آج آذاد کشمیر جسے انڈین مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا بیس کیمپ بھی کہا جاتا ہے میں دو اسمبلی ممبران کا آپس میں انتہائی تلخ جملوں کا تبادلہ اور ہاتھا پائی کی ناکام کوشش دیکھنے میں آئی۔
آذاد کشمیر اسمبلی میں حکمران جماعت کے سردار فاروق طاہر جو دو بار ڈپٹی سپیکر کے منصب اور متعدد مرتبہ وزیر اور موجودہ حکومت میں قانون وانصاف کے وزیر ہیں۔جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کے واحد ممبر اسمبلی ماجد رشید تھے۔
ایسے افسوسناک واقعے نے کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال کو مستقبل کے لئے اور فکر طلب بنا دیا ہے۔کیونکہ پی ٹی آئی آذاد کشمیر میں اپنے اگلے الیکشن کے لئے بھرپور جوڑ توڑ میں مصروف ہے اور اس واقعے کے بعد عوامی سطح پر بھی برا اثر دیکھنے میں آئے گا۔
آذاد کشمیر کی سیاست میں برادری ازم اور قبیلہ ازم پارٹی ازم سے بڑھ کر اپنا وجود رکھتا ہے۔اسوقت موجودہ حکومت پہلے ہی اس قبیلہ ازم سیاست کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہے۔اور سردار خالد ابراہیم کے عدالتی ٹکراؤ اور ناگہانی وفات کے بعد آذاد کشمیر کے ایک بڑے قبیلے کو موجودہ وزیراعظم اور چیف جسٹس کے ساتھ تحفظات موجود ہیں۔
ایسے میں اسمبلی فلور پر انتہائی سینئر ممبران کی دھینگا مشتی نے پورے آذاد کشمیر کے عوام میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔۔اذاد کشمیر اسمبلی میں ایسے واقعات کم ہی رونما ہوتے ہیں اس لئے سوشل میڈیا پر اس واقعے کو بہت زیادہ اہمیت بھی دی گئی اور لاتعداد طور پر واقعہ کی ویڈیو کو شیئر کیا گیا۔
آذاد کشمیر اسمبلی ممبران کو چاہیے کہ وہ خطہ کی تعمیر و ترقی پر توجہ دیں اور بیس کیمپ کو اپنی ذاتی رنجش کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام نہ کریں۔آذاد کشمیر میں موجودہ حکومت وفاق کے ساتھ پہلے ہی آئینی ترامیم کی وجوہات پر اختلافات کا شکار ہے اور میرٹ کی خلاف ورزیوں پر بھی عوام سراپا اجتجاج ہیں۔
نیلم جہلم پراجیکٹ کی وجہ سے عوام کی مشکلات کو بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور موجودہ حکومت کے پاس کو یہ لائحہ عمل یا حکمت عملی سرے سے موجود ہی نہیں۔
وزیر قانون و انصاف سردار فاروق طاہر جو کہ اپنے حلقے میں میرٹ کی خلاف ورزیوں کے لئے مشہور تو تھے ہی لیکن اپنی ہی بیٹی کو میرٹ کے بر خلاف لیکچرار لگانے کی کوشش نے انکی سیاسی ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا ہے شاید یہی غصہ انہوں نے پی ٹی آئی کے واحد ممبر اسمبلی پر نکالنے کی کوشش کی۔۔
خطہ کشمیر کے عوام کو چاہیے کہ وہ آئیندہ الیکشن میں برادری ازم،قبیلہ ازم اور پارٹی ازم سے نکل کر صرف اسی امیدوار کو ووٹ دے کر منتخب کریں جو انکے مسائل کو حل کرانے میں دلچسپی رکھتا ہو اور اسمبلی ممبر بننے کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی سے دور رہتے ہوئے اپنے علاقے میں عوام کے ساتھ رہ کر علاقے میں عوامی ضرورتوں اور سہولتوں کو پورا کرے۔