طرح بابا مردانہ کا کلام بھی ”گرنتھ صاحب‘‘ کا حصہ ہے۔

بابا مردانہ بھی صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ توحید کے علمبردار تھے۔ اسی لئے بابا جی گورونانک کی شاعری میں توحید کو کلیدی‘ بنیادی اور اساسی اہمیت حاصل ہے۔ حج کے سفرنے توحید کے رنگ کو مزید گہرا کر دیا۔ مدینہ منورہ میں رہائش کے دوران حضور نبی کریمؐ کی محبت کا رنگ چڑھا۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے سفر کے بعد بابا جی کرتارپور سے باہر نہیں گئے۔ گئے تو بابا مردانہ کی وفات پر مردانہ گائوں میں گئے۔ میں مردانہ میں رانا اقبال صاحب کے ڈیرے میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ تب مردانہ گائوں میں پھولوں اور عطریات کی خوشبوئیں تو تھیں ہی‘ توحید و رسالت کی خوشبوئیں بھی خوب تھیں۔

پاکستان کی طرف سے کرتارپور کوریڈور کا کام تیزی سے کیا جا رہا ہے۔ انڈیا کی طرف سے مکمل خاموشی ہے۔ راوی پر جو پل بن رہا ہے‘ انڈیا نے بغیر وجہ کے اور بغیر بتلائے پانی چھوڑ کر تعمیراتی سامان کا نقصان کر دیا ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ انڈیا امن کو موقع نہیں دینا چاہتا۔ بہرحال! پاکستان کو اپنا کام مکمل کرنا ہے۔ میری ایک تجویز ہے کہ مردانہ گائوں اور کرتارپور گائوں میں ہر طرح کے پھولوں کے دو باغ لگائے جائیں۔ ان باغوں میں عطریات کی دو فیکٹریاں بھی لگائی جائیں۔ مردانہ اور نانک کے ناموں کی خوشبویات تیار کی جائیں۔ کرتارپور سے مردانہ تک دو رویہ شاندار سڑک بھی تیار کی جائے۔ اس سے علاقے میں معاشی سرگرمی خوب گرم ہو گی۔ ساتھ ساتھ امن کی خوشبو بھی پھیلے گی تو اس امن کے ساتھ پورے خطے کو امن نصیب ہو گا۔ (انشاء اللہ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے