اختلافات کی چسکہ بھری کہانیاں

آج کے گورنر پنجاب چودھری سرور صاحب کسی زمانے میں برطانوی پارلیمان کے رکن رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تکریم کے بارے میں ان سے زیادہ فکر مند کون ہوسکتا ہے۔دنیا بھر کی پارلیمانوں کی ’’ماں‘‘ کہلاتے فورم کے متحرک رکن ہوتے ہوئے انسانی حقوق کے بارے میں وہ ہمیشہ تشویش میں مبتلا رہے۔اپنے صوبے میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں ہوئی واردات کے بعد مگر انہوں نے یاد دلایا کہ ایسے واقعات دُنیا کے کئی ممالک میں ہوجاتے ہیں۔ان کا بیان سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئی ایک کلپ کے ذریعے دیکھا تو صدر بش کا وزیر دفاع یاد آگیا۔ عراق پر امریکی حملے کے بعد بغداد میں لوٹ مار کا بازار گرم ہوا تو ریمز فیلڈ نے اسے Collateral Damageقرار دیا اور کندھے اُچکاتے ہوئے نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔چودھری سرور صاحب مگر صاحبِ دل آدمی ہیں۔ عوام سے مسلسل رابطے کے لئے تحریک انصاف ویسے بھی سوشل میڈیا کو بہت ہنرمندی سے استعمال کرتی ہے۔شاید انہیں خبر ہوگئی کہ لوگوں کے دل دہلادینے والے واقعہ کے بارے میں چودھری صاحب کا فوری ردعمل غلط فہمیوں کو جنم دے سکتا ہے۔

سعادت حسن منٹو کی بتائی ’’مش ٹیک‘‘ کے ازالہ کے لئے انہوں نے ایک اور بیان اپنی صورت اور آواز کے ساتھ سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیا۔ان کے اس بیان سے قبل ہی مگر راجہ بشارت والی پریس کانفرنس ہوچکی تھی۔اس کے ذریعے بنیادی پیغام یہ ملا ہے کہ کم از کم سی ٹی ڈی کے عتاب کا نشانہ بنی گاڑی کا ڈرائیور ’’دہشت گردوں‘‘ کی سہولت کاری میں ملوث رہا تھا۔ اس بیان کے بعد JITکی جو رپورٹ آنی ہے اس کی Findingsکو آپ مجھ سے زیادہ بہترانداز میں Imagineکرسکتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ معاملہ بھلادیا جائے گا۔ ہم روزمرہّ زندگی جھمیلوں میں مصروف ہوجائیں گے۔

روزمرہّ کے معمول کے لئے تیار ہوتے ہوئے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سی ٹی ڈی کے ہاتھوں ہوئی واردات سے ایک روزقبل پنجاب کابینہ کے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے کوٹے سے نامزد ہوئے وزیر حافظ عمار یاسر نے اپنے محکمے میں بے جا مداخلت سے اُکتاکر اپنی قیادت کو کابینہ سے استعفیٰ والا خط تھمادیا تھا۔ اس کے بعد اُمید یہ بندھی کہ وزیر اعظم اور چودھری برادران کے مابین ایک فیصلہ کن ملاقات ہوگی۔ اس ملاقات میں ’’آریاپار‘‘ کا فیصلہ ہوجائے گا۔ ذاتی طور پر فی الوقت مجھے ایسے کسی فیصلے کی اُمید نہیں ہے۔جولائی 2018کے انتخابات سے تقریباََ تین ماہ قبل ایک باخبر دوست نے مجھے مطلع کیا کہ چودھری پرویز الٰہی صاحب تلہ گنگ سے قومی اسمبلی کی نشست پر اُمیدوار ہوں گے۔ وہاں سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست حافظ یاسر عمار کے لئے خالی رکھی جائے گی یعنی تحریک انصاف کا کوئی رکن ان کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہوگا۔ چودھری برادران کو ایسی ہی سہولت گجرات میں ان کے آبائی حلقوں کے لئے بھی میسر ہوگی۔

بہاولپور کے چند حلقے بھی ان کے سپرد ہوں گے۔میں نے اس اطلاع کی تصدیق کے لئے بنی گالہ کے قریب تصور ہوتے کم از کم تین افراد سے رابطہ کیا۔ تینوں نے بہت سختی سے مجھے ملی اطلاع کی تردید کی۔ چکوال اور تلہ گنگ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے کئی متحرک رہ نمائوں نے بھی اس ضمن میں ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘ والے دعوے کئے۔ میرا شکی اور متجسس ذہن مگر قائل نہ ہوپایا۔ ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ والی سوچ کے ساتھ مزید کھوج میں لگارہا۔منطق کے اطلاق سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہوئی کہ ’’مائنس نواز‘‘ ہوجانے کے بعد سابق وزیر اعظم کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ میں ’’فارورڈ بلاک‘‘ کی ضرورت محسوس ہوگی۔

چودھری نثار علی خان ایسے بلاک کو اپنی مخصوص طبیعت کے باعث تشکیل نہیں دے سکتے۔ چودھری برادران کا تجربہ اور ڈیرے داری ہی اس ضمن میں کارآمد ہوسکتی ہے۔بالآخر انتخابات کی تاریخ طے ہوگئی۔ ٹکٹوں کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا تو تلہ گنگ،گجرات اور بہاولپور کے حلقوں کے بارے میں مجھے دی گئی اطلاع درست ثابت ہوئی۔ اس اطلاع کے درست ثابت ہونے کے باوجود میرا دل یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیںہوا کہ عمران خان صاحب انتخابی نتائج آنے کے فوری بعد پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کو چودھری پرویز الٰہی کے سپرد کردیں گے۔پنجاب آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ 1985ء میں اس صوبے کی وزارتِ اعلیٰ سنبھالنے کے بعد نواز شریف کا تیسری بار اس ملک کا وزیر اعظم ہونا ثابت کرتا ہے کہ اسلام آباد میں اقتدار کے حصول کے لئے پنجاب کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا ضروری ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو یہ حقیقت 70 ء کی دہائی ہی میں سمجھ آگئی تھی۔ مصطفیٰ کھر کو ایک زمانے میں انہوں نے اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ وہ مگر جب ’’شیر پنجاب‘‘ پکارے جانے لگے تو لاہور کے مڈل کلاس دانشور حنیف رامے کو ان کی جگہ لگادیا گیا۔ رامے صاحب بھی لیکن ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ لڑنے کی فکر میں مبتلا ہوگئے۔ بالآخر وہ اور غلام مصطفیٰ کھر پیر پگاڑا کی سرپرستی میں قائم پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہوکر بھٹو حکومت کو للکارنے لگے۔ دلائی کیمپ اور شاہی قلعہ لاہور نے مگر انہیں پرواز کے قابل رہنے نہ دیا۔پنجاب،ملتان سے آئے ایک فرمانبردار صادق حسین قریشی کے حوالے کردیا گیا۔عمران خان کی اصل ذہانت یہ ہے کہ پنجاب میں کسی کھریا رامے کا رسک لئے بغیر انہوں نے عثمان بزدار کی صورت انتخابی نتائج آنے کے فوراََ بعد ہی ایک ’’صادق حسین قریشی‘‘ ڈھونڈلیا۔ وہ مستقلاََ انہیں ’’وسیم اکرم پلس‘‘بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

پنجاب کے روایتی رانے،چودھری اور دیگر ڈیرہ دار سیاست دان’’وسیم اکرم پلس‘‘ سے مگر گزارہ نہیں کرپارہے۔ انہیں دیوار سے لگانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ڈیرے دار سیاست دانوں کا اصل مسئلہ تھانہ کچہری سے جڑے معاملات ہوتے ہیں۔ ’’اپنے حلقوں میں انہیں من پسند DCOsاور DPOsبھی درکار ہیں۔’’وسیم اکرم پلس‘‘ ان کی خواہشات کو سمجھتے ہوئے بھی کسی نوعیت کی مدد نہیں کر پاتے۔

اپنا ’’دُکھڑا‘‘ بیان کرنے کے لئے یہ ڈیرے دار لہذا چودھری برادران کے لاہور والے گھر میں جمع ہوکر واویلا مچانا شروع ہوجاتےہیں۔وزیر اعظم عمران خان صاحب کو مگر پیغام یہ دیا جاتا ہے کہ چودھری برادران بجائے اصل ٹارگٹ یعنی پاکستان مسلم لیگ (نون) میں فارورڈ بلاک تشکیل دینے پر توجہ دینے کے تحریک انصاف کے ’’بندے توڑ‘‘ رہے ہیں۔ ایسی اطلاعات ملنے کے بعد عمران خان صاحب کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ چودھریوں کے حافظ عمار یاسر جیسے وفاداروں کو ان کی اوقات یاد دلاتے رہیں۔ مجھے قوی شبہ ہے کہ آئندہ کئی ہفتوں تک ’’اوقات‘‘ یاد دلانے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ جہاں دیدہ چودھری شجاعت حسین مگر ’’مٹی پائو‘‘ والا رویہ اپنائے رہیں گے۔ میڈیا میں اگرچہ چودھری برادران اورتحریک انصاف کے درمیان اختلافات کی چسکہ بھری کہانیاں رونق لگاتی رہیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے