شہباز شریف کی سیاست

شہبازشریف نیب کی گرفتاری کے بعد پہلی بار پارلیمنٹ ہائوس آئے تو لیڈرآف دی اپوزیشن کے چیمبر میں بیٹھ کر لیگی رہنمائوں سے مشاورت کرنے لگے کہ قومی اسمبلی کے خطاب میں کیا کہا جائے؟اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان ایم این اے نے مشورہ دیا کہ جناب انتخابات کے دوران کی جانے والی دھاندلی اور اپنے کیس کے پیچھے اصل کرداروں کو بے نقاب کیا جائے۔ شہباز شریف نے فوری انگلی ہوا میں لہراتے ہوئے جواب دیا ،” تسی جو مرضی کرلو میں عمران خان توں اگے اک لفظ نہیں بولنڑا”۔ترجمہ : آپ جو مرضی کرلیں میں عمران خان کے آگے ایک لفظ نہیں بولوں گا۔

اسی روز ہم میڈیا کے نمائندوں کے سامنے بات چیت کیلئے آئے تو سب نے کرید کرید کر پوچھا کہ جناب آپ کے ساتھ ایسا سب کچھ آخر ہو کیوں رہا ہے اور کرکون رہا ہے ؟ شہباز شریف نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ میرے سوال کے جواب میں گلہ کرنے لگے کہ میں ہر بار دونوں بھائیوں کے مختلف بیانیے کے بارے میں ایسی منفی باتیں کیوں کرتا ہوں ؟ اس سے قبل لاہور میں پارٹی اجلاس کے دوران سابق وزیردفاع خرم دستگیر نے بھی انہیں شیر بننے کی صلاح دی تو وزیراعلیٰ کی طاقت کے ساتھ بیوروکریسی کے سامنے شیر بننے والے شہبازشریف نے سابق وزیردفاع کی بات پر کوئی توجہ نہ دی۔

ان واقعات اور دیگر بہت سے واقعات کو ذہن میں لاکر میں اکثر سوچتا تھا کہ شہباز شریف آخر چاہتے کیا ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ حالات واضح ہوتے گئے اور شہبازشریف کی چالیں بھی سمجھ آنے لگیں۔ جلد ہی شہباز شریف کو پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ مل گیا۔ یہ عہدہ وفاقی وزیر کے برابر کا عہدہ ہے۔ یعنی پورا پروٹوکول اور طاقت کے مزے الگ۔ سچ ہے کہ یہ تحفہ انہیں کسی اور نے نہیں آصف علی زرداری نے دلوایا۔ اگر پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کا ساتھ نہ دیتی تو شاید شہبازشریف چاہتے ہوئے کبھی یہ عہدہ حاصل نہ کرپاتے۔ شہباز شریف نے مرکز میں یہ عہدہ حاصل کیا تو پنجاب میں حمزہ شہباز کو لیڈر آف اپوزیشن بنوا کر صوبائی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ بنوادیا۔ یعنی نیب کے دونوں ملزمان وفاقی وزیر کے عہدے اور پروٹوکول انجوائے کرنے لگے۔ بظاہر دونوں پر نیب کے کیسزبھی ہیں، دونوں آزاد بھی ہیں، دونوں اپوزیشن میں بھی ہیں اور دونوں وزیر کے عہدے کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔

شہبازشریف چونکہ فرمانبردار بھی بہت ہیں اور رات کو ملاقاتوں کے شوقین بھی۔ اسی لئے تیئس اور چوبیس دسمبر کی درمیانی شب دو افسروں نے ان سے ملاقات کی اور خوب راز و نیاز کی باتیں کیں۔ میں نے دو تین سینئرلیگی رہنمائوں سے پوچھا کہ جناب کیا آپ کو شہباز شریف صاحب نے اپنی حالیہ ملاقاتوں کے بارے میں اعتماد میں لیا ہے تو ان میں سے ایک نے کہا جناب یہ ہمیں ایسی ملاقاتوں کا کب بتاتے ہیں۔ ملاقاتیں کی ہیں تو ٹھیک ہی کیا ہوگا۔ تاہم مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ شہباز جتنی مرضی ملاقاتیں کرلیں کوئی بھی فیصلہ بہرحال نوازشریف ہی کرینگے۔ آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کے وفد کے ہمراہ لیڈرآف دی اپوزیشن کی دعوت پر پارلیمنٹ ہائوس میں ان کے کمرے میں گئے تو شہباز شریف نے ان کا دروازے پر آکر استقبال کیا۔

اپوزیشن چیمبر میں شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے بھی عمران خان حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور فلور بات چیت کیلئے کھولا۔ ایک دو مقررین کے بعد جونہی نوجوان بلاول بھٹو کی باری آئی تو اس نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ تمام مسائل اس وقت پیدا ہوئے کہ جب جمہوریت پر وار کیا گیا اور ہم خاموش رہے۔ بلاول کی بات سنتے ہی شہبازشریف کا ایک رنگ آیا اور ایک گیا۔ معاملات ان کے کنٹرول سے نکل گئے کیونکہ اس کے بعد ان کی اپنی جماعت کے احسن اقبال ، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، ایازصادق ، پرویزرشید اور دیگرنے وہ باتیں کیں کہ جنہیں کہتے ہوئے شایدشہباز شریف خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ظاہر ہے وہ بھی سچے ہیں ایک طرف راتوں کو ملاقاتیں کریں اور پھر بعد میں ہونے والے اجلاسوں میں رات کے ملاقاتیوں کے خلاف باتیں۔ یہ توکھلی منافقت ہے جو وہ کرنے سے گریزاں ہیں۔ مسلم لیگ ن کیلئے اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ قومی اسمبلی میںشاہد خاقان عباسی ، خواجہ آصف ، سعدرفیق، رانا ثنا اللہ اور احسن اقبال جیسے لوگ شہباز شریف جیسے لیڈر کے پیچھے چلنے پر مجبور ہیں۔ اگرشہبازشریف کی جگہ اوپر درج افراد میں سے کسی ایک کو لیڈر آف دی اپوزیشن لگایا جاتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ مگر کیا کیجیے سیاست کے سینے میں دھڑکتا دل سب سے پہلے رشتہ داروں کیلئے ہی درد رکھتا ہے۔ ادھرنوازشریف کوٹ لکھپت جیل میں شب و روز گزاررہے ہیں۔ ان کی بیٹی مریم نواز والد سے ملاقات کیلئے ہر جمعرات کو جیل پہنچ رہی ہیں۔ خاموش اس لیے کہ ویسے بھی پارٹی کےصدر اور ان کے اپنےچچا ان کے بیانیے سے متصادم خیالات کے حامل ہیں۔

ویسے وہ یہ بھی سمجھتی ہیں کہ وہ بول کر اپنا فائدہ تو نہ کرسکے گی لیکن والد کی مصیبتوں میں اضافہ ضرورکریں گی۔ مریم کی خاموشی نے فی الحال سیاست سے دونوں باپ بیٹی کو مائنس کررکھا ہے ۔ میدان میں صرف شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے ہی رہ گئے ہیں۔ ایک صاحبزادہ پنجاب اور دوسرا نیب کیسز کے باوجود لندن میںبیٹھا طاقتور حلقوں سے رابطوں میں مصروف ہے ۔ باقی جائیں بھاڑ میں۔خاندانی ترقی سے مطمئن شہباز شریف پارلیمنٹ میں عمران خان کی حکومت کو کمزور کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں اور جہاں کہیں حکومت کی تعریف کی ضرورت پڑ بھی جائے وہ اس کا پورا کریڈٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو دے دیتے ہیں۔

اسلام آباد میں لوگ ان ہائوس تبدیلی کی بات بھی کررہے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ بدتر معاشی صورتحال کے پیش نظر عام انتخابات تو شاید منعقد نہ ہوسکیں مگر پارلیمنٹ کے اندر کوئی تبدیلی ضرور آسکتی ہے۔ آخری فیصلہ تونوازشریف نے ہی کرنا ہوگا لیکن جس تیزی سے شہبازشریف سب کو اپنا ہمنوا بنا رہے ہیں یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ کسی روز وہ خود ہی ان ہائوس تبدیلی کے نتیجے میں وزارت عظمی کے امیدوارہی نہ بن جائیں۔ سوچئے کیا منظر ہوگا کہ وزارت عظمیٰ کےامیدوار شہباز شریف ہوں گے اور ان کیلئے ووٹ آصف علی زرداری مانگیں گے۔ سچ یہ ہے کہ شہبازشریف کی اقتدار کے گرد گھومتی سیاست کی تعریف نہ کی جائے تو زیادتی ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے