فقط آرزو کی بات نہیں

آرزو اب بھی یہی ہے کہ اللہ اسے کامیاب کرے۔ پروردگار کا فرمان مگر یہ ہے: لَیس لِلانسان اِلّا ما سعی۔ انسان کے لیے وہی کچھ ہے، جس کی اس نے کوشش کی ہے۔وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں۔

کسی اور مفہوم میں اقبالؔ نے کہا تھا: سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار/ غلامی سے بتر ہے بے یقینی۔ حیران، سرگرداں اور پریشان ‘اب بے یقینی کے دوسرے پہلو ہم دیکھ رہے ہیں۔ متذبذب حکمرانوں کی روش پہ آزردہ اور دکھی ۔

ہمیشہ عرض کیا کہ حالات کی سنگینی کے باوجود منزل پہ مسافر پہنچ سکتا ہے؛بشرطیکہ عزم و شعور رکھتا ہو۔ اسلام آباد سے کراچی جانے کے لیے جہاز اور گاڑی ، حتیٰ کہ بس کا کرایہ ادا کرنے کی استطاعت بھی اگر نہ ہو۔ بائیسکل پہ آدمی سوار ہو جائے تو بھی موسم کا ستم سہتا ، ساحلِ سمندر کو جا لے گا۔ لیکن اگر راستہ ہی معلوم نہ ہو؟

فارسی کے شاعر نے کہا تھا: اے عازم، جس راہ پہ تو گامزن ہے، حرم نہیں وہ ترکستان کو جاتا ہے۔

کسی نے سوال یہ اٹھایا ہے کہ پانی اگر سب سے بڑا مسئلہ ہے تو کیا فیصل واوڈا حل کریں گے؟ اندرونِ ملک کی مزاحمت اور دنیا بھر میں در پیش ہولناک کشمکش کا ازالہ کیا فواد چوہدری کر سکتے ہیں؟ثقافت کی گتھیاں فیض الحسن چوہان سلجھائیں گے؟

ایسا کوئی نہیں، ایک خاص صلاحیت، ہنر اور امکان جسے بخشا نہ جاتا ہو۔ فیاض الحسن چوہان ، فواد چوہدری اور فیصل واوڈا بے ہنر لوگ نہیں۔ کہیں، کسی اور میدان میں یہ سب لوگ کارگر ہو سکتے ہیں۔ ان مناصب کو نبھانے کے اہل وہ بہر حال نہیں، جن پر فائز ہیں۔

صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اوسط درجے کی ذہانت کے آدمی ہیں مگر ان میں اعتدال ہے۔ ہم ان کے بارے میں اندیشہ نہیں پالتے کہ اپنے جلیل منصب کو رسوا کریں گے۔

وزیر خزانہ اسد عمر پہ بہت تنقید ہوئی۔ بعض لوگوں نے کہا کہ معیشت کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھا نہ سکیں گے۔ بجا ارشاد مگر ان کی دیانت پر انگلی نہیں اٹھائی جا تی۔ حسنِ ظن یہ ہے کہ بتدریج شاید وہ ادراک کر لے، شاید وہ گرہ کھول سکے۔

سب سے زیادہ الجھا ہوا آدمی خود قافلہ سالار عمران خان ہے۔ مردم شناس ہے اور نہ معاملہ فہم۔ اس پر مستزاد اپنی برگزیدگی کا احساس۔ کاروبارِ ریاست یعنی State Craft سے وہ آشنا ہی نہیں۔ دوسروں پہ یہ ناچیز کیا اعتراض کرے۔

برسوں تک وہ خود اس کا گیت گاتا رہا۔ 2013ء میں ٹکٹوں کی تقسیم کے ہنگام، احساس ہوا کہ وہ ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔ وہ ڈاکو کو ولی اللہ اور ولی اللہ کو ڈاکو سمجھ لیتا ہے۔ زور زبردستی سے دروازہ کھول کر پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں خاکسار جاگھسا۔ عرض کیا کہ تمام تر انحصار ٹکٹوں کی تقسیم پر ہے۔ اس نے اتفاق کیا مگر کچھ بھی کر نہ پایا۔ تین مختلف سروے ہوئے۔ تینوں کا نتیجہ تھا کہ قومی اسمبلی کی کم از کم90 سیٹیں تحریک انصاف جیت سکتی ہے۔ ہارون خواجہ کی نگرانی میں ایک آخری جستجو ہوئی۔ نہایت بشاشت کے ساتھ خواجہ صاحب نے بتایا: اگر وہ مزید کچھ بھی نہ کرے تو 91 سیٹوں پہ کامیاب ہو سکتا ہے۔خواجہ ہارون سیاست سے زیادہ تحقیق کے آدمی ہیں۔ ان کی مہارت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے، سرد مہری کا روّیہ اختیار کر کے جان چھڑا لی گئی۔ ان کا کیابگڑا؟ نقصان پارٹی کو پہنچا۔ ہر سلیقہ مند اور مخلص آدمی کے ساتھ یہی ہوا۔فیصلے درباریوں نے صادر کیے۔

لگ بھگ پورا ایک سال پارٹی کے الیکشن میں ضائع کر دیا گیا تھا۔دھڑا دھڑ جس میں ووٹ خریدے گئے۔ اٹھارہ برس تک پورے خلوص سے کارفرما فوزیہ قصوری کی بجائے ایک گمنام خاتون کو صدر بنا دیا گیا۔قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے سے بھی انکار کر دیا گیا کہ وہ دہری شہریت کی حامل ہیں، حالانکہ امریکی شہریت انہوں نے واپس کر دی تھی۔
جسٹس وجیہہ الدین کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ سیکرٹری جنرل پرویز خٹک سمیت اکثر عہدیدار دھاندلی سے جیتے۔ الیکشن کو کالعدم قرار دینے اور ان عہدیداروں سے پنڈ چھڑانے کی بجائے، خان صاحب نے جسٹس صاحب ہی سے نجات پالی۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔بڑے پیمانے پر پارٹی فنڈ میں گھپلے ہوئے۔ سزا دینے کی بجائے قصور واروں کو نوازا گیا۔ عمران خان بدعنوانی کا حصہ نہیں تھے مگر کسی ایک بھی خائن کے خلاف کارروائی نہ کی۔

کرپشن کے خلاف جہاد کا علم لے کر اٹھے تھے لیکن پھر انہوں نے ہر خائن اور ہر بدعنوان کو گوارا کیا۔ارشاد ہوا کہ لیڈر اگر ایماندار ہو تو آخری نتیجہ بالکل ٹھیک نکلے گا۔ شریف اور زرداری خاندان کی لوٹ مار سے تنگ آئے لوگوں نے اس احمقانہ تاویل کو قبول کر لیا۔

اقتدار حاصل کرنے کی بے چینی میں سمجھوتے پر سمجھوتہ کیا گیا۔ 2013ء میں ٹکٹوں کی جو بندربانٹ ہوئی سو ہوئی۔ مصلحت کیشی کا نقطہ عروج شاید وہ تھا جب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ایسے امیدواروں کو خوش دلی سے قبول کر لیا گیا۔

انہی دنوں ایک بار فون کیا۔ ہر چند میں نے بات نہ کی۔ شرمندہ سی ہنسی وہ ہنسا اور یہ کہا: اب تو فردوس اعوان بھی آ ملی ہیں۔ اب تو ہم جیت جائیں گے۔ کوئی تبصرہ کرنے سے خاکسار نے گریز کیا۔ ایسے ہی ایک اور امیدوار پہ البتہ یہ ضرور کہا : آپ نے یہ کیا کیا؟… کوئی جواب نہ ملا۔

2018ء میں ٹکٹوں کی تقسیم اس نے دوسروں پر چھوڑ دی۔ پریشان حال امیدوار ایک ایک دروازہ کھٹکھٹاتے رہے۔ چندایک میرے پاس بھی آئے ۔اکثر سے معذرت کی یا زیادہ سے زیادہ فون پر پیغام بھیج دیا۔ ایک امیدوار ایسے بھی تھے، جنہیں مسترد کرنے پہ حیرت ہوئی۔ اس لیے کہ دو بار آزاد امیدوار کے طور پر وہ جیت چکے تھے۔ ایک محترم شخصیت سے بات کی۔ ”دوسروں‘‘ سے انہوں نے رابطہ کیا۔ اسی شام ان کا فون آیا: نہایت بشاشت کے ساتھ اطلاع دی کہ ٹکٹ انہیں الاٹ کر دیا گیا ہے۔

شدید کوفت کے باوجود حسنِ ظن کو تھامے رکھا۔ اس خیال سے کہ وہ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کا معمار ہے۔ کرکٹ کا عالمی کپ اس نے جیتا تھا۔ صاحبِ عزم ہے۔ اس کے باوجود کہ اپنے ساتھیوں کے مشورے پر، اس ناچیز کے بائیکاٹ کا اس نے فیصلہ کیا، الحمد للہ تنقید میں اعتدال کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ یہ احساس بھی کار فرما تھا کہ دوبڑی سیاسی مافیاز سے اس نے نجات دلائی ہے۔

انہی دنوں اس کے دفاع میں ایک کالم لکھا۔ اس کے دفاع سے زیادہ لوٹ مار کرنے والوں کی مذمت میں۔ آنجناب کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک نے اسے جتلایا کہ ایسے آدمی سے تم بے نیاز کیسے ہو سکتے ہو۔ دو معزز وفاقی وزرا دربار میں تشریف فرما تھے۔ ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری پارٹی کا رخ کرنے والے موقع شناس۔ وہ تاب نہ لا سکے۔ گھبرائے اور مشورہ دیا کہ اس طرح کے اخبار نویسوں سے دور رہنا چاہئے۔ ان صاحب سے میں نے کہا: اہمیت اس کی نہیں کہ وزیراعظم سے مراسم برقرار رہتے ہیں یا نہیں۔ نام نہاد بڑے لوگوں سے رہ و رسم کی تمنا کبھی نہ تھی۔ ایک مقصد کے لیے میں نے اس کا ساتھ دیاتھا۔ ردّ عمل کا شکار انشاء اللہ میں کبھی نہ ہوں گا۔ اخبار نویس کو آزادی ہی راس ہوتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس عزم اور ارادے پر میں اب بھی قائم ہوں۔ کوئی اچھا کام حکومت سے سرزد ہوتا ہے تو دل شاد ہوتا ہے۔ کھل کر اس کی داد دیتے ہیں۔

اندازے درست ہوتے ہیں اور نا درست بھی۔ تجربے سے یہی سیکھا کہ اپنی رائے پہ زیادہ اصرار نہ کرنا چاہئے۔

دوسری طرف یہ کہ قدرتِ کاملہ کے کچھ ازلی اور ابدی قوانین ہیں۔ ظفر مندی ان سے ہم آہنگی میں ہوتی ہے، انحراف میں نہیں۔ عمران خان کی کامیابی کے دور دور تک آثار نہیں۔

خان صاحب کے لیے برسوں حسنِ ظن پالنے والے اخبار نویس عدنان عادل کا وہی جملہ: ایک نسل کو بھٹو نے دھوکہ دیا، دوسری کو عمران خان نے۔کیا کرشمہ آنجناب نے دکھایا کہ پی ٹی آئی جیسی پارٹی کو ق لیگ بنا دیا۔

آرزو اب بھی یہی ہے کہ اللہ اسے کامیاب کرے۔ پروردگار کا فرمان مگر یہ ہے: لَیس لِلانسان اِلّا ما سعی۔ انسان کے لیے وہی کچھ ہے، جس کی اس نے کوشش کی ہے۔وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے