کیا آپ نے ’ارتغرل‘ دیکھا ہے؟

سیاست ، سیاست اور سیاست ، کیا آپ بے زار نہیں ہو جاتے ؟ چلیں آج کسی اور موضوع پر بات کرتے ہیں ۔

یہ بتائیے کیا آپ نے ’ ارتغرل‘ دیکھا ہے ؟ جو سوال میں آپ سے پوچھ رہا ہوں ، یہی سوال مہینوں پہلے جب مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے اسے یکسر نظر انداز کر دیا کہ ہو گا کوئی ڈرامہ ، اب اپنے پاس ضائع کرنے کے لیے اتنا وقت کہاں ۔ یہاں تک کہ پھر ایک روز میں نے ’ارتغرل‘ کی پہلی قسط دیکھ لی ۔ آپ یقین کیجیے، ڈرامہ نہیں ، یہ ایک سحر ہے جو آدمی کو جکڑ لیتا ہے ۔جسے شک ہو ، وہ اس کی ایک قسط دیکھ کر دور کر لے۔

قدیم زمانوں میں ایک خاص کشش ہوتی ہے ۔ جنگلوں اور پہاڑوں میں دور تک چلے جانا بھی اسی لیے اچھا لگتا ہے کہ وہ راستے اور پگڈنڈیاں آپ کو قدیم زمانوں سے جوڑتی ہیں ۔ نوے کی دہائی میں اسلام آباد کے اتوار بازار میں جنگجوؤں کی پرانی زرہ بکتر ، خود اور ڈھالیں ملا کرتی تھیں ۔ میں نے وہاں سے ایک ڈھال خریدی تو میرے یونیورسٹی فیلو فیاض مغل نے مجھے اپنے دادا کی تلوار تحفے میں دے دی ۔آج بیس سال بعد فیاض مغل سے کوئی رابطہ نہیں البتہ ان کی تلوار آج بھی میرے گھر میں آویزاں ہے۔ لکڑی کی نیام کے اوپر چمڑے کا انتہائی نفیس اور باریک کام ہوا ہوا ہے ۔

توڑے دار بندوق ، خنجر ، ڈھال ، زرہ بکتر ، کمان تیر اور ترکش ان چیزوں میں میرے لیے ہمیشہ عجیب سی کشش رہی ہے ۔ اب تو ان میں سے شاید ہی کوئی خالص چیز کہیں دستیاب ہو۔ ہاسٹل لائف میں ایک دن مل گبسن کی فلم ’ بریو ہارٹ‘ دیکھی اور من کی برہما شانت ہو گیا ۔ کچھ عرصہ بعد مل گبسن ہی کی ایک اور فلم ’ پیٹریاٹ‘ آئی اور اس نے بھی آسودہ کر دیا ۔ اپنے شوق کی تکمیل میں ٹرائے ، لاسٹ آف دی موہیکنز، کنگڈم آف ہیون ، دی لاسٹ سیمورائے، منگول ، تھرٹینتھ واریئر، الیگزینڈر، وار لارڈ ، ایڈ مرل اوروار آف ایروز تک کتنی ہی فلمیں دیکھ ڈالیں لیکن جو بات ’ ارتغرل‘ میں ہے وہ ان میں سے کسی میں بھی نہیں ۔ارتغرل اپنے پلاٹ ، اپنی پروڈکشن اور اداکاری کے اعتبار سے بلاشبہ ایک شاہکار ہے۔

’ارتغرل‘ ترکی کے خانہ بدوش قبیلے ’ قائی‘ کی کہانی ہے ۔ قائی قبیلہ ایک جنگجو قبیلہ ہے جو ایک طرف بے رحم موسموں کے نشانے پر ہے اور دوسری جانب منگولوں اور صلیبیوں کے نشانے پر ہے ۔ ہمت و جرات کی یہ عجیب داستان ہے کہ چرواہوں کا یہ خانہ بدوش قبیلہ جو جاڑے کے بے رحم موسم میں قحط سے بچنے کے لیے حلب کے امیر سے ایک زرخیز چراگاہ میں قیام پزیر ہونے کی اجازت مانگ رہا ہوتا ہے آگے چل کر ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھ دیتاہے جو آٹھ سو سال قائم رہتی ہے ۔ ارطغرل قائی قبیلے کے سردار سلمان شاہ کا بیٹا ہے ۔ وہ منگولوں سے بھی لڑتا ہے اور صلیبیوں سے بھی ۔ وہ اوغوز ترک قبائل کو یوں ایک لڑی میں سمو دیتا ہے کہ پھر چرواہوں کے اس قبیلے کی ایک اپنی سلطنت ہوتی ہے اور ارطغرل کا بیٹا عثمان اس سلطنت عثمانیہ کا پہلا بادشاہ ہوتا ہے۔چرواہوں کا قائی قبیلہ ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد کیسے رکھتا ہے اس غیر معمولی جدو جہد کی داستان کا نام ’ ارطغرل ‘ ہے۔

ترکی نے بلاوجہ یہ ترقی حاصل نہیں کی ۔ ارتغرل ڈرامہ دیکھتے ہوئے خوب معلوم ہو جاتا ہے کہ ترک سماج آرٹ اور کلچر میں کتنا آگے جا چکا ہے ۔ ڈرامہ دیکھتے ہوئے آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ پلاٹ کی تعریف کرے ، اداکاروں کی تعریف کرے یا پروڈکشن کے معیار پر ششدر رہ جائے ۔ اس کے پانچ سیزن ہیں اور ایک سو ستاون اقساط ۔ ہر قسط کا دورانیہ دو گھنٹے ہے ۔ پلاٹ اتنا جاندار ہے کہ اتنی اقساط کے باوجود کہیں ٹھہراؤ یا بوریت نہیں ہے ۔ پل پل صورت حال بدلتی ہے ۔

ایک ایک قسط پر دو دو تین تین فلمیں بن سکتی ہیں ۔ اداکاری اتنی کمال کی ہے کہ آدمی ششدر رہ جائے ۔ ہیرو کی اداکاری کو تو چھوڑ دیجیے کرتوغلو اور امیر سعدتین ( سعد الدین) جیسے سازشی کرداروں کی اداکاری اتنی جاندار ہے کہ آدمی زچ ہو جاتا ہے ۔ یہ ڈرامہ دیکھتے ہوئے کرتوغلو اورامیر سعدتین کے کرداروں نے مجھے اتنا زچ کیا کہ میں نے آگے کی اقساط میں جا کر ان کے قتل کا منظر دیکھ کر وقت سے پہلے اپنا کتھارسس کیا ۔ اس ڈرامے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ٹی آر ٹی کے ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل ابراہیم ایرن کے مطابق یہ ڈرامہ 60 سے زائد ممالک میں ٹی وی چینلز پر دکھایا جا رہا ہے۔

فنی اعتبار سے تو یہ ڈرامہ ایک شاہکار ہے ہی ، اس کی ایک اور خوبی بھی ہے۔ یہ مسلمانوں پر مسلط کردہ احساس کمتری کا طلسم کدہ توڑ کر پھینک دیتا ہے ۔ خانہ بدوش قبیلے کے اس ڈرامے کی چند اقساط دیکھ کر آپ کے اندر سے وہ احساس کمتری دھیرے دھیرے ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے جو مغرب اور اس کے رضاکاروں نے بڑے اہتمام سے مسلم سماج میں پھیلا رکھا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے کہ آپ کو مسلم تہذیب کے رنگوں پر فخر محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

ڈرامے کا یہ تہذیبی پہلو پہلو اتنا شاندار ہے کہ 2007 میں طیب اردوان کی جب ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات متوقع تھی تو نیویارک ٹائمز میں ولیم آرمسٹرانگ نے لکھا کہ طیب اردوان اور ترکی کی نفسیات جاننے کے لیے ’ ارطغرل‘ ڈرامہ دیکھ لیجیے ۔ اس کے بعد ایک لمبی چوڑی فرد جرم عاید کی گئی کہ اس ڈرامے کے ذریعے اردوان فلاں فلاں کام کرنا چاہتا ہے ۔ وہ ترکوں میں نیشنلزم کے جذبات پروان چڑھا رہا ہے، وہ ترکوں کو فخر سے سر اٹھا کر جینا سکھا رہا ہے ، وہ اسلامی کلچر کو قابل فخر چیز بنا کر پیش کر رہا ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔

آپ غور فرمائیے پوری مسلم دنیا پر فکری یلغار کر کے اسے ملامتی صوفی بنا دیا گیا ہے ایسے میں کسی مسلمان ملک میں صرف ایک ڈرامہ تیار ہوا اور وہ بھی برداشت نہیں ہو پارہا ۔ اسے ترکی کا ’ سوفٹ ایٹم بم‘ ہونے کا طعنہ دیا جا رہا ہے ۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ ’ ارطغرل‘ ڈرامے سے پتا چلتا ہے کہ ترکی کے عزائم کیا ہیں اور وہ خود کو ایک بڑی سلطنت کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے ۔ نیویارک ٹائمز کی فرد جرم کا دلچسپ حصہ یہ ہے کہ چونکہ یہ ڈرامہ ترکی میں بہت زیادہ مقبول ہو چکا ہے اس لیے ثابت ہوا کہ ترکی کے عوام بھی اس ’’ جرم‘‘ میں اردوان کے ساتھ ہیں ۔ یعنی دونوں مل کر مسلمانوں کی عظیم سلطنت کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔

اردوان نے ’ ارطغرل کے خلاف ہونے والے اس سارے پروپیگنڈے کے جواب میں صرف ایک فقرہ کہا ہے : ’’جب تک شیر اپنی تاریخ خود نہیں لکھیں گے تب تک شکاری ہی ہیرو بنے رہیں گے‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے