صبح کے خوش نصیب اور کٹا ہوا ڈبہ

نئے برس کی پہلی رات تھی۔ پچھلے برسوں کے ساتھی کہیں روشنیوں کی جڑاؤ چھت تلے آوازوں کی کھنکھناتی گھنٹیوں میں نئے سال کی چاپ سن رہے تھے۔ درویش اکیلا بیٹھا امروز و فردا کے غموں سے کھیلتا رہا اور پھر رات کے کسی آخری پہر میں آنکھ موند لی۔ اس سے پہلے کہ اس رات کے واقعات کا کچھ بیان ہو، ایک معروضہ یہ کہ رات، نیند اور خواب سے درویش کا زندگی بھر عجیب مچیٹا رہا ہے۔ رات معلوم کی حد سے پرے ایک پھیلی ہوئی خاموش وادی ہے جو مسلسل اپنی طرف بلاتی ہے۔

وہی جو ناصر نے کہا تھا، رین اندھیری ہے اور کنارہ دور…ان گنت راتیں ایسی گزریں کہ اس طنازہ کے اسرار کی جستجو میں دن نکل آیا۔۔ حیرت یہ ہے کہ درویش کے خوابوں میں فرائیڈ کے علائم اور اشارے شاید ہی کبھی نمودار ہوئے ہوں۔ یہاں تو لامکانی، ہجرت، اضطراب، نامکمل تعمیر، ناگہانی اور لاتعلقی کے اشاروں کی ایک اذیت ناک دیواری تصویر ہے جسے یونگ کی نفسیات کا ایک مطالعہ کہنا چاہیے۔ یہ بتانا کچھ ایسا مشکل نہیں کہ اگر فرد پر خواب اس تسلسل سے محرومی اور بے بسی کا فرمان بن کر اتریں تو اس سے اجتماعی صورت حال کے متعلق کیا اشارے ملتے ہیں۔ تاہم، درویش ایسی وضاحت کی کوشش نہیں کرے گا کیونکہ… ان کو ہوتا ہے ناگوار بہت۔

نوروز کی رات میں واپس چلتے ہیں جب رات کی ڈھلتی گھڑیوں میں آنکھ جھپکی اور پھر اچانک جیسے کسی نے اٹھا کے بٹھا دیا۔ بیداری ہی کا عالم تھا مگر ابھی چاروں طرف اندھیرا تھا اور سانس سینے میں سما نہیں رہی تھی۔ دھونکنی سی چل رہی تھی۔ اندازہ ہو گیا کہ سینے کے منطقے میں کہیں کچھ خرابی پیدا ہو گئی ہے۔کچھ ایسا احساس کہ مکئی کا خشک تکا چھاتی میں پھنس گیا ہے اور سانس کو جذب کرتا چلا جا رہا ہے‘۔ گہری سانس لینا تقریباً ناممکن ہو رہا تھا۔ گھر پر کوئی نہیں تھا۔ اللہ کے فضل سے گاڑی چلانا نہیں جانتا۔ پانی کا گلاس سرہانے رکھ لیا اور کوشش کی کہ ہلنے جلنے سے گریز کیا جائے۔ اگلے تین روز ڈاکٹرکے پاس جانا بھی ممکن نہیں تھا۔ اس واسطے کہ تنویر جہاں اسلام آباد میں تھیں اور ان کی غیرموجودگی میں یہ حساب کون رکھتا کہ کون سی دوا کب کھانا ہے۔ بس اس دوران نیم گرم پانی پیتا رہا، سگریٹ نوشی کی رفتار ساٹھ سے کم کر کے چھ کر دی۔ تنویر لاہور واپس آئیں اور ڈاکٹر خواجہ سے وقت لیا گیا۔ جیل روڈ پر واقع میڈیکل کمپلیکس کی انتظار گاہ میں بیٹھے تھے۔

سامنے ٹیلی وژن پر کوئی ٹاک شو چل رہا تھا جس میں کہیں محترمہ علیمہ خان کا ذکر بھی آ گیا۔ تنویر نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کس جرمانے کا ذکر ہو رہا ہے۔ رواروی میں مختصر بات کہی کہ وہ جائیداد جو دبئی میں دریافت ہوئی ہے اور جس سے انکم ٹیکس والوں کو بے خبر رکھا گیا تھا۔ اس پر سامنے کی نشست پر بیٹھے ایک صاحب چمک کر بیچ میں آن کودے اور کہا کہ علیمہ خان تو کسی عوامی عہدے پر فائز نہیں ہیں۔ (انہوں نے پبلک آفس کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ صاحب کی وضع قطع جدید تھی، عمر کوئی 30 برس اور چہرہ مبارک پر وہ نشان نما ریش رونق دے رہی تھی جسے ہماری نسل فرنچ کٹ کہتی تھی لیکن اب خلیجی شناخت پا چکی ہے)۔ ایک لمحے کے لئے درویش اپنا ہی اختیار کردہ اصول بھول گیا کہ پاکستان میں کسی اجنبی سے مذہب، سیاست ، معیشت اور معاشرت پر ہرگز بات نہیں ٍکرنی۔

اس ایک لحظے کی لغزش میں جواب دیا کہ مریم نواز بھی کسی پبلک آفس پر فائز نہیں تھیں۔ ترنت جواب آیا کہ ’مریم نواز سیاست کر رہی تھیں، سوشل میڈیا سیل چلا رہی تھیں۔ انہیں مشعل اوباما نے سات کروڑ ڈالر دیے (جی ہاں ڈالر ہی کہا تھا) اور آپ دونوں شاید کوئی این جی او چلاتے ہیں‘۔ اب بات بڑھ چکی تھی۔ درویش نے اس نظریاتی آموختے کے جواب میں ایک ایسا دندناتا ہوا بیان داغ دیا جو ممکنہ طور پر بلوے پر منتج ہو سکتا تھا۔ صاحب مداخل نے سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ ’میں پرانی باتیں نہیں جانتا۔ مجھے تو 2008 ءکے بعد کی تاریخ معلوم ہے‘۔ اس دوران میں ڈاکٹر ضیا کے معاون نے ہمیں باریابی کا اشارہ کر دیا۔ تشخیص ہوئی، دوا استعمال ہو رہی ہے اور کافی افاقہ ہے۔ لیکن وہ ایک تنک سا جملہ مسلسل کھٹک رہا ہے کہ ’مجھے تو 2008 ءکے بعد کی تاریخ یاد ہے‘۔ غالب نے شاید ایسے ہی موقع پر کہا تھا ، ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں۔

رواں ہفتے میں ایک سے زیادہ اشارے ایسے ملے جن سے معلوم ہوا کہ ہسپتال کی انتظار گاہ میں ملنے والے صاحب کوئی واماندہ راہرو نہیں تھے، ہمارے عصری سیاسی شعور کی نمائندہ علامت تھے۔ دیکھیے نا، ملت اسلامیہ کے عظیم رہنما عمران خان نے دورہ ترکی کے دوران تحریک خلافت کی مبادیات سے اپنی لاعلمی آشکار کر دی۔ کچھ وزرا کادعویٰ ہے کہ گزشتہ دس برس میں جو کرپشن ہوئی، ماضی میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا۔ صاحبان اگر ایسا ہی ہے تو 1990ءسے 1999ءتک چار حکومتیں گویا جرم ضعیفی کا شکار ہوئیں۔ کچھ احباب کو ان دنوں ون یونٹ جیسی ناشدنی اصطلاح یاد آ رہی ہے۔ انہیں یاد نہیں رہا کہ ون یونٹ وہ سمندری چٹان تھی جس سے ٹکرا کر متحدہ پاکستان کی کشتی دولخت ہوئی۔ جب وہ سانحہ برپا ہوا تو انتظار حسین نے اس قومی ناکامی کی کرید میں پے در پے افسانے لکھے تھے۔ ان میں سے کچھ ’کچھوے‘ میں شامل ہوئے اور باقی ’شہر افسوس‘میں۔ عرض صرف یہ ہے کہ کچھوے کی چال چلنے والے آج بھی ’کٹے ہوئے ڈبے‘کے مسافر ہیں لیکن خود کو ’صبح کے خوش نصیب‘سمجھتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے