نا اہل یا غدار؟

اس منظم انداز میں معاشی فیصلے کئے جا رہے ہیں جیسے پہلے سے کوئی پروگرام تھا ۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے ذاتی استمال کے فون کی رجسٹریشن سے لے کر تجاوزات کے خلاف آپریشن سمیت تمام فیصلے افراتفری پیدا کرنے کے کسی پروگرام کا حصہ ہونے کے شکوک پیدا ہوتے ہیں ۔حکومت سنبھالتے ہی عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی کی سربراہی دینے اور نئے سربراہ کا سی پیک کو تمام معاشی تباہی کا ذمہ دار قرار دینا بھی اسی پروگرام کا ایک حصہ لگتا ہے ۔عاطف میاں کو مشاورتی کمیٹی کا سربراہ مقرر کرنے کا فیصلہ تبدیل ہوا تو مشیر تجارت نے دھماکہ کر دیا سی پیک کو ایک سال کیلئے منجمند کر دیا جائے ۔

معاشی صورتحال اس سطح پر پہنچ گئی ہے سی پیک کے متعدد خاص طور پر توانائی کے منصوبوں پر نظر ثانی شروع ہو چکی ہے اور شائد مزید معاشی ابتری سی پیک کے مرکزی منصوبوں پر نظر ثانی تک جا پہنچے۔

معیشت کو جان بوجھ کر سی پیک دشمن قوتوں کے اشارے پر تباہ کیا جا رہا ہے یا یہ مکمل طور پر معیشت سے نابلد ہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔گزشتہ چند ماہ کے فیصلوں کا تجزیہ کریں ساری دال کالی لگتی ہے ۔ملک میں توانائی بحران کی وجہ سے قانونی اور غیر قانونی سرمایہ کا بہت بڑا حصہ پراپرٹی،حصص بازار اور آٹو مارکیٹ میں صرف ہوتا تھا ان تینوں شعبوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔پلاٹوں اور گاڑیوں کی خریداری پر ٹیکس دہندہ ہونے کی شرط عائد ہونے سے معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے ۔ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے تعمیرات کی صنعت چلتی تھی اور اس صنعت سے منسلک 72 ذیلی صنعتیں چلتی ہیں ۔نان فائلر پر خریداری کی پابندی سے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں 95 فیصد سرمایہ کاری ختم ہو چکی ہے ۔سیمنٹ،سریے،ٹائل غرض گھر اور بلڈنگ بنانے کیلئے درکار تمام اشیا کی پیدوار منجمند ہو چکی ہے ۔پلاٹوں کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں میں کمی الگ سے ایک مسلہ ہے ۔

آٹو کی صنعت میں 70 لاکھ سے زیادہ لوگ وینڈر انڈسٹری اور منسلک شعبوں سے رزق کماتے تھے ۔انڈس موٹر سمیت تمام بڑے آٹو مینو فیکچرر اپنے پیداواری یونٹ بند کر چکے ہیں ۔ٹیکس دہندہ کی شرط عائد ہونے کے بعد ڈیلر نے گاڑیاں اٹھانے سے انکار کر دیا ہے صرف ایک مینو فیکچرر کے پاس تین ارب کے درآمدی اور مقامی یونٹ پڑے ہیں ۔ڈیلرز کو ترغیبات کے باجود گاڑیوں کی نکاسی نہ ہونے کے برابر ہے ۔بینکوں اور مالیاتی اداروں کے آٹو فنانس میں نادہندگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

شرح سود میں اضافہ نے صرف حصص بازار ویران نہیں کیا تمام کاروبار بھی تباہ کر دئے ہیں ۔ایک طرف مقامی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہو رہا ہے دوسری طرف چھوٹے بڑے سرمایہ کار کاروبار کرنے کی بجائے بینکوں اور مالیاتی اداروں میں پیسے رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور کاروبای گھاٹے کے خوف سے محفوظ ہو کر سود کھا رہے ہیں ۔شرح سود میں اضافہ سے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر کاروبار کرنے کا رجحان بھی ختم ہو چکا ہے ۔

جس کے پاس چار پیسے ہیں وہ کاروبار کرنے کی بجائے ڈالر خریدنے ، سونے کے بسکٹ خریدنے اور بینکوں میں رقم جمع کرانے کے راستے پر چل نکلا ہے اور پیسے جو پیداواری شعبوں میں استمال ہونے تھے غیر پیداواری شعبوں کی طرف چل پڑے ہیں ۔

بحریہ ٹاون کے خلاف مہم اور تجاوزات کے خلاف ملک گیر آپریشن نے رئیل اسٹیٹ کی سرمایہ کاری کو ہی تباہ نہیں کیا سرمایہ کاروں کا رہا سہا اعتماد بھی ختم کر دیا ہے ۔ملک میں پراپرٹی کے کاروبار کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ بحریہ ٹاون میں تھا یہاں چھوٹے بڑے سرمایہ کاروں کے اربوں روپیہ قیمتیں کم ہونے سے اسی طرح غائب ہو گئے ہیں جس طرح حصص بازار میں قیمتیں کم ہونے سے سرمایہ کاروں کے پیسے ڈوبے ہیں ۔

ایک مجرمانہ فیصلہ ایل این جی کی درآمد کم کرنے کا تھا ۔اس فیصلہ سے کم قیمت ایل این جی کی درآمد کم کر کے مہنگے فرنس آئل کی درآمد بڑھائی گئی نہ صرف تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا بلکہ فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کر کے گردشی قرضہ بھی بڑھایا اور بجلی مہنگی کر کے تمام پیداواری شعبوں کی پیداواری لاگت بڑھا دی ۔

سب سے خوفناک اور سازشی فیصلہ روپیہ کی قیمت میں کمی کا تھا مفتاع اسماعیل نے روپیہ کی قیمت 112 تک کی انہوں نے 140 تک پہنچا دی ۔ایک روپیہ کا قرضہ لیے بغیر جس ایک ڈالر کے قرضے پر 112 روپیہ دینا تھے اس پر اب 140 روپیہ دینا پڑ رہے ہیں ۔روپیہ کی قدر کم کرنے سے تمام درآمدی توانائی پٹرول،ڈیزل،مٹی کا تیل اور فرنس آئل ہی مہنگا نہیں ہوا تمام درآمدی خام مال بھی مہنگا ہو گیا اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ دو ارب ڈالر ماہانہ تک جا پہنچا ہے اور تجارتی خسارہ الگ سے بڑھا ہے ۔حقیقی معنوں میں پاکستان اپنی عالمی ادائیگیوں میں نادہندہ ہو چکا ہے ۔

ترسیلات زر ،برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری جن سے زرمبادلہ کو حقیقی تحفظ ملتا ہے تمام ہدف سے کم ہیں ۔روپیہ کی قدر میں کمی سے برآمدات بڑھانے کا جو دھوکہ جن لوگوں نے دیا انکے پیچھے اصل سازش سے نجانے وہ طاقتور واقف ہیں جنہیں یہ دھوکہ دیا گیا ۔انیل مسرت نے 50 لاکھ گھروں کا سودہ جن لوگوں کو فروخت کیا انہیں یہ مال بھی فروخت کیا گیا تھا "جس دن عمران خان حکومت میں آگیا یہ اتنا پاپولر ہے بیرون ملک پاکستانی اربوں ڈالر پاکستان لے آئیں گے” جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ کھل چکا ،ملک معاشی تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟

ملک کے مجرم ہیں یہ لوگ پہلے صحافیوں سے آف دی ریکارڈ بات چیت میں آئی ایم ایف پیکیج کیلئے روپیہ کی قدر کم کرنے کی شرط کا ذکر کرتے ہیں اور جب خبریں افواہیں پھیلنے پر لوگ ڈالر خریدنے بھاگتے ہیں اسٹیٹ بینک کو کرنسی مارکیٹ کے استحکام کے نام پر مارکیٹ میں ڈالر پھینکے کی ہدایات جاری کر دیتے ہیں اسٹیٹ بینک چار ماہ میں سات ارب ڈالر کی مداخلت کر چکا ہے ۔

زرمبادلہ کے ذخائر میں سعودی عرب کے پیسے نکال دیں پیچھے ایک ماہ کے خسارے کا پیسے بھی نہیں بچتے ۔ان لوگوں سے جس قدر جلد نجات دلائی جائے ملک کے مفاد میں ہے ۔تمام سٹیک ہولڈر مشترکہ حکمت عملی تشکیل دیں اور ملک کو مشکل سے نکالیں بیرونی سرمایہ کاروں نے تو کیا آنا ہے یہاں مقامی سرمایہ کار بھی نہیں بچے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے