لائق لوگ

حکومت کیا کر رہی ہے۔ بس حکومت فرما رہی ہے۔ دھمکی دیتی یا نفرت پھیلاتی ہے۔ اندازہ اور احساس ہی نہیں کہ ملک کو قرار چاہئے۔ ناکام اور بدنام اپوزیشن لیڈروں کے گٹھ جوڑ سے نہیں، حکومت کو اگر خطرہ ہے تو اپنی نالائقی، اپنی نارسائی سے ۔

عمران خان کے میڈیا منیجر، پیر کی شام ایک اخبار نویس کو ڈھونڈتے رہے۔ ابھی کل تک جو کپتان کا پر جوش حامی تھا مگر اب بیزار ہے۔ ایک صاحب سے افتخار درّانی نے کہا: وزیراعظم فون کریں گے، ان سے کہیے براہِ کرم سن لیں۔

سنا یا نہیں ، بات ہوئی یا نہ ہو سکی۔ ہوئی تو کیا طے پایا۔ معلوم کرنے کی کوشش ہی نہ کی۔ اعتراضات اس کالم نگار کے بالکل وہی تھے، دوسرے آزاد اخبار نویس جو دہراتے رہتے ہیں۔ نالائق وزیر، نالائق مشیر، کوئی سمت نہ کوئی لائحہ عمل۔ بڑے بڑے دعوے مگر تیاری اور ریاضت نام کو نہیں۔کام کے نہ کاج کے پاؤ بھر اناج کے۔چھوٹے سراور لمبی زبانیں۔ایک سے ایک بیکار آدمی۔ انکشاف یہ بھی ہوا کہ برسوں کی بھر پور تائید کے باوجود سرکاری تقریبات سے دور رکھے گئے۔ اس لیے کہ نعیم الحقوں کو گوارا نہیں۔

اسی اثنا میں کسی نے خاکسار پہ نوازش کی۔ کہا کہ وزیراعظم سے آپ کی ملاقات کرا دیتے ہیں۔ ان کی بات سن لیجیے۔ عرض کیا: مجھ سے کیا مسئلہ ہے؟ ایک ذرا سی تنقید ضرور کی، کچھ تجاویز پیش کرنے کی جسارت کی، مگر ان کے مخالفین کی تائید کی اور نہ کوئی الزام عائد کیا۔ مؤقف تو بدل نہیں سکتا،ان سے مل کر کیا کروں گا؟آئے دن جو ملا کرتے ہیں، ان کی کیا وہ سنتے ہیں؟

پنجاب کے وزیراعلیٰ نے یاد کیا تو ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔یہ الگ بات کہ سارا وقت وہ خاموش رہے۔ اپنی ترجیحات بیان کیں اور نہ اپنی حکومت کی۔ دو ایک بار گورنر پنجاب سے ملاقات ہوئی۔ چوہدری صاحبان آج کل بلندی سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود رابطہ ان سے بھی برقرار رکھا۔ بعض وزرائِ کرام ازراہِ کرم تشریف لایا کرتے ہیں۔ کبھی ہم ان کے ہاں چلے جاتے ہیں۔ آف دی ریکارڈ گفتگو میں ان سب نکات سے وہ اتفاق کرتے ہیں، غیر جانب دار سیاسی کارکن جو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔

ہم لوگ کیا کریں؟

نون لیگ والے کردار کشی کریں تو قابلِ فہم ۔ ایک ذرا سے اختلاف پہ پی ٹی آئی والے گالی بکتے ہیں۔ ایسی ایسی بدزبانی کہ خدا کی پناہ۔سکنڈے نیویا سے تحریکِ پاکستان کے ایک کارکن پرسوں ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ اس قدر برہم ہوئے کہ میں ضبط نہ کر سکا۔ عرض کیا: پی ٹی آئی والے بعض فرماتے ہیں کہ اخبار نویس سب کے سب جرائم پیشہ ہیں۔ ان کی تلاشی لی جائے۔ ان کے پیٹ پھاڑ کر ٹیکس وصول کیا جائے۔ ارے بھائی، ہماری جائیدادیں ضبط کرلو، ملک سے ہمیں باہر نکال دو، بلکہ پی ٹی آئی کے ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹروں کے سوا، سبھی کو۔ تب وہ کچھ دھیمے پڑے۔ تب اچانک انہیں یاد آیا کہ یہ آج کے سب چیخنے والے، آج کے سب ”انقلابی‘‘ اپنے عافیت کدوں میں آسودہ تھے تو کچھ لوگ میدان میں تھے۔کوئی احسان جتلائے اور کوئی دعویٰ کیے بغیر۔
جاؤ کہہ دو کوئی ساحل کے شبستانوں میں
لنگر انداز ہوں میں آج بھی طوفانوں میں

انہیں وزارت و سفارت درکار تھی نہ کوئی اعزاز۔چلانے اور تہمت تراشنے والوں میں سے بعض پیدا نہ ہوئے تھے، جب ہم نے بغاوت کا علم بلند کیا۔

آج پی ٹی آئی کا کوئی قابلِ ذکر عہدیدار نہیں جو منصب کا امیدوار نہ ہو۔ ندیم افضل چن تو پھر بھی غنیمت ہیں‘ شنید یہ ہے کہ فردوش عاشق اعوان کی گاڑی پہ بھی جھنڈا سجنے والا ہے۔ع
ہائے اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالبؔ

پچاس کروڑ روپے کے قرضے معاف کرانے والی فہمیدہ مرزا اور ایسے ہی کچھ دوسرے ہنر مند پہلے سے موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے Fund For Population کے مطابق پاکستان کی آبادی 2.4 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ 14910 بچّے ہر روز پیدا ہوتے ہیں۔ 3927 اموات۔ 587 پاکستانی شہری یا افغان ہجرت کر جاتے ہیں۔ گویاہر روز 10,395 افراد کا اضافہ۔ دو کروڑ ستر لاکھ بچّے سکولوں کا منہ نہیں دیکھتے۔ پہلے سے موجود بے ہنر‘ ناخواندہ افراد کی تعداد پانچ کروڑ دس لاکھ ہے۔ گویا سات کروڑ اسّی لاکھ ایسے ہیں، جو تعلیم اور ادنیٰ درجے کی مہارت سے بھی بے بہرہ ہیں۔ دنیا کی کل آبادی سات ارب ، اس میں پاکستان کا تناسب 3 فیصد ہے۔ دنیا بھر کی آمدن 80 ہزار ارب ڈالر۔ پاکستان کا حصّہ صرف 0.4 فیصد۔ یعنی اوسط آمدن کا بائیسواں ۔

صرف موجودہ معیارِ زندگی اور سہولیات کو برقرار رکھنے کے لیے ہر روز دس نئے ہائی سکول اور ہر ماہ تیس نئے تھانے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر روز 100 بستروںکا ایک نیاہسپتال درکار ہے۔ کم از کم آٹھ فیصد سالانہ شرح ترقی لازم ہے۔ بھارت اور سری لنکا میں سطح یہی ہے۔ چین میں اگرچہ 6 فیصد سالانہ ہے‘ لیکن بیتے برسوں میں یہ 13 فیصد تک پہنچی تھی۔ صرف 2 فیصد چینی سطحِ غربت سے نیچے کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ دور دراز مقامات کے مکین، بوڑھے یا کمزور اقلیتوں والے۔ گزشتہ سالوں میں افغانستان ایسے ملک کی شرح نمو دس فیصد سے زیادہ رہی۔ پچھلے برس تو تیس فیصد کو جا پہنچی۔

عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ برآمدات میں اضافے، براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری یا ترسیلاتِ زر کے اضافے سے معاشی بحران تحلیل ہو سکتا ہے، بچگانہ بات! ترسیلاتِ زر میں اضافہ مددگار ہوگا، مگر زیادہ سے زیادہ کتنا ؟ سب جانتے ہیںکہ تجارتی خسارہ دو ارب ڈالر ماہانہ ہے ۔ ہر سال 24 ارب ڈالر۔ مقامی سرمایہ دار خوف زدہ ہے تو بیرونی سرمایہ کیسے اور کیونکر آئے گا۔ امریکہ اور یورپ ہی نہیں، سعودی عرب سمیت مشرقِ وسطیٰ میں بھی ملازمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ پھر ان کی ترجیح، بھارت، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور فلپائن ہیں۔ ہماری نکمی نوکر شاہی اور نالائق وزیر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ کوئی منصوبہ نہ کاوش۔
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ دنیا ہے نہ دیں

ٹیکس وصولی کم سے کم تر ہو گئی۔ پہلے 6 ماہ میں ہدف سے 172 ارب کم وصول ہوئے۔ روپے کی قدر ایک تہائی گرانے کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہ ہو سکا۔دنیا بھر میں دس لاکھ اشیا درآمد اور برآمد کی جاتی ہیں۔ ان میں پاکستانی مصنوعات اور اشیا صرف 18 ہیں۔

نئے ٹیکس دہندگان تلاش کرنے کی بجائے، ایف بی آر پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کے در پے ہے۔ کس قدر لہو ان کا نچوڑا جا سکتا ہے۔ بار بار متوجہ کرنے پر تاجروں سے بالآخر بات چیت شروع ہوئی، لیکن سرسری اور سطحی۔ جب انہیں چور، ڈاکو اور ٹھگ کہاجائے گا تو سرمایہ کاری بڑھے گی یا سمٹے گی؟ ان سے بات کرو بھائی، ان کی حوصلہ افزائی کرو۔ افسر شاہی سے کام لینے کا طریقہ بھی یہی ہے، منت سماجت یا دھمکی نہیں۔

پاکستانی زراعت 7 فیصد سالانہ سے آغاز کرکے، پانچ برس میں سولہ فیصد شرح نمو تک پہنچ سکتی ہے۔ کھاد کی بروقت فراہمی، اچھا بیج، ملاوٹ سے پاک کرم کش ادویات اور آبپاشی کے نظام کی اصلاح۔

حکومت کیا کر رہی ہے۔ بس حکومت فرما رہی ہے۔ دھمکی دیتی یا نفرت پھیلاتی ہے۔ اندازہ اور احساس ہی نہیں کہ ملک کو قرار چاہئے۔ ناکام اور بدنام اپوزیشن لیڈروں کے گٹھ جوڑ سے نہیں، حکومت کو اگر خطرہ ہے تو اپنی نالائقی، اپنی نارسائی سے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے