مستقبل کا لائحہ عمل

کسی بھی ٹاک شو میں چلیں جائیں یا اس بحث کا نظارہ ٹی وی پر دیکھ لیں جو ہر روز شام سات بجے سے رات گئے تک چینلوں پر ہو رہی ہوتی ہے، اس میں سوائے الزام تراشی کے کچھ نہیں ملتا۔ ہر کسی کو دوسرے سے شکوہ ہے۔

وہ سیاسی جماعتیں جو اپوزیشن میں ہیں ان کو حزب اقتدار سے شکوہ ہے۔ جو اقتدار میں ہیں ان کو اپوزیشن سے اختلاف ہے۔ اپوزیشن کی اپنی جماعتیں بھی جا بجا ایک دوسرے سے روٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ ماضی کے وہ قصے سرعام لے آتی ہیں جو اب قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔ جمہور کی قوتیں غیر جمہوری قوتوں پر الزام تراشی کرتی ہیں اور غیر جمہوری قوتیںعوام کے لیڈروں کی رعونت اور کرپشن کی رام کہانی سنانا شروع کر دیتی ہیں۔ اس ساری سعی لاحاصل سے کچھ نہیں حاصل ہو رہا۔

بحث برائے بحث سے ایک اور بحث کا آغاز تو ہو سکتا ہے مگر اس سے کسی نتیجے پر پہنچنا ناممکن ہے۔ نتیجے پر پہنچنے کے لئے تفکر کی ضرورت ہو تی ہے ، سنجیدہ لائحہ عمل اختیار کرنا پڑتا ہے مگر اس کی فرصت کسی کے پاس نہیں ہے۔ سب ہی اس آپا دھاپی میں اس بری طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ اس سے مفر ممکن نظر نہیں آتا۔ استدلال کی فرصت کسی کے پاس نہیں ہے۔ ماضی کی رنجشیں مٹانے کا حل کوئی دریافت ہی نہیں کرنا چاہتا۔فرض کیجئے ہم ایک لمحے کیلئے اس ملک کی غیر تابناک سیاسی تاریخ بھلا دیں۔ بھول جائیں اس بات کو کہ جو

کچھ آج ہو رہا پہلے بھی نام بدل کر ہو چکا ہے۔ بھلا دیں اس حقیقت کو کہ آج کے ظالم کل کے مظلوم رہ چکے ہیں اور کل کے ظالم آج کیونکر مظلوم بنے ہوئے ہیں۔ بھول جائیں کہ اس ملک میں تین دفعہ مارشل لا لگ چکا ہے۔ اس کے بعد بھی سیاسی قوتیں غیر سیاسی قوتوں کے اشاروں پر ناچتی رہی ہیں۔ بھول جائیں کہ ہمارے بدن کا ایک حصہ ہم سے جدا ہو چکا۔ بھول جائیں کہ ایک عوامی لیڈر پھانسی پر جھول چکا ہے۔ بھول جائیں وہ سارے غلط فیصلے جو انصاف کے در سے ہمیں تفویض ہو ئے ہیں۔

بھول جائیں پی سی او کے ججز کو، بھول جائیں ان سیاستدانوں کو جنہوں نے دوسری سیاسی جماعتوں پر کیچڑ اچھالنے کی روایت ڈالی تھی۔ بھو ل جائیں ان سیاستدانوں کو جنہوں نے اس پارلیمان کی تضحیک کو وطیرہ بنایا تھا۔ بھول جائیں ان بیوروکریٹس کو جنہوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے چکر میں ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ بھول جائیں سول ملٹری تعلقات کی بحث کو۔ بھول جائیں جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی تخصیص کو۔ بھول جائیں ان سیاسی کارکنوں کو کہ جنہوں نےا پنے خون سے اس ملک کی جمہوریت کو سینچا ہے۔ بھول جائیں ان ڈکٹیٹروں کو جنہوں نے آئین کو پامال کیا۔ بھول جائیں ان مفاد پرست سیاستدانوں کو جنہوں نے ان ڈکٹیٹروں کے ہاتھ مضبوط کئے۔ بھول جائیں ان نااہل سیاستدانوں کو جنہوں نے اپنی ناہلی پر پردہ ڈالنے کے لئےالزام کی سیاست کو اپنایا۔

بھول جائیں ان شدت پسندوں کو جو ہمارے غلط فیصلوں کی بنا پر اب ہماری سیاست کے جزو لازم ہو چکے ہیں۔ سوال یہ ہےاگر ہم یہ سب بھول جائیں اور تاریخ کی سلیٹ کو باکل صاف کر کے آگے بڑھنا چاہیں تو ہمارے پاس کیا رستہ ہے۔دنیا کے کسی بھی مسئلے کا حل بحث و تمحیص سے نکالا جا سکتا ہے۔ دنیا اسی طرح آگے بڑھی ہے۔ ملکوں نے اپنی درست سمت اپنانے کے لئےمباحثے کو فروغ دیا ہے۔ کج بحثی سے وقت تو کٹ سکتا ہے ملکوں کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔ منزل پر پہنچنے کے لئے درست اقدامات کی درست سمت میں ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھ جو ہو چکا ہے الزام تراشی کی روش اب اس ماضی کو واپس نہیں لا سکتی۔

اب گئے سانپ کی لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پاکستان میں ہمارے ماضی نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ اقتدار میں آکر لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ تاریخ تک یاد نہیں رہتی۔ مگر اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں تاریخ اپنے آپ کو بہت تواتر سے دہراتی ہے۔پاکستان کو اس وقت ایک ایسے مفاہمتی کمیشن کی ضرورت ہے جہاں سارے اسٹیک ہولڈرز ایک مقام پر اکھٹے ہوں۔ اس کمیشن کا مقصد اختلاف نہیں اتفاق ہو۔ الزام تراشی نہیں بلکہ درست سمت ہو۔ اس کمیشن کا قیام پارلیمنٹ کے زیر اہتمام ہو۔ جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے چنیدہ مفکرین اس کمیشن پر اتفاق کریں۔ عدلیہ کے نمائندے بھی اس کا حصہ بنیں۔ فوج بھی اس کمیشن کا جزو ہو۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس کمیشن کا اسٹیک ہو لڈر تسلیم کیا جائے۔ تحریک انصاف کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔

دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی توقیر دی جائے۔ اس ٹروتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن میں ماضی کی تمام غلطیاں تسلیم کی جائیں۔ اپنے اپنے حصے کا بار اس نیت سےاٹھایا جائےکہ اس گھمبیر صورت حال کو سلجھایا جا سکے۔ تما م اسٹیک ہولڈر اس کمیشن میں اپنی معروضات پیش کریں اپنے اپنے دفاع میں دلائل دیں اپنے اپنے شعبے یا جماعت کا دفاع کریں۔ اس کمیشن میں پارلیمان کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ماضی کی چیرہ دستیوں کو بھلا کر آگے کی جانب دیکھنے کا حوصلہ پیدا کرے۔ سب کو انکا منصب اور مقام دیا جائے۔ اس ملک سے جمہوری اور غیر جمہوری کی بحث کو ختم کیا جائے۔ پارلیمان کی حیثیت کو سپر یم تسلیم کیا جائے۔

عوامی نمائندوں کو توقیر دی جائے۔ عدلیہ اور افواج پاکستان کو اہمیت دی جائے مگر پہلی فرصت میں نیب جیسے منتقم مزاج ادارے کا خاتمہ کیا جائے۔ آئین میں سے باسٹھ، تریسٹھ کی شقیں ختم اور باقی سب کچھ کرنے کے لئےتمام اسٹیک ہولڈرز سے صرف نیک نیتی درکار ہے۔ خلوص درکار ہے۔ آگے بڑھنے کا یہی رستہ اب ہمارے پاس بچا ہے۔ مجھے ادراک ہے موجودہ حالات میں بہت سے لوگ اس مفاہمتی کمیشن کے قیام کو مجذوب کی بڑ قرار دیں گے لیکن جو جغرافیائی ، معاشی ، سیاسی اور سماجی حالات اب ہو چکے ہیں اس میں ملکی سالمیت اور بقاکے لیے یہ واحد لائحہ عمل دکھائی دیتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے