قرآن کی مردانہ تشریح

قرآن و حدیث کی تشریح چونکہ مردوں ھی کے ھاتھ میں رھی ھے لہذا انہوں نے ھمیشہ اس کو مرد کے حق میں ھی استعمال کیا ھے ،، ھر تاویل کا اینڈ ھمیشہ مرد کی تعریف و توصیف اور عورت کی مذمت پر ھوتا ھے ،،،

قرآن نے اپنے تمام قصص میں عورت کی حکمت ، دانائی ، منصوبہ بندی ،کلوز آبزرویشن ( دقتِ نظر) دو ٹوک فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو تفصیل کے ساتھ لمبی لمبی آیتوں میں بیان کیا ھے ، بنی اسرائیل کی تاریخ کے ھر فیصلہ کن موڑ پہ عورت ھی کھڑی ھے ،،مگر ان سب کو مجال ھے کہ کوئی بیان کرنے کی زحمت کرے ،، اس کے بجائے یہود کی اسرائیلیات سے روایات لا کر عورت کی تذلیل کی جاتی ھے حالانکہ قرآن کے فیصلے کے بعد کسی کو عورت کی تنقیص کا حق نہیں ،،

قرآن میں زچگی کے جتنے مراحل گنوائے گئے ھیں اور ان کو گنوانے کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کی گئ ھے ،،، ان تمام مراحل اور فضائل کو مرد کی ماں کے ساتھ منسوب کر دیا گیا ھے ،، اور صرف مرد کی ماں کے قدموں تلے جنت قرار دی گئ ھے ،حالانکہ قرآن انسان کی ماں پر زچگی اور پیدائش و دودھ پلانے کے جن اذیت ناک مراحل کا ذکر کرتا ھے وہ عورت کی ماں پر بھی گزرتے ھیں ،پھر کس منطق کے تحت عورت اور اس کی ماں کو انسان کے زمرے سے نکال دیا جاتا ھے ؟ ظاھر ھے کہ یہ مردانہ عصبیت ھے ،، یہاں بھی قرآن کے فیصلے پر اسرائیلیات سے استدلال کر کے عورت کو کہا جاتا ھے کہ اگر وہ اپنے مرتے ھوئے والدین کی موت کے وقت بھی شوھر کی اطاعت کر کے نہ جائے ،، اور دفن ھونے تک نہ جائے تو اس کی اطاعت کے بدلے اس کے والدین کی مغفرت ھو جائے گی ،جناب کیا شوھر کے والدین کو اتنی ایزی مغفرت کی ضرورت نہیں ؟

اسی طرح کہا جاتا ھے کہ سورہ النساء کی آیت 34 میں عورت کو کہا گیا ھے کہ وہ شوھر کی عدم موجودگی میں اپنی عصمت کی حفاظت کرے ،، حالانکہ یہ بات سرے سے آیت میں مذکور ھی نہیں ،، وھاں تو بات ھو رھی ھے کہ وہ شوھر کے گھر کی چھپی باتیں یعنی غیب جو اس کے علم میں آتے ھیں ان کو باھر یہانتک کہ اپنے والدین کے سامنے بھی ڈسکس نہ کرے ،، اگر ترجمہ وہ کیا جائے کہ شوھر کی عدم موجودگی میں عصمت کی حفاظت کریں تو اس کا مطلب یہ ھوا کہ شوھر جب واپس آ جائے تو پھر جو مرضی ھے کرتی پھریں ،کیونکہ اللہ نے جمعے کی پابندی لگائی تو فرمایا جب جمعہ ختم ھو جائے تو پھر بے شک نکل پڑو اللہ کا فضل ڈھونڈنے کے لئے ،، یعنی پابندی ختم ،،،

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ

فالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ

وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ

كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا

سورۃ القصص،عورت کی ذات کے مختلف پہلوؤں کا گلدستہ،عورت کا اعزاز !

سورہ القصص ایک گلدستہ ھے جو عورت ھی کی مختلف حیثیتوں کو مختلف رنگوں اور شیڈز میں کچھ اسطرح پیش کرتا ھے کہ فیصلہ کرنا مشکل ھو جاتا ھے کہ ان میں سے عورت کا کونسا روپ زیادہ عظیم اور مقدس ھے، اور کس میں عورت اپنی عقل و فہم کی معراج پر نظر آتی ھۓ ، حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ایک طرف تو گھر میں اتنی غالب اور اور فیصلہ کن حیثییت رکھتی ھیں کہ اللہ موسی علیہ السلام کے والد کی بجائے براہ راست انکی ماں کو وحی فرماتا ھے، جبکہ والد موجود تھے ،مگر پورے قصہِ موسی میں وہ پکچر میں ھی نہیں ھیں ،

بات شروع ھی بڑے طمطراق سے ھوئی ھے کہ ،فرعون ایسا تھا ،ویسا تھا ،وہ یہ یہ ستم کر رھا تھا اور ھم نے فیصلہ کیا کہ بہت ھو گیا اب ھم اس قوم کی حالت بدل کر رھیں گے ،کمزوروں کی کمزوری کو قوت سے بدلیں گے اور ان کی اس پستی کو عزت میں تبدیل کر دیں گے ، اب تو ھم ان کو حاکم بنا کر چھوڑیں گے اور آلِ فرعون اور ھامان ان کے لاؤ لشکر کو وہ کچھ کر کے دکھائیں گے جس کے خدشے سے انہوں نے ظلم و ستم کی چکی چلا رکھی ھے ،،، پتہ چلتا ھے کہ اتنی لمبی اسٹیٹمنٹ کے بعد کوئی دھماکہ کیا جائے گا ، کوئی اھم ترین قدم اٹھایا جانے والا ھے جو قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا،،، وہ اھم اقدام کیا تھا ؟ ھم نے وحی کی ام موسی کی طرف کہ بچے کو تسلی سے دودھ پلاتی رھو اگر خدشہ محسوس ھو تو اس کو تابوت میں رکھ کر دریا میں پھینک دینا ،میں دریا سے کہے دیتا ھوں کہ وہ اس کو امان کے ساتھ کنارے پر لگا دے ،،اوئے دریا اس بچے کے تابوت کو ڈبونا نہیں بلکہ کنارے پر لگانا ھے،امام محمد متولی الشعراوی فرماتے ھیں کہ ام موسی کو تسلی کے لئے دریا سے رب کا خطاب سنوایا گیا ،،

عرض یہ کرنا ھے کہ اللہ پاک نے گھر میں عورت کے اھم کردار کو تسلیم کر کے عورت کو فیصلہ لینے کے لئے کہا ھے، اگر ھم بھی کسی گھر میں شوھر کو کمزور دیکھ کر عورت سے گھر یا گاڑی کا سودا کر لیں تو کوئی حرج نہیں ،، عورت کا فیصلہ اخری ھوتا ھے ،جبکہ شوھر کا فیصلہ بیوی کی منظوری کا محتاج رھتا ھے،پارلیمنٹ کے ووٹ کی طرح،،، ام موسی علیہا السلام کے عمل کے بعد فرعون کی بیوی آسیہ کا کردار بحیثیت ایک حاوی خاتون کے ظاھر ھوتا ھے ،گویا موسی عورت سے عورت کی نگرانی میں عورت کو منتقل ھو رھے ھیں ،، مرد صرف ساہڈ ھیرو ھے، عورت کی نگرانی سے مراد موسیؑ کی بہن ھے مراد ھے ،بڑا بھائی ھارون دستیاب ھونے کے باوجود ماں کا بیٹی کو جاسوسی کے لئے منتخب کرنا اگر ایک طرف ماں اور بیٹی کے آپس کے تعلقات کے قرب کو اجاگر کرتا ھے تو دوسری طرف ماں کی اس صلاحیت کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ ماں اپنے بچوں کی صلاحیتوں سے اچھی طرح آگاہ ھوتی ھے ، پھر بیٹی کا اسطرح نگرانی کرنا کہ وہ بچے سے اپنی کسی دلچسپی یا تعلق کو ظاھر کیے بغیر بچے پر نظر رکھے ،بہت بڑی بات تھی اور اللہ پاک نے اس کی اس ادا کا خاص ذکر فرمایا ھے کہ ماں نے تو بیٹی سے کہا” پیچھے لگ جا اس کے ” پھر فرمایا ،پس اس نے نظر رکھی اس پر اجنبی بن کر اور ان کو پتہ بھی نہ چلنے دیا” کہ اس 9 سال کی بچی کا اس تابوت والے بچے کے ساتھ کوئی تعلق ھے ،، بلکہ جب اس بچے کی زندگی اور موت کا فیصلہ ھونے جا رھا تھا اور فرعون اور اسکی بیوی میں بچے کو قتل کرنے ،نہ کرنے پر بحث چل رھی تھی تو اس لڑکی نے اس پورے عرصے میں اپنے کزی جذباتی لگاؤ کو ظاھر نہیں ھونے دیا نہ ھی اتنی بیتابی دکھائی کہ محل والے چونک جاتے اور نہ ھی رونا دھونا شروع کیا ،،بلکہ مناسب وقت کا انتظار کیا اور بچے کو پالنے کا فیصلہ ھو گیا اور بچے کو دودھ پلانے کی بحث شروع ھوئی تو اس نے مشورہ دیا کہ ” کیا میں تمہیں بتاؤں وہ گھرانہ جو اس کو خیرخواھی سے دودھ پلائے اور پالے ،کیونکہ بچہ کسی اور کا دودھ نہیں پی رھا تھا،، اور روئے جا رھا تھا اور بھوک سے ھلکان تھا ، اس اضطراری موقعے پر کسی کو سوچنے کی مہلت ھی نہیں ملی کہ 9 سال کی بچی دودھ کے معاملات کو کیا جانے ،یا اس کو کیا پتہ کہ کون بچے کا خیر خواہ ھے،،

یہ وقت کے انتخاب کا کمال ھے ،،، دوسری جانب جب صندوق کنارے لگا اور صندوق میں سے بچہ نکلا جو ظاھر بنی اسرائیل کا ھی تھا ، جس کو قتل سے بچانے کے لئے کسی ماں نے دریا میں ڈال دیا تھا،اور وہ قاتلوں کے ھاتھ لگ گیا تھا ، فرعون اس کو فوری قتل کرنے پر اصرار کر رھا تھا ،جبکہ فرعون کی بیوی ڈھال بنی کھڑی تھی کہ ،لا تقتلوہ ” مت قتل کرو اس کو ،،ھم اس کو اپنا بیٹا بنا لیتے ھیں ،چار دن کھیلیں گے ،گھر کی رونق رھے گا،، اگر کوئی ایسی ویسی بات دیکھی تو قتل کر دیں گے ،،اتنی افراتفری کی ضرورت کیا ھے ؟ کیا یہ ابھی سے تلوار اٹھا لے گا؟ گھر میں اداسی ھے اپ دربار چلے جاتے ھو اور میں گھر میں اکیلی مکھیاں مارتی رھتی ھوں ،ذرا ماحول میں چینجنگ ھو جائے گی ،، اسطرح ھامان جیسے خرانٹ مشیر کے مشوروں کےمقابلے اپنی بات منوا کر ایک عورت کی جیت ھوئی اور اس گھر میں بھی اللہ نے موسی حفاظت کے لئے ایک عورت پر بھروسہ کیا جس نے اس اعتماد پر پورا اتر کر دکھایا اور جو ٹاسک اس کو سونپا گیا تھا،وہ اس نے پورا کر دکھایا،یعنی تینوں جگہ اللہ نے عورتوں پر بھروسہ کیا تینوں جگہ عورتیں کامیاب ھوئیں،پہلے ام موسی ،پھر اُختِ موسی ، پھر فرعون کی بیوی ،گویا تینوں عورتوں کا ریزلٹ 100٪ رھا ،جبکہ آگے چل کے آپ ھاروں علیہ السلام کے بارے میں پڑھیں گےکہ وہ سامری اینڈ کمپنی کی ایکٹیویٹیز کو ٹھیک طرح سے مانیٹر نہ کر پائے اور سامری نے پوری قوم کو اپنی گرفت میں لے لیا جبکہ حضرت ھارون اپنی عبادت کی طرف متوجہ رھے، مگر جب ان لوگوں نے بچھڑے کو خدا بنا لیا تو اس وقت وہ متحرک ھوئے مگر وقت ھاتھ سے نکل چکا تھا اور قوم کچھ اس طرح سامری کی معتقد ھو چکی تھی کہ وہ ان کو قتل کرنے پر بھی تیا ر ھو گئی ،،، موسی علیہ السلام فرعون کے محل میں پلتے رھے پھر جب وھاں سے انکو نبوت کی تربیت کے لئے اکیڈیمی منتقل کرنے کا مرحلہ آیا اور آپ سے ایک قتلِ خطا سرزد کروا کے اس کو افشاء کیا گیا اور موسی علیہ السلام کو مدین کی بستی میں داخل کر دیا گیا ،جہاں پھر عورت ھی انکا استقبال کرنے کے لئے موجود تھی ،،

شیخ مدین کی دو بیٹیاں پانی پلانے کو کھڑی تھیں، وہ حیا کی وجہ سے مردوں میں گھلتی ملتی نہیں تھیں اور بچہ کھچا پانی ھی اپنے جانوروں کو پلا پاتی تھیں ،، مگر اس سارے عرصے میں پیاس سے بےتاب جانوروں کو روک روک کے رکھنا بڑا مشکل اور اذیتناک مرحلہ ھوتا ھے ،اس کا اندازہ مویشی چرانے والوں کو ھی ھو سکتا ھے ،، آپ نے ان لڑکیوں سے پوچھا کہ تمہیں مسئلہ کیا ھے؟ چھوڑ دو جانوروں کو جا کر پانی پینے دو! انہوں نے بتایا کہ ھماری بستی کا دستور یہ ھے کہ جو ادمی پانی کھینچ رھا ھو اسی کے جانور پانی کے ٹب کے پاس جا سکتے ھیں ،، آپ نے ڈول پکڑا اور جھٹ پٹ پانی کھینچ کر پلا دیا ،، اور خود جا کر درخت کے نیچے کھڑے ھو گئے اور دعا کی پروردگا میں آج اتنا مجبور و بے کس ھوں کہ جو بھی جتنی بھی خیر تو بھیج دے میں فقیر ھوں ،، پس ان میں سے ایک حیا سے ،حیا پر چلتی ھوئی آئی ،،گویا وہ عورت موسی علیہ السلام کی دعا کا جواب” خیر ” تھی اب ساری خیریں اس خیر سے نکلنی تھیں،،وہ لڑکی جناب موسیؑ کو بہترین اور بامقصد الفاظ سے مخطب کرتی ھے اور ایسی معقول وجہ بیان کرتی ھے کہ موسیؑ جیسے حساس شخص کی انا کو ٹھیس پہنچائے بغیر ساتھ جانے پر آمادہ کر لیتی ھے ،، گھر میں وھی لڑکی باپ کی مشیر ھے اور کہتی ھے ابا ھمیں اب گھر میں کسی مرد کی سخت ضروت ھے ،اور یہ بندہ بڑا دیندار،قوی اور دیانتدار ھے ،اس سے اچھا بندہ ملنا مشکل ھے اسے ھاتھ سے نکلنے مت دینا ،لیں جناب لڑکی کا مشورہ مان لیا گیا ،گھر میں جوان کو اسی صورت رکھا جا سکتا تھا کہ کوئی محرم رشتہ قائم ھو جائے ،، موسیؑ کو رشتے کی پیش کش کی گئی اور آپ نے قدرتاً اسی لڑکی کی طرف میلان ظاھر فرمایا جو خیر بن کر آئی تھی ، اس پورے قصے میں آپ نے عورت کی عقل و فہم ،کمٹمنٹ، ڈیڈیکیشن اور اپنے کام کو بہترین انداز میں پایا ئے تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت نوٹ کی ھوگی ،،یہ ھے عورت کا وہ قرآنی پہلو جس کو پڑھ کر یورپ کی عورت ششدر رہ جاتی ھے، اور اپنے کو مسلم بنانے میں فخر محسوس کرتی ھے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے