عشق بخیر اور بالیتھری

’’عشق بخیر‘‘ شاعری اور ’’بالیتھری‘‘ ایک افسانوی مجموعہ ہے نظم اور نثر کے اس فرق سے قطع نظر ان کے لکھنے والے بھی عمر کے دو مختلف حصوں اور زندگی کے دو جداگانہ طرز کے شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

عزیزی رحمن فارس انجینئرنگ ہوا بازی اور سول سروس کے راستے ’’عشق بخیر‘‘ تک پہنچا اور ڈاکٹر شہریار احمد خان کینسر ایکسپرٹ، ماہر استاد اور ایک منفرد طرز کے زیر تعمیر کینسر اسپتال کی راہ سے ہوتے ہوئے بالیتھری کے نواح میں داخل ہوئے اور یہ کہ دونوں کتابیں ایک ہی سال میں شائع ہوئی ہیں۔

مطیع الرحمن المعروف رحمن فارس گزشتہ دس برس میں ابھرنے والے اردو شاعروں کی پہلی صف بلکہ بعض حوالوں سے پہلے درجے کا شاعر ہے کہ اس جیسی مقبولیت اس کے کسی ہم عصر کو نصیب نہیں ہوئی۔ اب یوں بھی نہیں ہے کہ ’’وہ آیا اس نے دیکھا اور وہ چھاگیا‘‘ کہ یہاں تک اس کو پہنچنے میں پندرہ سے بیس برس لگے ہیں۔ اگرچہ اللہ نے اسے چہرہ اور وجاہت ایسی دی ہے کہ وہ اپنی عمر سے بہت کم بلکہ لڑکا سا نظر آتا ہے۔

مجھے یاد ہے کوئی دس برس قبل وہ اپنے شعری مجموعے کے مسودے کے ساتھ میرے پاس آیا تھا جو نہ صرف نک سک سے بالکل درست تھا بلکہ اس میں اچھے اشعار کی تعداد بھی معقول تھی لیکن زیادہ تر حصہ ’’مشق سخن‘‘ کی ذیل میں آتا تھا میں نے اسے مشورہ دیا کہ ’’اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی‘‘ یعنی مجموعے کی اشاعت میں سر ہلانے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ رحمن فارس کا شمار اس ایک فی صد میں ہے جنہوں نے اس بات کو سنجیدگی سے سنا اور سمجھا اس وقت تک اس کی بیشتر شاعری روایتی اور معاصر شعری مضامین سے ہم آہنگ تھی۔

پھر معلوم ہوا کہ وہ برادرم عباس تابش کے حلقے میں اٹھنے بیٹھنے لگا ہے۔ یہ خبر اس اعتبار سے خوش آئند تھی کہ عہد حاضر میں عباس تابش نہ صرف اپنی نسل کا بلکہ عہد جدید کا ایک نمایندہ غزل گو ہے اور شعر کی روایت، مصرعے کی ساخت، تخلیقی اپج اور کرافٹ کے حوالے سے وہ ایک باکمال اور بہت محنتی شاعر ہے۔

میری توقع کے عین مطابق بہت ہی تھوڑے عرصے میں رحمن فارس کی تخلیقی صلاحیت کے جوہر کھل کر سامنے آنے لگے اور اس کی ہر اگلی منزل بہتر سے بہتر ہوتی چلی گئی۔ محنتی، باصلاحیت اور صاحب مطالعہ تو وہ پہلے سے ہی تھا۔ اب جو اس نے اپنا رشتہ نئے شعری رویوں، مضامین اور طرز اظہار سے جوڑا ہے تو اس کی صلاحیتیں اس تیزی سے نکھر کر سامنے آئیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مشاعروں اور دیگر ادبی تقاریب کی زینت کے ساتھ ساتھ اپنی نسل کا ایک معتبر اور مقبول نمایندہ بھی بن گیا۔

اس کتاب ’’عشق بخیر‘‘ میں آپ کو جگہ جگہ ایسے اشعار ملیں گے جو بقول حسرتؔ ’’سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں‘‘ والی کیفت کے حامل ہیں۔ اس کتاب کے فلیپس پر درج بیشتر اشعار شعری ذوق رکھنے والے قارئین کے ذہن میں پہلے سے محفوظ ہیں اور کسی نسبتاً نوجوان شاعر کے لیے یہ اختصاص بلاشبہ بہت فخر کی بات ہے۔

وہ روشنی تھی کہ آنکھیں تو اٹھ نہیں پائیں

میں تیرے پاؤں سے جانا کہ روبرو تو ہے

آپ کی آنکھیں اگر شعر سنانے لگ جائیں

ہم جو غزلیں لیے پھرتے ہیں ٹھکانے لگ جائیں

تم بھی ہو بیتے وقت کے مانند ہو بہو

تم نے بھی یاد آنا ہے، آنا تو ہے نہیں

کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی

کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

میں تو محفل سے اٹھنے والا تھا

پھر کسی آنکھ نے اشارہ کیا

مجھ میں خود کو جگہ نہیں ملتی

تو ہے موجود اس قدر مجھ میں

میرے کاسے کو ہے بس چار ہی سکوں کی طلب

عشق ہو، وقت ہو، کاغذ ہو، قلم ہو

پھول کھلا روش روش، نور کا اہتمام کر

حضرت قیس آئے ہیں، دشت جنوں، سلام کر

تیزی سے ملنے والی شہرت میں ایک خدشہ ہمیشہ رہتا ہے کہ کہیں یہ آپ کے پیچھے پیچھے چلنے کی جگہ آپ کو اپنے آگے نہ لگا لے، عشق بخیر، جیسی خوبصورت اور عمدہ کتاب کا مصنف بننے کے بعد رحمن فارس پر اس خدشے کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے لیکن جیسا کہ میں اسے جانتا ہوں اور جس طرح سے وہ اپنا شعری سفر طے کر رہا ہے یقین واثق ہے کہ وہ اس منزل سے بھی بحسن و خوبی گزر جائے گا اور اس کی شاعری اس طرح معیار اور مقبولیت کی نئی سے نئی منزلیں طے کرتی رہے گی۔

ڈاکٹر شہریار احمد خان کے افسانوں کا یہ پہلا مجموعہ ’’بالیتھری‘‘ ان کے ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد شائع ہوا ہے یعنی یہ ایک طرح سے ان کے بڑھاپے کا عشق ہے مگر جس خوبی اور آسانی سے انھوں نے یہ دلچسپ مختصر خیال افروز اور گہری کہانیاں لکھی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی یہ ادبی مہم بھی کینسر اسپتال کی تعمیر کی مہم کی طرح کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔

گزشتہ دنوں ادارہ بیاض اور افسانہ نگار فرحت پروین کے زیر اہتمام اس افسانوی مجموعے کی ایک تعارفی تقریب منعقد ہوئی جس میں مجھے بھی شمولیت کا موقع ملا۔ میرے اور صاحب صدر ڈاکٹر خورشید رضوی سمیت تقریباً تمام مضمون نگاروں (امیر حسن جعفری، ڈاکٹر شاہدہ دلاور، ڈاکٹر عافر شہزاد) نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ ڈاکٹر صاحب کا مشاہدہ گہرا اور انداز بیان بیک وقت دلچسپ اور رواں بھی ہے اور دلکش اور خیال افروز بھی۔

حیرت کی بات ہے کہ اس کتاب کے بیشتر موضوعات اور کرداروں کا کوئی بھی تعلق ان کی پیشہ ورانہ زندگی سے نہیں بنتا اور نہ ہی انھوں نے اس کے ذریعے اپنے تحقیقی موضوع یعنی کینسر کے حوالے سے کوئی بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ زیادہ تر کہانیاں غریب، دیہاتی اور ایسے عام لوگوں کے گرد گھومتی ہیں جو ہمہ وقت ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں مگر ہم انھیں روا روی میں دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔

اس کالم کی تحریر کے دوران ہی اردو کی ایک نامور اور عہد ساز افسانہ نگار خالدہ حسین کے انتقال کی خبر ملی۔ خالدہ حسین کا شمار عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، جیلانی بانو، حاجرہ مسرور، خدیجہ مستور اور بانو قدسیہ کے فوراً بعد آنے والی نسل میں ہوتا ہے اور بلاشبہ وہ اس نسل کی سب سے اہم اور نمایندہ کہانی کار تھیں۔ بلاشبہ ان کے ہمارے درمیان سے اٹھ جانے سے افسانے کی دنیا مزید ویران ہوگئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے