44 سال پہلے..!

[pullquote]حفظ مراتب[/pullquote]

آداب، تکلفات اور حفظ مراتب کے ذکر میں پولیس کا نام نہ لیا جائے تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہوگی کہ اس حوالے سے پولیس تمام محکموں سے آگے ہے، لیکن یہ حقیقت ہے اور ہم اس میں رتی بھر کے مبالغے سے کام نہیں لے رہے کہ اس کے ثبوت میں ہم وہ اعلانات یہاں درج کرتے ہیں جو ٹریفک پولیس والے ان دنوں شارع قائد اعظم پر لائوڈ ا سپیکروں سے نشر کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔ اس سے پتہ چلے گا کہ چھوٹے بڑے کا لحاظ آج کسی میں ہے تو وہ صرف پولیس میں ہے’’نمونہ کلام‘‘ درج ذیل ہے۔

’’نیلی ٹیوٹا والے صاحب! زحمت تو ہوگی مگر براہ کرم اپنی گاڑی زیبرا کراسنگ سے ذرا پیچھے لے جائیں، اس سے ٹریفک میں دشواری پیش آرہی ہے، بہت نوازش شکریہ!‘‘

’’ویسپا والے صاحب، دائیں جانب مڑنے کی کوشش نہ کریں پہلے مین روڈ کا ٹریفک گزرنے دیں اتنی بےصبری کی ضرورت نہیں،شکریہ‘‘

اوئے سائیکل والے اندھا ہوگیا ہے، دیکھتا نہیں اشارہ بند ہے، یہ سڑک تیرے باپ کی نہیں دفع ہوجا! شکریہ!

[pullquote]گھڑی گھڑی[/pullquote]

لاہور یے کسی مخالف سیاسی جماعت کے جلسے میں اتنی زیادہ تعداد میں پہنچ جاتے ہیں کہ وہاں اپنا ہجوم دیکھ کر Demoraliseہونے لگتے ہیں۔یہ دراصل مقرر کی تقریر کم سنتے ہیں، اس تقریر سے’’ صحیح وقت‘‘ کا اندازہ لگاتے ہیں۔ ادھر لاہور کے مقرر بھی ایسے ہیں کہ تقریر کم کرتے ہیں اور ٹائم زیادہ بناتے ہیں، مثلاً ان جلسوں میں یہ شعر بہت پڑھا جاتا ہے؎

یہ’’گھڑی‘‘ محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے

پیش کر ناداں اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

چھوٹا مقرر اگر ’’گھڑی‘‘ کا ذکر کرتا ہے تو بڑا مقرر ’’گھڑیال‘‘ کا حوالہ درمیاں میں لے آتا ہے؎

غافل تجھے ’’گھڑیال‘‘ یہ دیتا ہے منادی

جو مقرر گھڑی یا گھڑیال کا براہ راست ذکر نہیں کرتا وہ بالواسطہ طور پر وقت کی دہائی دینے میں لگا رہتا ہے مثلاً یہ کہ’’حضرات! میرے پاس تقریر کے لئے’’وقت‘‘ بہت کم رہ گیا ہے مجھے آپ سے صرف یہ کہنا ہے کہ قربانیاں دینے کا’’وقت‘‘ آگیا ہے، آپ اس کے لئے ’’ہمہ وقت‘‘ تیار ہیے۔(8اکتوبر 1977)

[pullquote]نوشتہ دیوار[/pullquote]

دیواروں پر سب سے زیادہ جو خوشخبری سنائی جاتی ہے، وہ مایوس مریضوں کے لئے ہےاور ان ’’ڈاکٹروں‘‘ کی طرف سے جن میں سے کوئی امریکہ، کوئی یورپ ا ور کوئی مشرقی وسطیٰ میں اپنے فن کا لوہا منواکر وطن واپس پہنچا ہے، یا کسی ایسے سنیاسی بابا کی طرف سے ہے، جو اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل میں پہاڑوں سے اتر کر ان بستیوں میں چلا آیا ہے۔ قوم کی کمزوری ظاہر کرنے والے یہ اشتہار دیواروں پر اس کثرت سے نظر آتے ہیں کہ اس کے بعد قوم کے لئے فیملی پلاننگ کے محکمے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔(26جنوری 1977)

[pullquote]ہیرو ئن کی ماں[/pullquote]

ہم ہیروئن کی ماں اور اس کی کھانسی سے سخت بےزار ہوگئے ہیں۔ یہ ہیروئن وہی فلموں والی ہیروئن ہے جو خود تو ہیرو کے ساتھ لڈیاں ڈالتی ہے اور ہمارے لئے گھر میں اپنی ماں اور اس کی کھانسی چھوڑ جاتی ہے۔ ہر دوسرے چوتھے منظر میں یہ ماں کیمرے کے سامنے آجاتی ہے اور کھانس کھانس کر اپنا اور ناظرین کا برا حال کردیتی ہے۔ یہ منظر سگریٹ نوشی کے نقصان دکھانے کے لئے پیش نہیں کئے جاتے کیونکہ ہیروئن کی ماں سگریٹ نہیں پیتی، ہیروئن پیتی ہے اور اسے کھانستے ہوئے دکھانا ’’خلاف واقعہ‘‘ ہے۔(27نومبر1972)

[pullquote]اصول[/pullquote]

ہمارے ایک دوست کا یہ اصول ہے کہ انسان زندگی میں انتہائی بےاصول ہونا چاہئے، چنانچہ وہ کسی اصول کو نہیں مانتے اور مکمل طو ر پر بے اصولی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ دوستوں نے انہیں متعدد بار کہا ہے کہ وہ اپنے اس اصول سے کنارہ کش ہوجائیں مگر وہ سختی سے اس مشورہ کو رد کردیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ (19مئی 1977)

[pullquote]بڑھک[/pullquote]

اخبارات میں بیان چھپوانے کے لئے اب لیڈر ہونا بھی شرط نہیں، صرف ایک سادہ کاغذ پر چند ’’بڑھکیں‘‘ لکھ دینا ہی کافی ہے۔ اس کی ایک مثال(دروغ برگردن راوی) انجمن خشت سازاں پکی ٹھٹھی کے صدر کی ہے، جنہوں نے ایک اخباری بیان میں بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائے ورنہ انجمن خشت سازاں پکی ٹھٹھی کے ارکان اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔ امید واثق ہے کہ اس بیان سے بھارت کے حکومتی ایوانوں میں زلزلہ آجائے گا، لیکن اس سے قبل انہوں نے اینٹوں کے نرخ اتنے چڑھا دئیے ہیں کہ مکان بنانے کے خواہش مندوں کی اپنی اینٹ سے اینٹ بج گئی ہے!(25جنوری 1975)

[pullquote]کلمہ سناؤ[/pullquote]

یہ ان دنوں کی بات ہے جب صوفی عارف ہمیں رائے ونڈیہ کہہ کر لے گیا تھا کہ تم تین دن ہمارے ساتھ ایڈونچر سمجھ کر ہی گزار دو۔ ہم عارف مرحوم کے پیچھے سرجھکائے، آنکھیں نیم وا کئے، ذکر و فکر میں مشغول چلے جاتے تھے کہ سامنے سے گائوں کے میراثی کا گزر ہوا۔ عارف مرحوم نے تبلیغی جماعت کے روایتی عاجزانہ انداز میں اس سے دو منٹ گفتگو کے لئے مانگے۔ وہ رکا تو عارف نے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اسے جماعت کے مخصوص مسکینانہ انداز میں کہا’’بھائی کلمہ سنائو‘‘

اس پر اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے اور وہ ہڑ بڑا کر بولا ’’کیا بات ہے، کیا کلمہ بدل گیا ہے۔‘‘(27جون 1977)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے