سچ کا انکاؤنٹر تو بہت پہلے ہو چکا

ساہیوال ٹول پلازہ پر والد، والدہ، بچی اور گاڑی ڈرائیو کرنے والے والد کے دوست کو تو پنجاب کے انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین نے دہشت گرد قرار دے کر مار دیا سو مار دیا۔ اس کے ذمہ داروں کو مثالی سزا ملے نہ ملے یہ سب اب اس خاندان کے لیے بےمعنی ہے جو پلک جھپکتے میں آدھا رہ گیا۔

اگر حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت میں واقعی اس سانحے کے تعلق سے رمق برابر بھی سنجیدگی باقی ہے تو اس دس سالہ بچے اور اس کی دو بہنوں کی پولیس اور میڈیا سے ہی حفاظت کر لے جو زندہ بچ جانے والے سب سے اہم عینی شاہد ہیں۔

ان جعلی مقابلوں سے بھی کہیں المناک یہ پہلو ہے کہ پشیمانی تو گئی بھاڑ میں، قاتل خود کو بچانے کے لیے جھوٹ کی ہر حد پھلانگ جاتے ہیں۔ تب اندازہ ہوتا ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت اور وردی کی حرمت ایک خوبصورت لفظی فریب کے سوا کیا ہے؟

شاید آپ کو یاد ہو کہ 20 مئی 2011 کو کوئٹہ کے نواحی علاقے خروٹ آباد میں ایف سی کی چوکی کے قریب دو خواتین سمیت پانچ چیچن پناہ گزینوں کو مشکوک سمجھ کر گولی ماری گئی۔ تصاویر کے مطابق ایک عورت نے زخمی حالت میں سفید رومال بھی لہرایا، تب بھی فائرنگ اس وقت تک بند نہ ہوئی جب تک ان کے مرنے کا پورا اطمینان نہ ہو گیا۔

پولیس اور ایف سی کی جانب سے فوری بیان یہ جاری کیا گیا کہ یہ سب خودکش بمبار تھے۔ انھوں نے ایف سی چوکی پر دستی بم اچھالے جس سے ایک فوجی بھی شہید ہو گیا۔

کوئٹہ کے سی سی پی او داؤد جونیجو نے پریس کانفرنس کی کہ ان کے قبضے سے 48 فیوز اور سات ڈیٹونیٹرز بھی برآمد ہوئے اور یہ پانچوں اپنے ہی دستی بم پھٹنے سے ہلاک ہوئے انھیں مسلح اہل کاروں نے نہیں مارا۔

مگر پتہ چلا کہ مرنے والوں کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا، نہ ہی کوئی فوجی مرا۔ پوسٹ مارٹم میں بھی تصدیق ہو گئی کہ لاشوں پر گولیوں کے نشانات تھے، بارود کے نہیں۔ ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد ہاشم کاکڑ کے عدالتی کمیشن نے سی سی پی او سمیت تین پولیس والوں اور ایف سی کے ایک کرنل کو ذمہ دار قرار دیا۔ سزا کیا ملی؟ نوکری سے معطلی ۔۔۔۔

گذشتہ برس کراچی کی شاہراہ فیصل پر رکشے میں سوار ایک مسافر مقصود کو ڈاکو قرار دے کر اتارا گیا اور فٹ پاتھ پر بٹھا کے گولی مار دی گئی اور پھر یہ بیان جاری ہوا کہ مقصود کو اس کے ساتھی ڈاکو ہلاک کر کے فرار ہو گئے مگر سی سی ٹی وی فوٹیج نے تمام جھوٹ چوپٹ کر دیا۔

ایس ایس پی راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود کو تین دیگر افراد سمیت طالبان دہشت گرد قرار دے کر مارا اور ان کے قبضے سے بھاری اسلحہ بھی برآمد کر لیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ نقیب اللہ محسود تو سو فیصد بےگناہ تھا اور اس کے ساتھ مارے جانے والوں میں سے دو وہ تھے جو مرنے سے لگ بھگ ڈیڑھ برس پہلے بہاولپور سے جبری لاپتہ ہو گئے تھے۔

عجیب بات ہے کہ جو مجرم جیل یا تھانے میں ہلاک ہو جاتے ہیں ان میں سے 90 فیصد کو یا تو دل کا دورہ پڑتا ہے یا پھر وہ دوسری منزل سے کود کر خودکشی کر لیتے ہیں۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ کئی ملزم پولیس کی نگرانی سے فرار ہوتے ہوئے جب مارے جاتے ہیں تو ان کے ہاتھ ایک ہی ہتھکڑی سے بندھے ہوتے ہیں۔ شاید انہی بندھے ہاتھوں سے وہ پولیس کا اسلحہ چھین کر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوتے ہیں مگر پولیس والوں کو معجزانہ طور پر خراش تک نہیں آتی۔

اس طرح کی وارداتوں سے ہوتا یہ ہے کہ متعلقہ اداروں کی اچھی اور پیشہ ورانہ کارکردگی پر بھی گرد پڑ جاتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ان اداروں کے بغیر گزارہ بھی نہیں۔ جب گزارہ نہیں تو پھر ایسی اصلاحات اور ڈھانچے کی تشکیل سے کیوں مجرمانہ غفلت برتی جا رہی ہے جن کے نتیجے میں تحقیق، تدارک اور خود احتسابی کے عمل کو جدیدیا کر کے ایسے واقعات کا تناسب کم سے کم کیا جا سکے؟

جیسا کہ ہوتا ہے، بس ایک آدھ ہفتے ساہیوال سانحے کا مزید شور رہے گا اس کے بعد تو کون میں کون۔ مرنے والے پہلے والوں کی طرح صرف ہندسے بن کے رہ جائیں گے اور قاتل معطل یا جبری ریٹائر ہو جائیں گے۔ تحقیقاتی رپورٹ ضرور مرتب ہو گی، مگر تحقیق ہونا اور حقائق سامنے لانا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ کچھ عرصے بعد مجھ جیسے ایک بار پھر ایسی ہی کسی اور واردات کا مرثیہ کہہ رہے ہوں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے