نئی راہیں ‘نئی وسعتیں

گزشتہ سال سے امریکہ اور چین وسیع پیمانے پر تجارتی جنگ میں مصروف ہیں۔متنازع اور دانشورانہ ملکیت کی خلاف ورزیوں‘ زبردستی ٹیکنالوجی کی منتقلی اور دیگر غیر منصفانہ طریقوں پردونوں ممالک کو تشویش ہے۔ حقیقت میں‘ یہ تنازع ایک بڑے سٹریٹیجک شو کا اعلامیہ بھی ہو سکتاہے ‘جس میں چینی صدرفیصلہ کن فتح کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کی طرف پیش قدمی جاری ہے۔ چین نئی قسم کی جیوپولیٹکل حکمت عملی پر چل رہا ہے‘جیسا کہ چینی اکیڈمی آف سائنسز نے وضاحت کی ہے ”ہمارا مقصد عالمی سطح پر نئے انٹرنیٹ ‘نیٹ ورک کے نظام کی تعمیر کرنا ہے ‘‘۔ایسا کرنے کے لیے ‘ چین اپنے قومی چیمپئنزاور ماہرین کی مددلینے کا بھی سوچ رہا ہے۔ چین ٹیکنالوجی کی دنیا کے تسلسل کو بڑھانے اور امریکہ کے سٹریٹیجک فوائد کو ختم کرنے کی نئی پالیسی ہو سکتی ہے۔یہ بھی عالمی ڈیٹا اور انفارمیشن ایکسچینج پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے‘ اس طرح اس کے مفادات کو آگے بڑھانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ۔امریکہ اور اس کے اتحادی اس خطرے کو تسلیم کرتے ہیں اور مضبوطی سے جواب کے لیے تیار ہیں۔

چین کی حکومت نے طویل عرصے سے اپنے تجارتی شعبے کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔ ریاستی ملکیت کمپنیوں کو بہت سی صنعتوں پر غلبہ حاصل ہے۔بڑی نجی کاروباری گھریلوصنعتوں کو ریاستی حمایت حاصل ہے۔بیجنگ کی اولین پالیسی ہے کہ وہ صنعتی علاقوں کو سب سے پہلے تحفظ فراہم کرے۔بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کا مطلب ہے کہ چین 2025ء میں مغربی ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے بڑے امیدواروں میں شامل ہونا چاہتاہے اور وہ ہائی ٹیک شعبوں میں چینی کمپنیوں کو فروغ دے رہا ہے‘ جیسے روبوٹکس‘ ایرو سپیس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی۔ حفاظتی اقدامات کے لیے کچھ منصوبوں کی امریکہ بھی حمایت کرتا ہے‘لیکن چین کے حقیقی عزائم بڑے ہیں‘وہ طویل عرصے سے‘ تکنیکی وسعت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خطیر رقم کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اپنے مقاصدکو حاصل کرنے کی چین کی حکمت عملی دُ گنا ہوگئی ہے۔

سب سے پہلے‘ چین بیرون ملک سے نئے خیالات اورجدیدسوچ کو درآمد کر رہا ہے ‘اس کا مطلب ٹیکنالوجی کا فروغ اور تجارتی رازوں کاتحفظ ہے ‘ چین کے ریاستی چیمپئنز نے سلکان ویلی میں کارپوریٹ ” آر اینڈ ڈی‘‘ کے مرکزوں کو تعمیر کیا ہے‘ اس میں خود کار ڈرائیونگ کاریں‘ کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور گہری سوچ رکھنے والوں کو سیکھنے کے شعبوں میں مدد حاصل ہو پائے گی۔

مزید یہ کہ چین اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے‘ جو اسے بیرون ملک سے ڈیٹا جمع کرکے دے رہی ہے۔چینی موبائل آن لائن ٹرانزکشن ”الی بے ‘‘اور” الی بیا‘‘ کی ادائیگی کے کاروبار‘ اس طرح کے اور بھی وسیع پیمانے پر ٹرانزیکشن کے اعداد و شمار کو حاصل کررہا ہے‘ کیونکہ اس کی مانگ عالمی سطح پر بڑھ رہی ہے ۔چینی کمپنیاں ”موکی ‘‘اور” اینڈو‘‘ بیرون ملک مقیم افراد کے اعداد و شمار کے مطابق ؛امیر موٹر سائیکل حصص پر غلبہ چاہتی ہیں‘چینی نگرانی کے نظام افریقہ میں بہترین ہیں‘ جبکہ دنیا بھر کے کاروباری اداروں کے سربراہان اور شوقین افراد نے ڈی آئی آئی چینی ڈرونوں پرپرواز کی ہے ؛ اگرچہ وہ حساس معلومات واپس گھر بھیج سکتے ہیں‘ مگر سب اس منصوبے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔جلد ہی‘ آپ کا فون چینی 5 جی نیٹ ورک سے منسلک ہوسکتا ہے‘ جبکہ آپ نقشہ سازی یا فٹنس اطلاعات بیجنگ کو بھیج سکیں گے۔

ڈیٹا جمع کرنا؛ اگرچہ صرف آغاز ہے۔چین چاہتاہے کہ ان تمام نظاموں کو ایک دوسرے کے ساتھ لیس کیا جائے ‘جس کو ”نیٹ ورک کی زبردست طاقت کی حکمت عملی‘‘ کہتے ہیں‘اس نظام کا مقصد چینی ٹیکنالوجی کو معلومات دینااور ٹرانزیکشن کے عالمی بہاؤ کے لئے بنیاد رکھنا ہے ‘اس طرح چینی کمیونسٹ پارٹی کے استحکام‘ اثر و رسوخ کو بڑھانے اور دنیا بھر میں طاقت جیسے حصول میں کامیابی حاصل کر نا ہے۔جیسا کہ اکیڈمی آف سائنسز نے کہا ہے کہ چین اس نیٹ ورک کو سب سے پہلے ”سماجی تجربے اور تجزیے‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔اصلی واقعات کی پیش گوئی‘ ترقی‘ اورتمام نظام کو کنٹرول کرنے کے لیے ‘جیوپولیٹکل مقاصد کے ساتھ ‘یہ ایک نئے عالمی آپریٹنگ سسٹم پر غور کر رہا ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی ‘چین کوجامع جواب دینے کی تیاری میں لگے ہیں‘وہ اہم شعبوں کی حفاظت کے لئے نئی سرمایہ کاری کرکے اسکریننگ پروٹوکول تیار کررہے ہیں ‘اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے ان کو انہی اصولوں پر قائم بھی کیا جانا چاہیے ‘سکریننگ پروٹوکول سے اپنے ملکی ڈیٹا کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے‘ لیکن چین کے عزائم سے ملنے کے لئے کافی وسیع مینڈیٹ کے ساتھ فنڈز ‘محدود شراکت داری کے ساتھ آپریٹنگ کمپنیوں میں براہ راست سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔آزاد تجارتی معاہدوں میں احتیاط بھی برتی جا رہی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت سے تجارتی معاملات پر نظر ثانی کی ہے۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کو ”غیر مارکیٹ‘‘ کی معیشتوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے سے روکنے کے لئے‘ ایک اچھا سانچہ پیش کررہا ہے۔

چین اس کے مقابلے میں معیاری فوائد کا دعوی کرسکتا ہے‘ یعنی دائمی شراکت داری ( جیسا کہ پاک چین اقتصادی راہداری) کاپیمانہ‘ امریکی اتحادیوں اوراپنے شراکت داروں کے درمیان باہمی تعاون ‘ متعدد مفادات اور خطرات امریکہ کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کیے ہوئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے