کیا خدا کی موجودگی عقل مانتی ہے؟

وقت کی کمی کی باعث میں بہت کم لکھ پاتا ہوں لیکن الحاد کی علمی کوشش نے میرے قلم کو بھی جسارت کرنے پہ مجبور کیا۔

یہ بات سچ ہے کہ الحاد نے بڑی غیر معملوی ذہانتوں کے لوگوں کو جنم دیا جنہوں نے اپنی پوری کوشش میں اس کائنات کی مذاہب سے ہٹ کے کوئی علمی اور عقلی توجیح پیش کرنے کی کوشش کی۔۔

اسکام میں علوم جدیدیہ اور قدیمیہ دونوں کو بطور دلائل کے طور پہ پیش کیا گیا۔ یہ کوشش سراہے جانے کے لائق ہوتی اگر اس کے پیچھے کار فرما عوامل میں خلوص اور حق تک پہنچنے کی سچی طلب بھی شامل ہوتی۔

میں اکثر ملحدین سے سوال کیا کرتا ہوں کہ وہ کیا مصیبت پڑ گئی انسانوں کو کہ خدا جیسی ذات کی عدم موجودگی میں انہوں نے ایک ایسی خود ساختہ ذات کو گھڑ لیا جسکے سامنے جوابدہ ہونے کا ڈر ہر وقت انسان کے ساتھ ہو۔ وہ کیا چیز تھی جس نے انسان کو ارتقاء کے فوراََ بعد اس سوچ پہ مجبور کیا کہ اسکا کا کوئی خالق،، کوئی بنانے والا بھی ہے؟؟

ہمارے ملحدین دوست علم، عقل اور فلسفے کا ہر چوک پہ ڈھنڈورا پیٹتے مل جاتے ہیں۔ لیکن سوال ہے کہ کیا ہمارا مشاہدہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس وقت جب کسی چیز کا تصور بھی نہ کیا جا سکے جب انسان کے لئے سب سے بڑی ضرورت اسکا زندہ رہنا تھا۔ جب انسان کو خدا سے زیادہ کھانے کی ضرورت تھی تب کوئی انسانی دماغ اسے محظ اپنی سوچ کی بنیاد پہ تخیل کی اڑانوں سے جا پہنچے اور اسکے ساتھ ہی اسپہ کتابوں کی کتابیں مرتب کردے۔۔۔!

مثلاََ ایک لمحے کو اپنے آپ کو صحرا یا کسی جنگل میں اکیلے تصور کریں۔۔ خدا کا کوئی تصور بھی نہی بس آپ ہیں اور آپ کے اردگرد جنگلی جانور یا وہ پیاس جو زندگی سے آپکا ہر دم ناطہ توڑنے کی کوشش میں جٹی ہوئی ہو۔۔ اب بتائیں کہ آپ بیٹھ کہ خدا کے تصور کو تخلیق کرکے پھر اسکے سامنے سجدہ ریز ہونگے کہ اپنی جان کی ترکیبیں کریں گے؟

چلیں ایک لمحے کو مان لیتے ہیں خدا کا تصور انسانی دماغ کی پیدائش ہے۔۔ تو مجھے بتائیے کہ انسان نے اپنے تخیل سے پھر سیاروں کے نظام اپنے ارتقاء کے فوراََ (کچھ سالوں یا چند صدیوں بعد بھی صرف سوچ کی بنیاد پہ) بعد کیوں ترتیب نہ دے لئے بلکہ انسان کو تو اپنے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل کا بھی کچھ خاطر خواہ پتہ نہ تھا جو اسکی دسترس میں محظ عقل کی بنیاد پر نہ تھا۔

اس بات کو اسطرح سمجھیں کہ آج تک ہمارا تعارف جتنی بھی اشیاء یا اجسام سے ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی واسطے کا محتاج ہے۔ بغیر کسی واسظے کے کسی تک پہنچ جانا میرے نزدیک ایک غیر عقلی بات ہے۔ مثلاََ میں کہوں کہ مجھے راستے میں کوئی نہی ملا اور اس نے مجھے راستہ بتا دیا؟؟

کیا یہ کوئی عقلی بات ہے؟؟

کسی سے راستے میں اچانک ٹکرا جانے کے لئے بھی راستے کی ضرورت ہے۔ اور جب انسان کے پاس کوئی ایسی واسطہ (راستہ) ہی نہی تھا تو انسان کیونکر خدا کی تخلیق کو نکل پڑا؟

چلیں اسکو اسطرح بھی مان لیتے ہیں کہ خدا کی تخلیق انسانوں نے کسی ڈر اور خوف کی بنیاد پہ کی یا یہ محظ ایک عقلی شوشہ تھا جو ایک سوچ کا نتیجہ تھا۔

اگر تو یہ ڈر اور خوف کا نتیجہ تھی تو صاحب،، ڈر اور خوف کی بنیاد پہ وجود میں آنے والے خداؤں کی فہرست میں اول درجہ چاند، سورج اور ستاروں یا ایسی مادی چیزوں کا ہونا چاہے جن تک ہماری دسترس تھی لیکن ذرا دیکھیے کہ دو بڑے مصنف کیا لکھتے ہیں۔۔

ولہم شمتھ لکھتے ہیں:
ترجمہ: "جب لوگوں نے کئی خداؤں کو پوجنا شروع اس سے پہلے لوگ ایک خدا کی عبادت کرتے تھے” (مفہوم)

اس سلسلے میں کیرن آرم سڑانگ اپنی کتاب "خدا کی تاریخ” میں لکھتے ہیں۔
“In the beginning, human beings created a God who was the First Cause of all the things and ruler of heavens and earth. He was not represented by images and had no temple or priests in his service.”
ترجمہ: انسانی تاریخ کے شروع میں انہوں نے ایک خدا بنایا جو تما چیزوں کی پہلی وجہ اور آسمان اور زمین کا حاکم تھا۔ اسکی کی کوئی تصویریں یا کوئی مندرنہی تھا۔

ذرا مجھے صرف یہ سمجھا دیں کہ اس تصور کی تخلیق کے پیچھے کار فرما عوامل وہ کیا عقلی دلائل ہو سکتے ہیں جنہیں مان لیا جائے؟؟ خوف کی بنا پہ تخلیق کیا جانے والا خدا ایک ہی کیوں تھا؟؟ حالنکہ خوف پیدا کرنے والے عوامل تو کئی تھے؟

اگر وہ ڈرا ہی تھا تو کڑی دھوپ کے لئے سورج موجود تھا۔ ٹھنڈی راتوں میں چاند موجود تھا، طوفان کے لئے بادل موجود تھے۔ چیر پھاڑ کے لئے جنگلی جاندار موجود تھے۔ اگر آپ کہیں کہ شائد اسنے بنا لیا ہو تو پھر انکی تصویریں نہ ہونا ایک سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔

رہی بات تخیل کی تو فکشن کو اٹھا کہ دیکھ لیں ہم نے کتنے نئے ایسے تصورات آج تخلیق کر لئے جن میں کوئی واسطہ نہی تھا؟ کیا ہم نے مریخ کو محظ عقلی بنا دریافت کیا یا کو ئی واسطہ بھی موجود تھا۔ ہاں اس پہ پائی جانے والی مخلوق کا تخیل عین عقلی چیز ہے کیون کے اب تو ہم جان چکے ہیں لیکن اگر خدا موجود نہی تھا تو کیسے بغیر واسطے کہ اسے گڑھا جاسکتا ہے؟؟

اگر آپ پھر بھی ہاں کہیں گے تو یہ اپنی نوعیت کی صرف اور صرف ایک اور منفرد چیز ہوگی۔

دوسری صورت میں وہ ضرورت سمجھا دیں۔۔۔ ڈر لگنے پہ انسان چھپتا ہے۔ بھوک لگنے پہ انسان کھاتا ہے۔۔۔ زہر کا تریاق کرتا ہے۔۔ یہ بات تو آج بھی واضح ہے کہ انسان سجدہ ریز ہونے سے پہلے دوائی کی طرف دوڑتا ہے۔۔تو یہ کیسے ہو گیا کہ اس نے ترکیب و تریاق کو پس پشت ڈال کہ تپسیا شروع کردی؟؟

انسان نے عورت سے تنگ آ کر کسی اور مخلوق کو اپنے تخیل میں محبوب کیوں نہ مان لیا؟ اسکے لب رخسار کی تعریف کیوں نہ شروع کردی؟؟ ہونا چاہیے تھا کسی کی اپنے گھر لڑائی ہوتی اور وہ جا کر کوئی ایسی مخلوق گڑھ لیتا جس سے وہ تخیل میں دل بہلاتا؟

اور اگر آپ اس واسطے کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں تو واسطہ وہ خدا ہی تھا جس نے اپنا تعارف کروایا۔ یہ بات عقل کے عین مطابق ہے کہ اسنے اپنا تعارف خود کروایا۔ اب وہ پردوں میں کیوں چھپا بیٹھا ہے اور ان بحثوں میں سے حق کا فیصلہ کیوں نہی کرتا یہ ایک لمبی بحث ہے۔ اسے پھر کبھی گفتگو کریں گے۔

اصل میں ہم سب دینی اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کا مسئلہ ہے کہ ہم اپنے علم کو ثابت کرکے بحث جیتنا چاہتے ہیں۔ نہ کہ دلائل کو مان کہ حق تک پہنچنا۔۔اور یہی ہمارے ملحدین کا بڑا مسئلہ ہے۔ ہم علم حاصل نہی کرنا چاہتے۔۔ ہم اپنی عقل اور علمی قابلیت کی دھونس ہر دوسرے پہ جمانا چاہتے ہیں اور یہی ہمارے ملحدین کا بھی مسئلہ ہے۔

غلط میں بھی ہو سکتا ہوں۔۔ لیکن یہ بھی سوچیں غلطی آپکو بھی لگ سکتی ہے۔۔۔ اسلئے مجھے آپکو سچے دل سے حق کی تلاش میں رہنا چاہیے اور یہ خدا کی ذات کا فیصلہ ہے کہ جب ہم سچے دل سے حق کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں تو وہ اپنے اوپر ہمیں حق تک پہنچانا فرض کرلیتا ہے۔ باقی فیصلے کا دن جلد آنے والا ہے۔۔۔!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے