تم سے پہلے

قبرستان ناگریز لوگوں سے بھرے ہیں۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کا سورج نصف النہار پہ تھا تو جالبؔ نے کہا تھا:
تم سے پہلے وہ جو ایک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا

وہ ایک جلیل سرکاری منصب پہ فائز تھے۔ پہلی ہی ملاقات سے اعتماد کا جو تعلق استوار ہوا، وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا گیا۔ ایسا آدمی کہ جب وہ شاد ہو تو اس کی مسرّت خود آپ کے دل میں گھر کرتی ہے۔ ناشاد ہو تو اپنا جی ناشاد ہوتا ہے۔

سانحہ ساہیوال پر بات کی تو ناخوش تھے۔ انہوں نے کہا: اشتہارات کی بندش سے اخبار نویس ردّ عمل کا شکار ہیں۔
عرض کیا: جہاں تک میرا تعلق ہے‘ اپنی غلطی مانتا ہوں۔ مانتا ہوں کہ ذیشان دہشت گرد تھا‘ مگر یہ بتائیے کہ کیونکر اور کس طرح ہمیں اندازہ ہوتا کہ معاملہ کیا ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے حکمران جماعت کی ایک ممتاز رہنما نے شہادت دی ہے کہ ذی شان معصوم تھا۔ نام ان محترمہ کا عندلیب عباس ہے۔
دوسرا سوال یہ تھا: آپ مجھے جانتے ہیں۔ میرے بارے میں کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ اس بنا پر تنقید کروں گا۔ شریف حکومت اشتہارات کی بارش کر رہی تھی تو یہ ناچیز اعتراض کرنے والوں میں شامل تھا۔

اوّل تو سرکار سے کوئی رابطہ ہی نہیں کرتا۔ ثانیاً ایک ذرا سے اختلاف پر گالیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔ ہمارا مؤقف نا درست ہے‘ تو دلیل سے مسترد کر دیں۔ گالی کا جواز کیا ہے۔ وزیر اعظم سے ذاتی طور پر کہا۔ وہ نہ مانے کہ ان کے لوگ کردار کشی کے مرتکب ہیں۔ پھر ایک مشترکہ دوست کے ہاتھ پیغام بھیجا۔ تب ان کا روّیہ معذرت خواہانہ تھا۔ اپنے سپہ سالاروں میں سے ایک کو طلب کر کے انہوں نے تنبیہ کی۔ کچھ دن قرار رہا۔ اب پھر سے وہی عالم ہے۔ ایک آدھ اخبار نویس کی بات نہیں‘ عام مخالف اور معتوب ہی نہیں‘ تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے کتنے ہی اس رویے پہ آزردہ ہیں۔

مستقل طور پہ اختلاف کرنے والوں کو بے حمیت، بکائو اور جرائم پیشہ کہا جائے تو بیہودگی کے باوجود، ایک سطح پر قابل فہم ہے۔ اس کا جواز مگر کیا ہے کہ پورے کے پورے میڈیا کو بد دیانت، عوام دشمن اور ڈاکوئوں کا ٹولہ قرار دیا جاتا ہے۔

اساطیری اخبار نویس، آریا فلانچی نے ذوالفقار علی بھٹو سے کہا تھا: آدمی کے کردار کا پتہ اس رویے سے چلتا ہے، اپنے مخالفین کے باب میں جو روّا رکھے۔

برطرف کیے گئے نواز شریف کی میڈیا مہم کا روّیہ نا روا ہے تو قابلِ فہم۔ بہت سے لوگ انہیں لوٹ مار کرنے والوں کا ٹولہ سمجھتے ہیں۔ ایک مافیا، اپنے حریفوں کو جو کبھی کسی حال میں معاف نہیں کیا کرتی۔ جن پر الزام ہے کہ ہمیشہ سے مخالفین کے کردار کشی کے عادی ہیں۔
پی ٹی آئی والوں کے اعصاب پہ وحشت کیوں سوار ہے؟

سانحۂ ساہیوال پہ الجھائو اگر پیدا ہوا تو ذمہ دار کیا صرف میڈیا ہے؟ کیا حکومتِ پنجاب نہیں، جس نے بتایا کہ گاڑی کے شیشے کالے تھے۔ جس نے دعویٰ کیا کہ کار کے ساتھ تین عدد موٹر سائیکل بھی تھے، جس نے یہ کہا کہ فائرنگ کا آغاز گاڑی سے ہوا۔ جو یہ نہیں بتاتی کہ دہشت گرد ذیشان کا سراغ جنوری کے آغاز میں ملا تھا تو گرفتار کیوں نہ کیا گیا۔

آخری وقت تک صوبائی حکومت حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیوں کرتی رہی۔ بار بار اس نے اپنا موقف کیوں بدلا؟ صوبائی اور مرکزی حکومت کے طرزِ فکر میں بنیادی تضاد کیوں تھا۔ اب بے گناہوں کے قتل کا اعتراف کر لیا گیا ہے تو ایک بار پھر میڈیا دشنام کا ہدف کیوں ہے۔ سوشل میڈیا کے ساتھ مل کر اگر وہ فریاد نہ کرتا تو کیا انجام بارہ مئی 2007ء اور سانحہ ماڈل ٹائون سے مختلف ہوتا؟ مبالغہ آرائی سیاست میں ہوتی ہے مگر کتنی مبالغہ آرائی؟ پی ٹی آئی کا میڈیا سیل اور اس کے سائے میں تربیت پانے والے کس منہ سے کہتے ہیں کہ تب اخبار نویسوں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا تھا۔

بے حسی؟ چیخ چیخ کر ہم نے فریاد کی تھی۔ بارہ مئی کو بعض اخبار نویسوں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالی تھیں۔ اب وہی راندۂ درگاہ ہیں۔ اب وہی موردِ الزام ہیں۔ جن لوگوں نے کبھی ایک لفظ کسی شریف مافیا کے دفاع میں نہ لکھا، انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ دہشت گرد ذیشان کو معصوم محترمہ عندلیب عباس کہتی ہیں‘ اخبار نویس نہیں۔
ساہیوال کے سانحے پر ناچیز کا پہلا ردّعمل یہ تھا ”عثمان بزدار یا آئی جی امجد سلیمی پہ غصہ نکالنے سے کیا حاصل؟ مطالبہ یہ ہونا چاہیے: پولیس میں تمام تقرر میرٹ پر ہوں، تمام۔ تربیت فوجی سطح کی۔ سیاسی مداخلت نے پولیس کو برباد کیا ہے‘‘۔ اکثریت نے سراہا۔ یا للعجب بعض نے اس پر بھی گالیاں بکیں۔

لاہور کے با خبر اخبار نویس کہتے ہیں: انسدادِ دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ یعنی سی ٹی ڈی والے بھی اتنے ہی بے رحم ہیں‘ جتنے پولیس والے۔ ستّر اسّی فیصد افسر کاروبار میں لگے رہتے ہیں، اکثر ناجائز کاروبار مثلاً جائیدادوں پر قبضے۔ ہر سال تین چار سو ملزموں کو پولیس قتل کر ڈالتی ہے‘ جعلی پولیس مقابلوں میں۔ شہباز شریف کے گزشتہ دور میں مرنے والوں کی تعداد دو ہزار سے کم نہیں۔ پولیس افسروں کے نام بتائے جاتے ہیں، اس میدان میں جنہیں ماہرین کا درجہ حاصل ہے۔ اس قتل عام کا ذمہ دار کون ہے۔ مرنے والوں میں کتنے معصوم ہوں گے؟

معلوم نہیں، اب بھی برقرار ہے یا نہیں۔ پنجاب پولیس کو حکم یہ تھا کہ فلاں اور فلاں جرم کے ملزم جہاں بھی ملیں، قتل کر ڈالے جائیں۔ پنجاب ہی نہیں بعض دوسرے مقامات پر بھی عالم یہی تھا۔

بہت دن ہوتے ہیں، رائو انوار پہ تنقید کی تو رینجرز کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھ سے کہا: عدالتیں ضمانت پہ رہا کر دیتی ہیں۔ ان کے ایک پیش رو تھے، بظاہر خوش اخلاق۔ میرے اس ایک جملے پہ بگڑ گئے کہ ایم کیو ایم کے مجرموں کو سزا ملنی چاہیے، بے گناہوں کو نہیں۔ تحریری طور پر مذاق اڑایا، توہین آمیز پیغام بھیجتے رہے۔ کارنامے انجام دیے اور اعلیٰ ترین مناصب میں سے ایک پر سرفراز ہوئے۔ آخر کو رسوا۔ اب چھپتے پھرتے ہیں۔ الزام یہ ہے کہ ڈٹ کر دولت کمائی۔

پولیس اور عدالتوں کی کم کوشی کا علاج کیا قتلِ عام کا لائسنس ہے؟ ساری دنیا کی طرح یہ ادارے بہتر کیوں بنائے جا سکتے۔ پانچ ماہ میں انقلاب کا مطالبہ کس نے کیا؟ کم از کم آغاز کار تو ہو۔ جی ہاں، یہ پچھلی حکومتوں کا ورثہ ہے مگر اب تو پنجاب میں آپ کی حکومت ہے۔ اب پولیس افسروں کا تقرر میرٹ پہ کیوں نہیں ہوتا؟

لطیفہ یہ ہے کہ میڈیا کی غیر ذمہ داری پہ تنقید کرنے والا بھی آج حکمران پارٹی کا معتوب ہے۔ وہ، جس نے کہا تھا: اس میڈیا کے ساتھ ملک کی سلامتی خطرے میں رہے گی۔

کوئی پیمانہ؟ کوئی اصول؟ کوئی قرینہ؟ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: برائیوں کا سدّ باب صرف بھلائیوں سے ممکن ہے۔ نادرِ روزگار قراۃ العین حیدر نے لکھا تھا ”ابدیت سفر کو ہے، مسافر کو نہیں‘‘۔

قبرستان ناگریز لوگوں سے بھرے ہیں۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کا سورج نصف النہار پہ تھا تو جالبؔ نے کہا تھا:
تم سے پہلے وہ جو ایک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا

پسِ تحریر: ایک ٹی وی انٹرویو میں سابق آئی جی پولیس چوہدری یعقوب نے مانا ہے کہ پولیس جعلی مقابلے کرتی ہے۔ ماضی میں سینکڑوں ایسے واقعات ہوئے ۔ اس ذہنیت کے افسر اب بھی موجود ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کو انصاف فراہم کرنے کا یہی بہترین طریقہ کار ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے