کرپٹ اچھے یا بد حواس؟

مرحوم قاضی حسین احمد نے ایک زمانے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لیے چھوٹی برائی اور بڑی برائی کی اصطلاح متعارف کرائی تھی ۔ مروجہ سیاسی بیانیے میں حزب اختلاف تو سر تا پا ہے ہی کرپٹ، مجھے چشم تصور سے وہ منظر دیکھ کر خوف آ رہا ہے کہ آئندہ انتخابات کے وقت لوگ سر پکڑ کر بیٹھے ہوں کہ کرپٹ اچھے یا بد حواس ؟ اب ووٹ کسے دیاجائے؟

کتنی امیدوں سے لوگوں نے عمران خان کی صورت امیدوں کا ایک قلعہ تعمیر کیا تھا ، افسوس اس کے اپنے کمانداروں نے فصیل میں ریت بھرنا شروع کر دی ۔ جہاں جہاں عمران خان کی ٹیم کے جوہر ابھی سامنے نہیں آئے امید باقی ہے لیکن جہاں جہاں یہ نونہالان انقلاب بروئے کار آئے ہیں خوابوں کی کرچیاں اور گریبانوں کا ڈھیر پڑا ہے ۔ اخلاقی وجود گویا برف کا باٹ ہے اور دھوپ میں رکھا ہے ۔ جیسے جیسے حدت بڑھتی جا رہی ہے تحلیل ہوتا جا رہا ہے۔

پولیس تب بھی بے لگام تھی ، آج بھی بے مہار ہے ۔ پولیس ماڈل ٹاؤن میں بھی قاتل تھی ، پولیس ساہیوال میں بھی قاتل ہے ۔ کل بھی سڑکوں پر ہنستے بستے خاندان پولیس کی اندھی گولیوں کا نشانہ بنتے تھے آج بھی بچوں کی موجودگی میں پولیس باپ اور ماں دونوں کو قتل کر دیتی ہے۔ کل بھی وہی عذر گناہ تھا اور آج بھی وہی ڈھٹائی ہے۔

کل ماڈل ٹاؤن میں مائیں قتل ہوئی تھیں اور بچے رو رہے تھے، آج ساہیوال میں ماں اور باپ قتل کیے گئے اورخون آلود کپڑوں میں سہمے معصوم بچوں کی آنکھوں میں آنسو خشک ہو چکے۔ کل کے حکمرانوں کے بچے بھی لندن میں محفوظ تھے ، آج کے حاکم کے بچے بھی لندن میں آسودہ ہیں ۔ کل بھی صرف انکوائریوں اور رپورٹوں کا ڈرامہ رچایا جاتا تھا آج بھی انہی پردوں میں ساہیوال پولیس کی درندگی چھپانے کی تیاریاں ہیں ۔ کل ایم این اے کی فصل میں بکری گھسنے پر اقتدار کی رعونت تھانے میں سارے خاندان کی ٹانگیں توڑ دیا کرتی تھی ، آج اقتدار کا خمار ایم پی اے کی بکری چوری ہونے کے الزام میں تھانے میں ایک انسان کی زندگی چھین لیتا ہے ۔ احتساب کا کل بھی کوئی نظام نہیں تھا ، احتساب کا آج بھی کوئی امکان نہیں ہے۔

کل بھی الفاظ کا گورکھ دھندا تھا آج بھی لفظوں کا بے رحم کھیل ہے ۔ کل بھی ٹیکس صرف تنخواہ دار طبقے پر لگتا تھا آج بھی پانچویں مہینے میں دوسرے منی بجٹ کا کوڑا تنخواہ طبقے کی پیٹھ پر برسنے کو ہے۔ کل بھی وزیر خزانہ لوگوں سے جھوٹ بولتا تھا کہ مہنگائی سے غریب آدمی متاثر نہیں ہو گا آج کے وزیر خزانہ کا بھی دعوی ہے اس کی مہنگائی اسی کی طرح بڑی سیانی ہے غریب کو کچھ نہیں کہے گی ۔ لا یعنی قسم کے اعدادو شمار کا کل بھی ایک دفتر کھلا تھا ، نا معتبر اعدادو شمار آج بھی ساون کی بارشوں کی طرح تھمنے میں نہیں آ رہے۔

سابق حکومت اگر بے حس تھی تو یہ حکمران بھی بے نیاز ہے. وہ کرپٹ تھے تو یہ بد حواس ہیں. ان کی زبانیں آگ اگلتی تھیں تو ان کے لب نازک سے بھی انگارے ہی پھوٹتے ہیں ۔ انہوں نے قوم کے شعور اجتماعی کا مذاق اڑایا تو یہ بھی اس کی توہین ہی کیے جا رہے ہیں ۔ وہ غیر سنجیدہ تھے تو انہوں نے کون سی متانت اوڑھ رکھی ہے ۔ ان کے وعدے قرآن و حدیٹ نہیں تھے تو ان کے وعدے کون سے پتھر پر لکیر ہیں ۔ تب لوگوں کو نا معلوم خدمات پر مناصب دیے جاتے تو اب کون سا میرٹ کا زمزمہ بہہ رہا ہے ۔ اس دور میں دوستوں کو نوازا گیا تو اس دور میں بھی حلقہ احباب میں خلعتیں بانٹی جا رہی ہیں۔ تب بھی کارروائی ڈالی جاتی تھی اب بھی ارشاد ہوتا ہے وزیراعظم نے نوٹس لے لیا. کل بھی شعبدہ بازی ہوتی تھی آج بھی ہسپتالوں میں زخمیوں کی عیادت کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے.

ان کے لہجوں میں بھی رعونت تھی ، یہ بھی حریف کی تذلیل کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ وہاں بھی ادارہ سازی نہیں تھی یہاں بھی فرد واحد ہی سب کچھ ہے۔ تب بھی وزیر اعظم پوری مراعات سمیٹتے تھے مگر اسمبلی میں نہیں آتے تھے۔ اب بھی وزیر اعظم ایوان میں آنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ کل بھی وزیر اعظم ایوان کے سوالوں کا جواب نہیں دیتا تھا آج بھی وعدہ کر نے کے باوجود وزیر اعظم اس تکلف سے بے نیاز ہے۔ کل بھی اسلام آباد میں وزراء کے پروٹوکول کے قافلے دندناتے ہوئے گزرتے تھے آج بھی وزراء کے قافلے اسی طنطنے کے ساتھ عوام کے شعور کی توہین کرتے ہوئے گزرتے ہیں ۔

کل بھی حریفوں کو زبان کی نوک پر رکھنے والوں کو عزت دی جاتی تھی آج بھی وہی معتبر ہے جو حریف کی عزت اچھالنے میں مہارت رکھتا ہو۔ کل بھی معاملہ یہ تھا کہ جو جتنی زیادہ بد زبانی کرتا اس کے لیے ایوان وزیر اعظم میں اتنی ہی تالیاں بجائی جاتیں ، آج بھی فون پر ٹیکسٹ جاتا ہے فلاں شو میں جاؤ اینڈ ہٹ دیم ہارڈ ۔ کل بھی نجیب لوگ صف نعلین تھے آج بھی انہیں بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ کل بھی وہی معتبر تھا جس کی زبان تلوار ہو آج بھی وہی سرخرو ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ کسی بھی شخص کی عزت کا آملیٹ بنانے کا ہنر رکھتا ہو۔

کل بھی وہی مریضانہ تقلید تھی آج بھی وہی خود سپردگی ہے۔ کل مطلع کہا جاتا تھا ’’ کھاتا ہے تو کیا ہوا لگاتا بھی تو ہے‘‘۔ آج اہل دربار غزل سراہیں : ’ ’ کر کچھ نہیں رہا تو کیا ہوا ، کرپٹ تو نہیں ہے نا ‘‘۔ گداگران سخن کل بھی صف بہ صف سوئے دربار رواں تھے ، گداگران سخن آج بھی کونش بجا لا رہے ہیں ۔ کردار بدلے ہیں کہانی وہی ہے ۔عام آدمی کل بھی سسک رہا تھا ، عام آدمی آج بھی تڑپ رہا ہے۔صحت کی سہولیات کل بھی نہیں تھی ، صحت کی سہولیات آج بھی نہیں ہیں ۔ تعلیم کل بھی بکتی تھی ، تعلیم آج بھی برائے فروخت ہے ۔ کل بھی اشرافیہ پر غزل کہی جاتی تھی آج بھی اسی پر دیوان لکھا جاتا ہے ۔

عام آدمی کل بھی گیلے کاغذ کی طرح نا معتبر تھا آج بھی رائیگاں ہے۔ پارلیمان میں کل بھی سطحی گفتگو ہوتی تھی پارلیمان میں آج بھی وہی فکری افلاس کا عالم ہے۔ کل بھی وہی شخصیت پرستی تھی آج بھی وہی آزار ہے۔ کل ان کے لشکری کلام کرتے تھے تو لوگ الامان پکارتے تھے آج ان کے جنگجو بات کرتے ہیں تو لوگ پناہ مانگتے ہیں ۔ اُ دھر لاکھوں ہی آفتاب تھے تو ادھر بھی آج بے شمار چاند ہیں ۔ وہ کرپٹ تھے تو یہ بد حواس ہیں . فرق اگر ہے تو صرف عمران خان کا ۔ لیکن کون یہ جانے یہ فرق کب تک رہ پائے۔ برف کا باٹ گویا دھوپ میں پڑا ہے۔

یہی عالم رہا تو آئندہ انتخابات میں سب سے بڑی الجھن ہی یہی ہو گی کہ کرپٹ اچھے یا بدحواس ؟ اب ووٹ کسے دیا جائے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے