کابل کے انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل پر طالبان کے حملے میں بچ جانے والے پائلٹ کی کہانی

ایک سال قبل 20 جنوری کو طالبان نے کابل میں سیاحوں میں مقبول ایک لگژری ہوٹل پر حملہ کرتے ہوئے کم از کم 40 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملے کے وقت ہوٹل میں یونانی پائلٹ واسلیوس واسلیو بھی قیام پذیر تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ اس حملے میں کیسے محفوظ رہے۔

’میں نے اپنے پائلٹ دوست مائیکل پولیکاکوس کے ساتھ رات کا کھانا شام چھ بجے جلدی کھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل میں میرے گذشتہ تین چار ماہ کے قیام دوران پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ میں اس وقت کھانے کے لیے آیا تھا کیونکہ عموماً میں رات کا کھانا ساڑھے آٹھ بجے کھاتا تھا۔

ہم نے اپنا کھانا تقریباً ساڑھے سات بجے ختم کیا اور میں کچھ ٹیلیفون کالز کرنے کے لیے اپنے بالائی منزل پر واقع کمرہ نمبر 522 میں چلا گیا۔ شام پونے نو بجے جب میں فون پر بات کر رہا تھا میں نے ہوٹل کی لابی میں ایک زور دار دھماکا سنا۔

میں کمرے کی بالکونی میں چلا گیا جہاں سے میں نے زمین پر ایک شخص کو دیکھا جو خون میں لت پت پڑا ہے۔ مجھے ہوٹل کے اندر اور باہر سے فائرنگ کی آوازیں آئیں۔ مجھے احساس ہوا کہ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ اس وقت میں ہوٹل کے ریستوران میں نہیں ہوں۔ میں نے خود سے کہا: ’اچھا واسیلیوس، تمھیں اپنی زندگی بچانے کے لیے کچھ کرنا ہو گا۔‘

میں نے کمرے کی بالکونی کا دروازہ کھلا رکھا جبکہ کمرے کا مرکزی دروازے بند کر دیا۔ میرے کمرے میں دو پلنگ موجود تھے، میں نے ایک پلنگ سے گدا اٹھا کر دروازے کے ساتھ کھڑا کر دیا تا کہ میں اپنے آپ کو دستی بم کے حملے سے بچا سکوں۔ پھر میں نے کچھ کپڑے،تولیے اور چادریں اکٹھی کیں اور ان کی مدد سے ایک رسی بنائی تاکہ اگر مجھے ضرورت ہو تو میں اس کی مدد سے چوتھی منزل پر جا سکوں۔

کیونکہ میں ایک پائلٹ اور ٹرینر ہوں اور میں نے کئی برسوں سے ہنگامی حالات میں فیصلہ سازی پڑھ رکھی ہے، اس لیے اگر میں جب بھی کسی ریستوران یا تھیئٹر جاتا ہوں تو ہنگامی انخلا یا دروازے کے پاس بیٹھنے کا سوچتا ہوں۔ یہ اب میری فطرت بن چکی ہے۔

’میں نے سوچنا شروع کیا کہ میں اب کیا کر سکتا ہوں، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ حملہ آوروں کی تعداد کتنی ہے اور وہ ہوٹل کی عمارت میں کہاں موجود ہیں اور ایسے میں پانچویں منزل سے کودنا عقل مندانہ فیصلہ نہیں تھا۔ تو میں خود سے کہا کہ واسلیوس کمرے میں ہی رہو اور خود کو بچانے کی بھرپور کوشش کرو۔‘

معلوم نہیں کیوں میں حیران کن حد تک پرسکون تھا۔

میں نے کمرے میں موجود دو پلنگوں میں سے ایک پر بستر تھوڑا منتشر کر دیا، اور جس پلنگ سے میں نے گدا ہٹایا تھا، اس پر سلیقے سے چادر بچھا دی۔ میں نے کمرے کی بتی بجھا کر اندھیرے میں فرنیچر اور موٹے پردوں کے پیچھے چھپنے کا فیصلہ کیا۔

تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔ اگرچہ اس وقت مجھے پتہ نہیں تھا مگر تب تک حملہ آوروں نے ہوٹل کی لابی، ریستوران، پہلی اور دوسری منزل پر تقریباً تمام افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ پھر وہ تیسری اور چوتھی منزل سے ہوتے ہوئے پانچویں منزل پر پہنچ چکے تھے جہاں سے وہ خود کو بین الاقوامی فورسز کے ہیلی کاپٹروں سے محفوظ رکھ سکتے تھے اور میں ان کے دوڑتے قدموں کی آواز سن سکتا تھا۔

میں نے قریبی برآمدے میں گولی چلنے کی آواز سنی جس کے بعد اچانک سے پورے ہوٹل کی بجلی بند ہو گئی۔

پانچویں منزل پر حملہ آوروں نے جس پہلے کمرے پر حملہ کیا تھا وہ کمرہ نمبر 521 تھا جو میرے کمرے کے برابر تھا۔ اب یہ کمرہ ان کے رات بھر جاری رہنے والے محاصرے کا آپریشنل مرکز بن گیا تھا.

میں نے اپنے کمرے کے دروازے پر گولیاں لگنے کی آواز سنی اور سوچا کہ یہ کمرے میں چھپنے کی مناسب جگہ نہیں ہے۔

میں زمین پر لیٹا اور پلنگ کے نیچے چلا گیا جس کے اوپر میری حفاظت کے لیے گدا موجود تھا۔ میں نے اپنی کلائیوں اور پیروں کی انگلیوں سے پلنگ کو سنبھالتے ہوئے تھام رکھا تھا۔

میں پلنگ کی نیچے سے بہت کم دیکھ پا رہا تھا کیونکہ پلنگ تقریباً دس سینٹی میٹر ہوا میں اٹھا ہوا تھا۔ حملہ آوروں نے میرے کمرے کے تالے پر گولی چلائی اور ہتھوڑے کی مدد سے دروازہ توڑا اور پھر چار افراد میرے کمرے میں گھس آئے۔ ان میں سے ایک فوری طور پر بالکونی کی طرف گیا کیونکہ وہاں کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔

میں نے پستول کی گولی چلنے کی آواز سنی اور سوچا کہ میں اگلے چند لمحوں کے اندر اندر مار دیا جاؤں گا. مجھے اپنے خاندان کا خیال آیا، بچوں کے چہرے اور زندگی کے اچھے اور برے تجربات آنکھوں کے سامنے آ گئے تھے۔

میرے کمرے کا دروازہ کھلا رہا اور حملہ آور سارا وقت اندر باہر آتے جاتے رہے۔ برآمدے میں دوسری جانب چند دیگر پائلٹس اور فـضائی عملہ بھی موجود تھا جن کے ساتھ میں نے کام کیا تھا۔ کبھی میں ان کے مارے جانے سے پہلے ان کی چیخیں سنتا، اور کبھی خاموشی چھا جاتی۔

میرے خیال میں انھوں نے پانچویں منزل پر ہر کمرے کا دروازہ کھولا اور جو بھی انھیں وہاں ملا ان کو ہلاک کر دیا۔ میں نے چیخوں کی اور گولیوں کی آوازیں سنی، وہ لوگوں کو مارتے جاتے اور ہنستے جاتے جیسے وہاں کوئی پارٹی چل رہی ہو۔

صبح تین بجے کے قریب انھوں نے پانچویں منزل پر آگ لگا دی اور بہت دھواں بھر جانے کی باعث وہ وہاں سے چلے گئے۔ اگلے 20-25 منٹ تک کوئی گولی نہیں چلی تب میں نے فیصلہ کیا کہ اب مجھے پلنگ کے نیچے سے نکل آنا چاہیے۔

جب میں باہر آیا میں نے محسوس کیا کہ جب میں کمرے میں موجود دو میں سے ایک پلنگ کے نیچے چھپا ہوا تھا تو انھوں نے دوسرے پلنگ پر گولیاں چلائی اور اس کو اٹھا کر دیکھا کہ کوئی اس کے نیچے چھپا ہوا تو نہیں ہے۔

میں نے سوچا کہ آج میں زندگی میں دوسری مرتبہ موت کے منہ سے بچا ہوں۔

جلد ہی دھواں میرے کمرے میں بھر گیا۔ مجھے اپنے بچاؤ کے لیے کچھ کرنا تھا لہٰذا میں بالکونی کی طرف چلا۔ میں اپنے دائیں جانب بڑی آگ دیکھ سکتا تھا اور مجھے خیال آیا کہ اگر یہ آگ میرے کمرے تک پہنچ گئی تو میں زندہ نہیں بچوں گا۔

میں نے چھت سے کچھ ٹی وی کیبلز کی تاریں لٹکی دیکھیں جو زمین تک جا رہی تھیں۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کو پکڑنا چاہا تاکہ پتہ چل سکے کہ اگر یہ میرا وزن برداشت کر پائیں تو میں ان کو نیچے اترنے کے لیے استعمال کر سکوں۔ مگر اسی لمحے میں نے گولیوں کی آواز سنی جو میرے قریب سے گزر کر گئی تھیں۔ ایک گولی تو بمشکل میرے دائیں بازو سے 20 سینٹی میٹر کے فاصلے سے گزری جبکہ دوسری آدھے میٹر کے فاصلے سے میرے پیچھے شیشے کی کھڑکی میں دو سوراخ کرتی گزری۔

غالباً یہ گولیاں بین الاقوامی سیکورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے کسی سنائپر نے چلائی تھیں، جس نے شاید رات میں دکھائی دینے والے کیمرے کی مدد سے مجھے کمرہ نمبر 522 سے باہر آتے دیکھا تھا اور مجھے دہشت گردوں کا ساتھی سمجھ بیٹھا تھا۔ سنائپر کا نشانہ عموماً خطا نہیں ہوتا لیکن جب اس نے گولی چلائی میں اسی وقت تاریں تھامنے کے لیے لپکا تھا اسی وجہ سے اس کا نشانہ چوک گیا۔

میں نے کمرے کے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔ میں آہستہ آہستہ بنا آواز کیے باتھ روم میں چلا گیا۔ میں نے اپنے سامان سے ناخن کاٹنے والی قینچی اٹھائی اور دوبارہ پلنگ کے نیچے چلا گیا۔ یہاں صرف میرے رینگ کر جانے کی جگہ تھی۔

میں نے اپنے ساتھ دو پانی کی بوتلیں، کمرے کے فرج سے لیا گیا تھوڑا سا دودھ اور ایک ٹی شرٹ رکھ لی تھی۔ میں نے ٹی شرٹ کو چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا اور ان کو اپنے ناک میں ٹھونس لیا تاکہ دھویں سے بچ سکوں۔ میں نے ایک کپڑے کے ٹکڑے پر بہت سا پانی اور دودھ بہا کر اسے گیلا کر دیا اور پھر اسے اپنے منہ پر بطور دہرا فلٹر رکھا لیا۔ یہ وہ تکنیک تھی جو میں نے ایتھنز ایئرپورٹ پر فائر ڈیپارٹمنٹ کی تربیت کے دوران سیکھی تھی۔

جونھی میں پلنگ کے نیچے گھسا، حملہ آور کمرے میں واپس آ گئے۔ ان میں سے ایک حملہ آور پلنگ پر بیٹھ گیا اور بار بار فرش پر تھوکتا رہا۔ وہ دوسرے افراد کو احکامات دے رہا تھا کہ کیا کرنا ہے۔ مجھے آج بھی اس کی آواز یاد ہے۔ پھر وہ باتھ روم میں گیا اور باہر بالکونی میں جا کر کلاشنکوف کے چند میگزین فائر کیے۔ جب فائرنگ رکی تو مکمل خاموشی چھا گئی۔ میں کسی بھی قسم کی آواز پیدا کر کے اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا۔

اس لمحے میں ذہن میں آیا کہ آج میرے مرنے کا دن نہیں ہے۔ میں اس وقت بھی بچ گیا تھا جب کھانے کے لیے گیا۔ اس وقت بھی جب حملہ آور پہلی بار میرے کمرے میں آئے اور بیڈ پر فائر کیا، اور تب بھی جب سنائپر نے مجھ پر گولیاں چلائیں اور اب تو میں مکمل طور پر چھپا ہوا ہوں۔

میں نے سوچا کہ بین الاقوامی سکیورٹی فورسز جلد ہی کنٹرول سنبھال لیں گی، لہٰذا اگر میں یہیں چھپا رہوں تو مجھے کچھ نہیں ہو گا۔

مگر علی الصبح سکیورٹی فورسز نے ٹینک سے کمروں پر گولہ باری شروع کر دی۔ ان کا ہدف میرے ساتھ والا کمرہ 521 تھا مگر وہ دیگر کمروں پر بھی گولے برسا رہے تھے کیونکہ حملہ آور ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور وہ انھیں نشانہ بنا رہے تھے۔

ہر دفعہ جب ٹینک سے گولہ داغا جاتا تو پورا ہوٹل ہل جاتا۔ بعد میں میں نے دیکھا کہ کیا تباہی مچی تھی، ہوٹل کا تمام فرنیچر راکھ ہو گیا تھا اور چھت پر بڑے بڑے سوراخ بن گئے تھے۔ میں نے سوچا کہ میں خوش قسمت ہوں جو دوبارہ زندہ بچ گیا ہوں۔

صبح چھ بجے دوبارہ میرے کمرے کے بالکل باہر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں نے حملہ آوروں کو اپنی الماری سے کچھ کپڑے نکالتے سنا، پھر انھوں نے قالین اٹھائے اور ان پر بہت سا ڈیزل چھڑک کر آگ لگا دی۔ سیکورٹی فورسز نے ان کا بنایا گیا آپریشنل کمرہ 521 بھی جلا دیا تھا۔

آگ میرے بہت قریب تھی اور میں جانتا تھا کہ میں گاڑھے دھویں کے باعث شاید 15-20 منٹ، یا زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے سے زیادہ زندہ رہ نہیں پاؤں گا۔ اس لیے میں زمین کے ساتھ لیٹ کر سانس لینے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ کھلی بالکونی سے آنے والی ٹھنڈی ہوا سے آکسیجن حاصل کر سکوں۔

دھویں کی بو عام دھویں جیسی نہیں تھی جیسی کہ لکڑی یا قالین کے جلنے سے آتی ہے. یہ بدبو انسانی جسم کے جلنے کی بدبو تھی۔

میں نے کافی دیر سے کسی قسم کی آواز نہیں سنی تھی اس لیے میں نے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔ مگر جیسے ہی میں باہر نکلا تو میں نے کھڑکیوں کی شیشے ٹوٹنے کی آواز سنی جو 521 نمبر کمرے سے آ رہی تھی اور پھر یہ میرے کمرے میں بھی ہونے لگا اور میں نے جلدی سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی۔

بین الاقوامی سکیورٹی فورسز کے اہلکار باہر سے پریشر کے ساتھ پانی پھینک رہے تھے اور کھڑکیاں توڑ رہے تھے تاکہ آگ کو بجھایا جا سکے۔ آگ پر فوری قابو پا لیا گیا مگر میں تب تک بغیر دروازے اور کھڑکی کے کمرے میں بہت زیادہ ٹھنڈے پانی سے پورا بھیگ چکا تھا۔ اس وقت کابل کا درجہ حرارت منفی تین ڈگری تھا۔ ایسے میں میرا جسم جلد ہی ہائپرتھرمیا (حرارت کی کمی) کا شکار ہو سکتا تھا۔

صبح ساڑھے نو بجے میں نے سیڑھیوں کے قریب سے برآمدے میں فائرنگ کی آواز سنی جو پہلی فائرنگ سے مختلف تھی تو میں نے اندازہ لگایا کہ یقیناً سکیورٹی فورسز کی جانب سے کی گئی ہے۔ 521 نمبر کمرے سے ایک اسلحہ بردار نے کلاشنکوف سے اس کا جواب دیا۔

ساڑھے نو بجے سے 11 بجے کے درمیان سکیورٹی فورسز نے متعدد دستی بم پھینکے جن کے لڑھکنے کی آواز میں سن سکتا تھا۔ ان میں سے چند 521 نمبر کمرے میں پھٹے جبکہ کچھ میرے کمرے کے باہر برآمدے میں پھٹے۔ میرے پاس اب بھی ایک صندوق ہے جس کو دستی بم سے نقصان پہنچا اور میں نے اسے اس واقعے کی یاد میں سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔

ساڑھے 11 بجے کے قریب مجھے ایسا لگا کہ ساتھ والے کمرے میں صرف ایک حملہ آور بچا ہے اور اس کے پاس اسلحہ بھی ختم ہو گیا کیونکہ میں نے اس کے فائرنگ کی آواز کلاشنکوف سے پستول میں تبدیل ہوتی سنی تھی۔ اس نے ویلڈنگ والے آلے سے آگ جلانے کی کوشش کی مگر جلد ہی اس کی گیس ختم ہو گئی تھی۔

اور وہ کچھ ہی دیر میں وہاں سے چلا گیا۔ میں اس وقت اتنا خوش اور پرجوش تھا کہ میں نے اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا تھا کہ کہیں میں خوشی کے مارے ہنسنا نہ شروع کر دوں۔

میں بہت تھک چکا تھا اور گذشتہ 35-40 گھنٹوں سے سویا نہیں تھا کیونکہ اس رات سے پہلے میں جہاز اڑا کر آیا تھا۔

جلد ہی میں نے چند آوازیں سنیں اور لوگوں کو اپنے کمرے کی طرف آتے سنا۔ لیکن میں دیکھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ اچھے ہیں یا برے۔ تقریباً پونے 12 بجے کے قریب کسی نے افغانی لہجے میں پولیس پولیس پکارا جس کے چند سیکنڈ بعد ہی میں نے چند افراد کو انگریزی لہجے میں پولیس پکارتے سنا۔ میں نے چیخنا شروع کر دیا اور پلنگ سے رینگتا ہوا باہر آ گیا۔ پلنگ کے اندر بہت دیر تک ایک ہی جانب چھپے رہنے سے میرے سینے میں درد ہو رہا تھا اور میں بمشکل سانس لے پا رہا تھا۔ ایسے میں باہر نکلنا مشکل تھا۔

چار کمانڈوز نے مجھ پر بندوقیں تان دیں اور چلانے لگے، ’نیچے جھکو نیچے جھکو۔‘ آگ کے دھویں کی وجہ سے میرا جسم کالا ہو گیا تھا اور وہ میرا چہرہ نہیں دیکھ سکے تھے۔

ان میں سے ایک نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا، ’یہ تو بھوت ہے۔‘ مجھے بہت سردی لگ رہی تھی لیکن میں ان کو یہ کہنے میں کامیاب ہو گیا: ’گولی مت چلانا، میں کام ایئر کا کپتان ہوں۔‘

انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کب سے یہاں پر ہوں، میں نے ان کو بتایا کہ میں سارا وقت یہیں موجود تھا۔ انھوں نے پلنگ کی طرف دیکھا اور مجھ سے پوچھا کہ میں یہاں بچنے میں کیسے کامیاب ہو گیا۔

ان میں سے ایک نے کہا: ’اچھا، ہم تمھیں نیچے لے جاتے ہیں لیکن جانے سے پہلے ہم تمھارے ساتھ ایک تصویر لینا چاہیں گے۔‘ اور میں نے بھی کہا کہ میں بھی اس لمحے کی یاد میں ایک تصویر لینا چاہتا ہوں۔

وہ تمام زندہ بچ جانے والوں کو کابل کی برطانوی بیس پر لے گئے۔ میں ہوٹل سے نکلنے والا آخری شخص تھا۔ جیسے ہی میں نے اپنے دوست مائیکل کو وہاں دیکھا میں بہت خوش ہوا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا، مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں ہنسوں یا روؤں۔ میرے جذبات ملے جلے تھے۔ میں نے اپنے بہت سے پائلٹوں، انجینیئروں اور آپریشنل عملے کے ساتھی کھو دیے تھے جن کے ساتھ میں نے کام کیا تھا۔

وزارت خارجہ نے میرے خاندان کو اطلاع دے دی تھی کہ انھوں نے تمام بچ جانے والوں کو ہوٹل سے نکال لیا ہے مگر وہ مجھے تلاش نہیں کر پائے اور میرے خاندان نے سوچا تھا کہ شاید میں زندہ نہیں بچ سکا۔ آپ ان کی خوشی کا اندازہ نہیں لگا سکتے جب تین چار گھنٹے بعد میں نے ان کو کال کی اور بتایا کہ میں خیریت سے ہوں۔

میں ہمیشہ سے مثبت سوچ کا حامل انسان تھا مگر اب میں اور بھی زیادہ مثبت ہوں۔ اپنی زندگی کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہوتا ہوں اور جو میرے پاس ہے اس کا شکر ادا کرتا ہوں۔ زندگی ایک تحفہ ہے اور جب تک یہ ہے، ہمیں اسے بھرپور طریقے سے گزارنا چاہیے۔

آپ جانتے ہیں کہ یونان کے ساحل پر دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے میں نے لوگوں کو اپنے معاشی حالات کے سبب شکایت کرتے سنا ہے۔ میں کہتا ہوں اپنی زندگی اور صحت سے خوش رہو، تمھارے پاس کھانے کو اچھا کھانا، پینے کو بہترین مشروب اور دوست موجود ہیں، ہم آزاد ہیں، ہنستے مسکراتے ہیں اور زندگی میں کیا چاہیے۔

زندگی بہت حسین ہے اس کو کام، ذہنی تناؤ اور بری باتوں میں ضائع مت کریں بلکہ اس کو اپنے ارد گرد لوگوں کے ساتھ اچھی یادیں بنانے میں صرف کریں۔ اس کا صحیح احساس مجھے کابل واقعے کے بعد ہوا کہ زندگی بہت ہی حسین ہے اور میں اب اس کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے