وزیرِحکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی خاتون کی گرفتاری اورپولیس کی بدسلوکی پرآزادکشمیرمیں عوامی اضطراب،احتجاج اور مظاہرے

پاکستانی زیر انتظام جموں‌ کشمیر(آزادکشمیر) کے وزیر قانون فاروق طاہر کی جانب سے میرٹ کی مبینہ پامالیوں کے خلاف احتجاج کرنے والی امیدوارہ سحرش سلطان اور اس کے چچا کی ریاستی دارالحکومت مظفرآباد میں گرفتاری اور پولیس کے ناروا رویہ کے خلاف مختلف اضلاع میں منگل کے روز احتجاجی ریلیاں اور جلسے منعقد کے گئے ہیں‌ اور بدھ کے روز بھی کچھ شہروں میں یہ سلسلہ جاری ہے.

منگل کے روز احتجاجی ریلیاں اور جلسے منعقد کے گئے ہیں‌

احتجاجی مظاہروں میں وزیر قانون و انصاف سردار فاروق طاہر سے مستعفی ہونے اور پولیس ذمہ داران کےخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے. دوسری طرف سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر بھی وزیر حکومت اور پولیس ذمہ داران کےخلاف سخت تادیبی کارروائی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔

منگل کے روز دارالحکومت مظفرآباد میں دو الگ الگ احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں

منگل کے روز دارالحکومت مظفرآباد میں دو الگ الگ احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، پہلی ریلی وکلاءاور سول سوسائٹی کارکنان پر مشتمل تھی، شرکاء ریلی نے میرٹ کی پامالی اور پولیس رویہ کے خلاف نعرے بازی کی اور وزیر حکومت فاروق طاہر کے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کیا . جامعہ آزادکشمیر کے طلبہ نے بھی واقعہ کےخلاف احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا،اس احتجاجی ریلی میں طلبہ تنظیموں کے نمائندگان بھی شریک تھے. شرکاء ریلی نے وزیر حکومت اور پولیس ذمہ داران کےخلاف نعرے بازی کی اور میرٹ کی پامالیوں کا سلسلہ فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے.

جامعہ آزادکشمیر کے طلبہ نے بھی واقعہ کےخلاف احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا

مظفرآباد کے علاوہ راولاکوٹ میں جموں کشمیر یوتھ فورم کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی اور جلسہ منعقد کیا گیا جس میں مختلف سیاسی و سماجی رہنماﺅں نے شرکت کی. تراڑکھل میں ایکشن کمیٹی اور تاجران کی جانب سے مشترکہ احتجاجی ریلی اور جلسہ کا اہتمام کیا جس میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا.

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین سردار محمد صغیر خان ایڈووکیٹ نے سحرش سلطان اور اسکے چچا کےخلاف اپنائے گئے حکومتی اور پولیس رویہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے ذمہ داران کےخلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، انہوں نے کہا میرٹ کے قیام کے دعوے کئے جاتے تھے اور این ٹی ایس کو میرٹ قائم کرنے کا ایک مثالی طریقہ کار قرار دیا جا رہا تھا لیکن سحرش سلطان نے نہ صرف حکمرانوں کے جمہوری رویوں کو بے نقاب کیا ہے بلکہ این ٹی ایس کے نام پر ہونے والے میرٹ کی پامالیوں کا پول بھی کھول دیا ہے۔

وزیر قانون فاروق طاہر پر الزام ہے کہ انہوں نے ٹیچرز کے انٹرویوز کے عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی

آزادکشمیرانجمن تاجران کے مرکزی صدر سردار افتخار فیروز نے سحرش سلطان اور اسکے چچا کی گرفتاری اور پولیس کے ناروا سلوک کی شدید مذمت کرتے ہوئے ذمہ داران کےخلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرٹ اور انصاف کی بازیابی کےلئے پر امن احتجاج کرنے والی خاتون اور بزرگ شہری کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا وہ انتہائی شرمناک ہے، وزیراعظم اور وزیر موصوف نے اس خطے کے لوگوں کی تقدیر کے خود مالک بننے کی کوشش ترک کریں اور متاثرین کو فوری انصاف فراہم کیا جائے، بصورت دیگر تاجران بھی ان نا انصافیوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے

سحرش سلطان کا کہنا ہے کہ وہ میرٹ کی بالادستی اور انصاف کے لیے جد وجہد کر رہی ہیں

متاثرہ امیدوارہ کے آبائی علاقے قلعاں اور بلوچ میں بھی نوجوان محاذ اور بلوچ یوتھ فورم کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی اور جلسہ کا انعقاد کیا گیا ، ضلع سدھنوتی کے ہیڈ کوارٹر پلندری میں بھی تحریک حقوق پلندری کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی اور جلسہ کا اہتمام کیا گیا،اس ریلی اور جلسہ میں بھی طلبہ تنظیموں کے علاوہ سیاسی و سماجی قائدین نے شرکت کی۔

ضلع سدھنوتی کے ہیڈ کوارٹر پلندری میں بھی تحریک حقوق پلندری کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی اور جلسہ کا اہتمام کیا گیا

دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی مظاہرین نے متاثرہ امیدوارہ سحرش سلطان کو فوری انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کے علاوہ وزیر قانون و انصاف سردار فاروق طاہر سے مستعفی ہونے اور پولیس کے متعلقہ ذمہ داران کےخلاف سخت تادیبی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ حکومت کی جانب سے میرٹ کے قیام کے دعوﺅں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اپنے حقوق کےلئے آواز اٹھانے پر سحرش سلطان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے مطالبات کی منظوری تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی مظاہرین نے متاثرہ امیدوارہ سحرش سلطان کو فوری انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا

واضح رہے کہ پیر 14 جنوری کو محکمہ تعلیم میں اساتذہ کی آسامیوں پر تقرریوں کےلئے این ٹی ایس ٹیسٹ کے ذریعے قائم کردہ میرٹ میں مبینہ ردوبدل کے خلاف متاثرہ امیدوارہ سحرش سلطان نے اپنے چچا اور چند دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ پاکستان کے زیر انتظام جمون کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں واقع وزیراعظم سیکرٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا تھا، لیکن تھانہ سول سیکرٹریٹ کی پولیس نے حکومتی احکامات پر دفعہ 144کے نفاذ کو جواز بنا کر انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا.

https://www.facebook.com/sabookhsyed.official/videos/392732661300975/?__xts__%5B0%5D=68.ARB6wN–d4Cuxv1dSv7jZonxCP0wAHkYFnqn-e9KZeo9VRwTVYSk9Y6ibzSsR5ozpENc9ch4-rKnQccWAdLk8_aEFGu1eeVsp6q1_94NDFb27phvKdGeSiae_0ktJb3skzMMdLPQ63JzRwOl8CPwUd1F_Z7zDykFIdokil32akzBvrj3_sftGm-W-bOM3Ue_hIzZsVsPzGgfPZd6L4n0_mrb5wa8hfvq_kSlmz3hlpJH_QpHOlvDrhCgtf33PwwYP12E8PEwEddR5FFjwqg2IHwJ7dabZemgJMiLhTG8VsJ5q-n2riXlTTm8UoYY_FNC29sPZf3NubAqynh0TriKERehuoIVfA&__tn__=H-R

بعد ازاں وزیراعظم نے نوٹس لیتے ہوئے گرفتار شدگان کو غیر مشروط طور پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے جبکہ سیاسی و سماجی شخصیات نے سحرش سلطان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے بھی بدھ کے روز دو بجے احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا جس میں سبھی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے شرکت کی

گرفتاری کے دوران سحرش سلطان کے بزرگ چچا کے ساتھ پولیس نے ناروا رویہ اپنایا جس کی ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔جس کے بعد پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے مختلف اضلاع میں احتجاجی ریلیوں کے انعقاد کا اعلان کیا گیا.

واقعے کے اگلے روز ضلعی حکومت کے ترجمان نے میڈیا کو جاری کی گئی پریس ریلیز میں موقف اختیار کیا کہ سیکریٹریٹ ایریا میں ہر قسم کے احتجاج پر دفعہ 144 نافذ ہے اور اسی تحت سحرش سلطان اور ان کے چچا کو وہاں سے ہٹایا گیا

ضلعی انتظامیہ کا موقف

آج بدھ کے روز بھی کچھ جگہوں پر احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں منعقد کی جارہی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے بھی بدھ کے روز دو بجے احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا جس میں سبھی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے شرکت کی اور وزیرقانون فاروق طاہر اور حکومت آزادکشمیر پر سخت تنقید کی. اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں طلبہ نے اپنی تعلیمی اسناد نذر آتش کر کے علامتی طور پر آزاد کشمیر حکومت کی میرٹ پالیسی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا.

بدھ کے روز نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے مظاہرین اپنی تعلیمی ڈگریاں جلا رہے ہیں

 

 

دوسری جانب یہ اطلاعات بھی ہیں کہ آئی جی پولیس آزادکشمیر نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے تبادلے کیے جا رہے ہیں اور اس پورے معاملے کی انکوائری بھی شروع کر دی گئی ہے. ادھر مرکزی حکومت میں‌ گلگت اور امور کشمیر کے وزیر علی امین گنڈا پور نے بھی واقعے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری آزادکشمیر اور آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کر لی ہے .

خیال رہے کہ آزادکشمیر میں 2016 سے مسلم لیگ نواز کی حکومت قائم ہے . اسلام آباد میں گزشتہ برس حکومت کی تبدیلی کی وجہ سے مظفرآباد اور اسلام آباد کے رابطوں میں کافی سرد مہری دیکھنے میں‌ آ رہی ہے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے