کشمیرپر(OHCHR)رپورٹ اور پاکستان کی ذمہ داریاں

ریاست جموں و کشمیر پر یو این سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کے بعد ، اس عالمی تنظیم کے مستند ادارے OHCHR ( آفس آف ہائی کمشنر ہیومن رائٹس ، یو نائیٹڈ نیشنز) نے جون 2018 کو ہندوستان کے زیر انتظام وادی کشمیر میں ہندوستان کےظلم ستم کی رونگٹے کھڑے کردینے والی رپورٹ شائع کرکے مطالبہ کیا ہے کہ اس سیاسی مسئلہ کے حل کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات اور ذمہ داروں کو سزا دینے کے لئے کمیشن قائم کیا جائے- کمشنر نے ان مظالم کی نوعیت اور اور اعداد شمار بھی جاری کئے ہیں جو وہاں روا رکھے جارہے ہیں-

OHCHR نے اپنی رپورٹ میں آزاد کشمیر میں بھی قوانین اور کمزور ڈھانچے (structural ) کی بناء پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا ہے- اس سے پہلے یورپیئن یونین کی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی نے 2007 میں اس کی ممبر ایما نکلسن کی تحقیقاتی رپورٹ کو سرکاری حیثیت دے کر جاری کیا تھا جس میں اسی طرح کے الزامات ہندوستان اور پاکستان پر عائد کئے گئے تھے- ان کے علاوہ کشمیر پر ہونے والے ظلم وستم اور آزادی کی پر امن تحریک کو دبانے کے لئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اس مسئلے کے حل کے لئے دنیا کے ہر معتبر ادارے ، تھنک ٹینک، اخباروں اور سٹیسمین نے اسی طرح کے الزامات لگائے اور سفارشات کی ہیں ، جن میں یو این سیکریٹری جنرل، امریکہ کی خارجہ امور کی کمیٹی، OIC’ Amnesty International ‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں لیکن ہندوستان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان اپیلوں پر کوئی عمل ہوا نہ ہی ظلم میں کوئی کمی آئی بلکہ یہ ظلم وستم روز بروز بڑھتا ہی جارہاہے-

کشمیر پر OHCHR کی 2018 کی رپورٹ پڑھنے کے لیے یہاںکلک کریں

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وہ نوعیت نہیں جو ہندوستان کر رہا ہے لیکن ان علاقوں کے بنیادی آئینی ڈھانچوں میں یقینآ اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ ان علاقوں میں پالیسی ساز، فیصلہ ساز ، ان کا نفاذ کرنے والے اداروں میں یہاں کے لوگوں کو شامل کیا جائے ، جس کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقے مرکز کی بے نوا لاٹھی سے ہانک جارہے ہیں اور ایسا اس لئے نہیں کیا جارہا کہ اس سے کشمیر کا مسئلہ متاثر ہوگا-

ایما نکلسن کی کشمیر کے بارے میں 2007 کی تحقیقاتی رپورٹ پڑھنے کے لیے یہاںکلک کریں

حال ہی میں دیکھا گیا ہے 969 MW نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ مکمل بھی ہوگیا لیکن مقامی حکومت (آزادحکومت ریاست جموں کشمیر) کے ساتھ معاہدہ ہوا اور نہ ماحولیاتی تباہی کے تدارک کے کوئی اقدامات اتھائے گئے ، جبکہ 1140MW کوہالہ پراجیکٹ کی شروعات اسی وجہ سے عوامی غیض و غضب کا شکار ہو گئی ہے – کیا یہ انسانی حقوق اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور OHCHR’ EURPEON PARLIAMENT , Amnesty International t خلاف نہیں ہے؟ اس کی اصلاح کے بغیر پاکستان کی بات کون مانے گا ؟ لوگوں کے مطالبے پر ان علاقوں کے بنیادی آئینی ڈھانچوں میں نیم دلانہ طور پر کچھ اصلاحات کی گئی لیکن بنیادی آئینی تنظیمی ڈھانچے میں مرکزی بالا دستی اور جمہوری خلاء ( Democratic Deficit) جوں کا توں موجود ہے-

گلگت بلتستان کے آئینی ڈھانچے کا سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئینی یا انتظامی دستاویز کے بجائے عدالتی دستاویز بنا کر عملآ عدالتی، انتظامی اور قانون سازی کے اختیار اپنے پاس سمیٹ لئے ہیں ، یہ مزید بدنامی اور بد انتظامی کا باعث بنے گا- سرکاری ملازمین خواہ عدلیہ ہو یا فوجی بیوروکریسی سیاسی اور انتظامی معاملات چلا سکتی ہے نہ حل کر سکتی ہے- فوج بالواسطہ اور بلا واسطہ 40 سال تک پاکستان پر حکمرانی کے باوجود ڈیلیورنہیں کرسکی ، جس کے پاس انتظام چلانے کے لئے مشینری بھی موجود تھی اور لوگوں نے بھی تسلیم کرلیا تھا،جبکہ عدلیہ کے پاس یہ دونوں صلاحیتیں نہیں ہیں-

آزاد کشمیر میں تیریویں ترمیم اس وقت تک قواعد کار اور اداراتی اصلات نہ ہونے اور مرکز کے ساتھ رسہ کشی کی وجہ سے بے سمت ہے حالانکہ اس سے بھی مرکز کے معاملات میں نا رسائی کی وجہ سے structural democratic deficit دور نہیں ہوا ہے – پاکستان بین الاقوامی طور اپنی ساکھ بہتر کرنے کے لئے یہ بے ضرر لیکن جمہوری اور انسانی حقوق سے متعلق بیان کردہ ترامیم جتنی جلدی ممکن ہو کرے تاکہ بین الاقوامی سطح پر ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے ہندوستان پر بر تر سمجھا جائے-

ہندوستانی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تفاصیل OHCHR اور Emma Nicholson رپورٹ میں شامل ہیں لیکن اس کے باوجود زمینی حقائق کی عکاسی نہیں ہوئی ہے جس میں مذہبی ، تہذیبی اور ثقافتی دہشت گردی کا نوٹس نہیں لیا گیا ہے . اس نوع کی دہشت گردی کا مقصد یہ ہے کہ بحیثیت قوم اس کی شناخت مٹائی جائے جو آبادی کے انخلاء اور غیر ریاستی لوگوں کو بسانے کے علاوہ اقدامات ہیں –

کشمیری انسانی حقوق کی تنظیون کی مشترکہ ایسوسی ایشن jkccs نے سال 2018 کی رپورٹ میں اس سال کو گذشتہ دہائی کا مہلک ترین سال قرار دیا ہے، جس مین 586 لوگ مارے جانے کے علاوہ متعدد لوگوں کو زخمی ، اندھا، جبری غائب اور اغوا کے بعد ان کی لاشیں برآمد ہونا، ، ریاستی حراست، تھانوں میں حاضری ، جبری زنا ، صحافیوں کا قتل ، محاصرے، ناکے – بیرون ریاست کشمیریوں کو ہراساں کرنا اور مار پیٹ ، غیرکشمیریوں کی ریاست میں آباد کاری ، دفعہ 35A کے تحت برائے نام تحفظ پر عدالتی دہشت گردی ، مرکزی اداروں کا کشمیریوں کو مجرم سمجھنا ، ان کے ساتھ متعصبانہ اور مجرمانہ سلوک وغیرہ شامل ہیں-

اس وقت وادئ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، قتل وغارت، ریاستی جبر اس سے کئی گنا زیادہ ہے جو انڈونیشیا کے خلاف مشرقی تیمور میں رو ا رکھے جانے کا الزام تھا – جس کی وجہ سے آسٹریلیا اور امریکہ کی مدد سے UN کے زیر اہتمام بین الاقوامی فوج اتاری گئی تھی-

کشمیر کا مسئلہ اب فی الواقع تاریخ کے اس موڑ پہ آگیا ہے جہاں پاکستان کو ہمہ جہت وہ کچھ کرنا چاہیے جو ہندوستان نے 1971 میں مشرقی پاکستان کے حوالے سے بین الاقوامی ہمدریاں حاصل کرنے کے لیے کیا تھا-دنیا بھر میں پاکستانی سفارت کار اور اسلام آباد میں دنیا کے سفارت کاروں بالخصوص یورپی، امریکی ، آسٹریلوی اور افریقی ملکوں پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے – ان میں سے بھی ان ملکوں پر زیادہ دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے جو ان بین الاقوامی تنظیموں میں شامل تھے جنہون نے OHCHR اور یورپی پارلیمنٹ اور Amnesty Intl OIC کے ممبر کی حیثیت سے کشمیر پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے –

ویٹی کن چرچ اور پوپ کے ساتھ انسانیت بچانے کے لئے رابطہ انتہائی کارگر رہے گا -امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کو افغانستان میں امن بحال کرنے کے عمل میں طالبان کو قریب لانے کی درخواست کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر کے معاملہ کو اس سے جوڑ دینا چاہیے- اس وقت امریکہ اور پوری یورپی دنیا اس قضیے میں پھنسی ہے جس سے نکالنے کی چابی صرف پاکستان کے پاس ہے- ماضی میں روسی فوج کے خلاف اور اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی پیدا کی ہوئی جنگ میں بلا شرط اور بلا سفارتی فائدے کے شامل ہونے والی غلطی نا قابل معافی جرم ہوا ہے -1960 کی دہائی میں بھی امریکہ کے چین کے ساتھ تعلقات کی بلا تنخواہ استواری ، جس کا فائدہ صرف امریکہ کو ہوا ، سفارتی حماقت تھی ، اب اس کی تلافی کا موقع بھی آگیا ہے –

پاکستان کو ہر اس فورم پر دستک دینے کی ضرورت ہے جو ان رپورٹوں اور زمینی حقائق کی روشنی میں ہندوستان پر دباؤ بڑھائیں ، اقوام عالم کا ضمیر جھنجوڑیں – جس طرح ہندوستان کلبوشن یادو کا کیس عالمی عدالت انصاف میں لے گیا ، پاکستان کشمیر کا کیس متعلقہ عالمی اداروں میں لے جائے- سلامتی کونسل میں جانے کے لئے پاکستان اس کی 1957 کی قرار دادوں پر انحصار کر سکتا ہے – الحاق، خود مختاری یا آزادی کے بجائے وادئ کشمیر میں بین الاقوامی فوج اتار کر لوگوں کی جان، مال ، عزت اور آبرو بچانے پر زور دینے کی ضرورت ہے- کشمیر اور کشمیر کے مسئلے، بین الاقوامی اور ملکی قوانین ، علمی اور عصر حاضر کے حالات اور واقعات سے باخبر ملکی اور بین الاقوامی دنیا میں رہنے والے کشمیری باشندوں کو با اثر ملکوں کی لابیوں اور پالیسی سازوں سے ہمہ وقت رابطہ کاری نا گزیر ہے – جو پیسے اپنے چہیتوں کی سیر سپاٹے اور بیرون ملک اپنے ہی لوگوں کو برادریوں اور علاقوں میں تقسیم کرنے اور ان کو مسئلہ کشمیر کی قوالی سنانے کے لئے خرچ کئے جاتے ہیں ان سے بین الاقوامی lobbyist hire کیے جائیں-

یوں تو پوری ریاست متنازع اور حل طلب ہے لیکن زمینی حقائق کی روشنی میں وادئ کشمیر ہی مقتل گاہ اور مزاحمت کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے، اس لئے اس کو توجہ کا مرکز بنانے کی ضرورت ہے جو ایک مضبوط ، معقول اور دنیا بھر کے لیے قابل قبول دلیل ہوگی –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے