محمد بن قاسم کو معاف کر دیں

میں ایک سے زیادہ مرتبہ یہ عرض کر چکا ہوں کہ ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری تو دور کی بات یہاں تو ملکی سرمایہ کاری سے بھی ہاتھ کھینچ لیا گیا ہے۔ آج ارادہ تھا کہ ایک ایسے پروجیکٹ کو بطور مثال حکومت کی ’’خدمت عالیہ‘‘ میں پیش کروں گا جس پر دو ارب 80کروڑ روپیہ انویسٹ ہو چکا ہے، سینکڑوں کو روزگار ملا اور آئندہ بھی ملے گا لیکن سرکاری مردار خور گدھ اور بھوکے بھیڑیئے کیسے اس پروجیکٹ کو نوچنے بھنبھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے لئے تمام تر پیسہ ’’تھرو پروپر چینلز‘‘ ڈالرز کی شکل میں بیرون ملک سے آیا۔ لیسکو، واپڈا، واسا، ایل ڈی اے، انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس جیسے سرکاری، نیم سرکاری عفریت غیرملکی سرمایہ کاری اور سرمایہ کاروں کے ساتھ کرتے کیا ہیں؟ اس غیرملکی سرمایہ کاری کی کہانی بیان کئے بغیر بتانا ممکن نہیں اور اصل ٹریجڈی یہ کہ حکومت بھی نہیں جانتی کہ ان انویسٹمنٹ دشمن محکموں کا مائنڈ سیٹ تبدیل کئے بغیر اس کا یہ سرمایہ کاری بالخصوص غیرملکی سرمایہ کاری والا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہو گا۔

غیرملکی سرمایہ کار وزیر اعظم عمران خان کی تقریریں سننے کے ساتھ ساتھ بھیانک زمینی حقائق بھی دیکھیں گے لیکن آج ایک اور ’’ایمرجنسی‘‘ کا سامنا ہے سو غیرملکی سرمایہ کاری پر کل پرسوں سہی فی الحال جہالت کے ایک جیتے جاگتے شہکار پر لکھنا ضروری ہے۔منگل کی شام ایک نجی ٹی وی چینل پر اس شہکار کی نمائش جاری تھی جبکہ اس پروگرام سے پہلے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کراچی میں پریس والوں سے مکالمہ ہو چکا تھا۔ بنے ٹھنے مہمان سیٹ پر براجمان تھے، میزبان بھی ٹائی شائی چڑھائے بیٹھا تھا جب اس ٹاک شو میں گفتگو کے دوران ایک مہمان خاتون جس کا تعلق پیپلز پارٹی کے شعبہ اطلاعات سے تھا، نے اپنی طرف سے طنز کا تیر چلاتے ہوئے فواد چوہدری کو ’’سندھ کی فتح‘‘ کے حوالہ سے ’’محمد بن قاسم ثانی‘‘ قرار دیتے ہوئے یہ حیرت انگیز انکشاف فرمایا کہ حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کا کیا حشر کیا تھا۔

یہ درفنطنی سن کر میں ششدر رہ گیا لیکن فوراً سوچا کہ معزز مہمانوں میں سے کوئی یا پھر خود میزبان اس نیم خواندہ خاتون سیاستدان کی تصحیح کر دے گا لیکن نہ مہمانوں میں سے کوئی بولا نہ میزبان نے اس بی بی کو ٹوکا کہ محترمہ! ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر تاریخ مسخ نہ کریں لیکن حجاج بن یوسف پر یہ الزام دہرانے کے بعد بھی کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی کیونکہ چشم بد دور سارے کے سارے ہی نہلے پہ دہلے تھے۔ میں ٹی وی چینلز پر املا اور تلفظ کی غلطیوں پر تو کڑھتا لکھتا رہتا ہوں لیکن یہ تو اپنی ہی تاریخ کے ساتھ اجتماعی زیادتی جیسی حرکت تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ جواں سال فاتح محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کا بھتیجا اور داماد تھا، جس کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم ثقفی تھا جوسلیمان بن عبدالملک کے دور (97ہجری)میں المناک انجام سے دوچار ہوا اور اس وقت تک حجاج بن یوسف (95ہجری میں) فوت ہو چکا تھا۔ محمد بن قاسم ثقفی کی اس مہم کا آغاز حجاج بن یوسف نے اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دورِ خلافت میں کیا۔ حجاج بن یوسف اور سلیمان بن عبدالملک ایک دوسرے کو ناپسند کرتے تھے۔ حجاج نہیں چاہتا تھا کہ عبدالملک ولید کے بعد سلیمان کو ولی عہد مقرر کرے۔ عبدالملک نے اپنی زندگی میں ہی ولید اور سلیمان کو اپنا جانشین مقرر کرتے ہوئے ولید کی ولی عہدی کی بیعت لے لی لیکن ولید کی موت (96ہجری) پر اس کابھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ مقرر ہوا۔ سلیمان کو حجاج پر غصہ تھا لیکن اس کی خلافت سے پہلے ہی حجاج بن یوسف تو ایک اذیت ناک بیماری میں مرنے کے بعد سلیمان بن عبدالملک کے عتاب سے بچ گیا لیکن قیمت اس کے نوجوان بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم کو چکانا پڑی۔

دیگر وجوہات کے علاوہ سابق معلم حجاج بن یوسف سلیمان کو اس لئے بھی ناپسند کرتا تھا کہ وہ اپنے والد کے برعکس علم و فضل سے بیگانہ تھا۔ باپ یعنی عبدالملک نےسلیمان کی تعلیم کے لئے بہتیرے جتن کئے لیکن ’’شہزادہ‘‘سلیمان کو تحصیل علم سے کوئی رغبت نہ تھی۔ وہ علم سے بے بہرہ ہی رہا لیکن یہ علیحدہ بات ہے کہ سلیمان بن عبدالملک میں جہانبانی کے تمام تر اوصاف کی فراوانی تھی اور وہ بنوامیہ کا کامیاب ترین حکمران سمجھا جاتا ہے۔ضمناً عرض کرتا چلوں کہ جلال الدین اکبر کا بھی یہی حال تھا۔ گو اس کے اَن پڑھ رہ جانے کی وجوہات مختلف تھیں کہ باپ ہمایوں جلاوطن اور کم ظرف چاچے اس کی تعلیم و تربیت سے یکسر بے نیاز لیکن ’’اَن پڑھ‘‘ اکبر‘ مغل اعظم کہلایا اور اس کے ’’نورتن‘‘ محاورہ بن گئے۔

یہی حال نوجوان فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح کا بھی تھا جسے نوعمری میں تحصیل علم سے کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ وہ تو اپنے اساتذہ کا بھی ناک میں دم کئے رکھتا۔ یاد رہے کہ سندھ کی فتح کے حوالہ سے پہلے مسلمان بدیل بن طہفہ کی قیادت میں شکست کھا چکے تھے جس پر حجاج نے محمد بن قاسم کو بھیجا جو اس وقت فارس کا حاکم تھا۔ محمد بن قاسم اس مہم کے لئے فارس سے نکلا جبکہ حجاج نے ’’عروس‘‘ نامی منجنیق کے علاوہ دیگر ضروری و جنگی سامان بحری راستے سے روانہ کیا۔ باقی ہم سب جانتے ہیں۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ محمد بن قاسم کی المناک موت کا ملبہ اس کے سسر اور چچا حجاج بن یوسف پر نہ ڈالیں، اس کا ذمہ دار سلیمان تھا جس کی ولی عہدی حجاج بن یوسف کو پسند نہ تھی اور وہ اس کے خلیفہ بننے سے پہلے مر چکا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے