رحمان بابا کے آنسو

پشتو زبان کے صوفی شاعر رحمان بابا نے اپنی زندگی میں اتنی خونریزی دیکھی کہ ایک دفعہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ لوگ کہتے ہیں قیامت جمعہ کے دن برپا ہو گی لیکن میں نے تواسی دور میں ہفتہ کے دن قیامت کا منظر دیکھ لیا۔رحمان بابا کا تعلق مہمند قبیلے سے تھا ۔کابل کے صوبہ دار ناصر خان نے جمال خان نامی ایک ظالم شخص کو مہمند کے علاقے میں نگران مقرر کر رکھا تھا۔ وہ مغل دربار کی پشت پناہی سے اپنے ہم قبیلہ لوگوں پر ظلم کرتا تھا ۔آخر کار مقامی لوگ اس کے ظلم سے تنگ آ گئے اور انہوں نے جمال خان کے خلاف بغاوت کر دی۔ اس کے گھر پر حملہ کر دیا اور اس کے تمام اہلخانہ کو آگ میں جلا دیا۔ رحمان بابا نے اس وحشت و درندگی پر اپنی شاعری میں آنسو بہائے ۔ایک اور شعر میں رحمان بابا نے کہا کہ ظالم حکمرانوں کے باعث گور، آگ اور پشاور تینوں ایک نظر آتے ہیں ۔رحمان بابا کے پشتو میں اشعار کا یہ ترجمہ میجر ریٹائرڈ محمد عامر کا ایک انٹرویو پڑھتے ہوئے یاد آ رہا تھا ۔ میجر عامر ایک چلتی پھرتی تاریخ ہیں ۔انکی سب سے بڑی خوبی انکی فکری دیانت اور پختون روایات کی پاسبانی ہے ۔ پاکستان کے ساتھ انکی وفاداری اٹوٹ ہے لیکن انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان بچانے کیلئے جمہوریت کو قربان کر دینا چاہئے۔1988ء میں وہ آئی ایس آئی میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔انکی تمام توجہ پاکستان کے دشمنوں پر مرکوز تھی۔ انہیں پتہ چلا کہ ان کے کچھ سینئر افسران اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے کچھ سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر رہے ہیں تو انہوں نے اپنے سینئر افسران سے کہا کہ ہمیں سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے لیکن ان کی کسی نے نہیں سنی۔ 18اکتوبر 2015ء کو میجر عامر نے پشاور سے شائع ہونے والے اخبار ’’آج‘‘ میں کچھ ایسے انکشافات کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلی کئی صدیوں سے کابل اور پشاور کے درمیان بھڑکنے والی آگ کو جب بھی کسی نے بجھانے کی کوشش کی تو اسے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ہر دور میں طاقت سے مرعوب فکری بھکاریوں اور دانش فروشوں نے اپنوں کے ساتھ ڈبل گیم کرکے غیروں کو خوش کیا اور آگ بجھانے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ۔میجر عامر اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ جب افغانستان کے حکمران سردار دائود نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ اختلافات کے خاتمے پر آمادگی ظاہر کی تو انہیں قتل کر دیا گیا۔ نور محمد ترکئی نے ویانا میں جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی تو انہیں بھی قتل کر دیا گیا۔ حفیظ اللہ امین پاکستان کے قریب آئے تو انہیں بھی موت کی نیند سلا دیا گیا۔ 1988ء کے اوائل میں جنرل ضیاءالحق نے آئی ایس آئی کے ذریعہ افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کے ساتھ بات چیت کے راستے تلاش کرنے شروع کئے ۔میجر عامر نے سردار دائود کے ایک قریبی رشتہ دار کے ذریعہ ڈاکٹر نجیب اللہ کو پاکستان کی طرف سے دوستی کا پیغام بھیجا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ سے کہا گیا کہ اگر وہ اقتدار چھوڑ دے تو اسے افغانستان کی نئی حکومت میں شامل کر لیا جائے گا۔ 13اگست 1988ء کو ڈاکٹر نجیب اللہ نے اپنے جوابی پیغام میں کہا کہ اگر جنرل ضیاءالحق پاکستان میں اقتدار چھوڑ دیں تو میں افغانستان کا اقتدار چھوڑ دوں گا۔ یہ سن کر جنرل ضیاء الحق نے جنرل حمید گل سے کہا کہ نجیب کو پیغام بھیج دو مجھے اس کی شرط منظور ہے۔ چار دن بعد 17اگست 1988ء کو جنرل ضیاءالحق کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا۔ افغانستان اور پاکستان کو قریب لانے کی ایک اور کوشش ناکام بنا دی گئی۔میجر عامر کہتے ہیں کہ کسی کو اچھا لگے یا برا لگے لیکن سچ یہ ہے کہ صرف افغان طالبان کے دور میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف سازشیں بند ہوئی تھیں لیکن طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد افغانستان ایک دفعہ پھر پاکستان کیخلاف سازشوں کا مرکز بن گیا۔ میجر عامر کی باتیں بہت سے لوگوں کو بری لگتی ہیں لیکن اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ جب بھی پاکستان اور افغانستان کو قریب لانے کی کوشش کی جائے گی تو کہیں نہ کہیں کوئی بم دھماکہ ہو جائے گا اور کوئی نہ کوئی طیارہ پھٹ جائے گا ۔ کچھ سال پہلے تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ افغانستان اور پاکستان کو قریب لا سکتی ہیں ۔27دسمبر 2007ء کو ایک ہی دن ایک ہی شہر راولپنڈی میں محترمہ بےنظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ نواز شریف پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو قاتلوں کا نشانہ بن گئیں لیکن نواز شریف بچ نکلے۔ محترمہ کی شہادت کے باعث نواز شریف پر حملے کو اہمیت نہ دی گئی۔ آج نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم ہیں اور افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کےساتھ مل کر خطے میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرات بھی شروع کرائے لیکن انکی کوشش تعطل کا شکار ہو گئی۔اب کہا جا رہا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے ۔ پاکستان کے دشمن صرف نواز شریف کو نہیں بلکہ عمران خان کو بھی سیاسی منظر سے ہٹانا چاہتے ہیں ۔جس قسم کی خبریں پنجاب کے محکمہ داخلہ کے پاس نواز شریف کے بارے میں ہیں ویسی ہی خبریں خیبرپختونخوا کے محکمہ داخلہ کے پاس عمران خان اور پرویز خٹک کے بارے میں ہیں۔ قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے نواز شریف کو بھارتی خفیہ ادارے کا ٹارگٹ قرار دیکر یہ مت سمجھیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا ۔ ہم جانتے ہیں کہ صرف نواز شریف نہیں بلکہ عمران خان سمیت کئی سیاسی شخصیات دشمنوں کا ٹارگٹ ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی بتا دیا گیا تھا کہ آپ پر حملہ ہونے والا ہے لیکن ح
ملہ روکا نہ گیا۔اصل کارنامہ یہ نہیں کہ آپ نے پہلے ہی بتا دیا کہ نواز شریف یا عمران خان پر حملہ ہونے والا ہے ۔ اصل کارنامہ یہ ہو گا کہ آپ حملے کو روکیں اور خدانخواستہ حملہ نہ رک سکے تو یہ کہہ کر جان نہ چھڑا لیں کہ ہم نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا لیکن مقتول کی بے احتیاطی قتل کا باعث بن گئی۔ ایسی چالاکیوں پر سازش کا الزام بھی لگ سکتا ہے ۔پاکستان ،افغانستان اور بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کو اصل خطرہ بڑھتے ہوئے انتہا پسند رویوں سے ہے۔ اگر بھارت میں گائے کا گوشت کھانے کے شبے میں ہندوئوں نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تو پاکستان میں بھی فرقہ واریت کے نام پر مسلمان، مسلمان کو قتل کر رہا ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ بھارت میں حکمران جماعت انتہا پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔پاکستان سے شکوے شکایت رکھنے والے افغان دوستوں سے گزارش ہے کہ آپ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات ضرور رکھیں لیکن بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی اور اس کی اتحادی آر ایس ایس کی تاریخ ضرور پڑھ لیں ۔ بی جے پی کی سوچ دراصل شُدھی تحریک اور ہندو سنگھٹن تحریک کا تسلسل ہے جس کا مقصد برصغیر پاک وہند میں گائے ذبح کرنے پر پابندی لگانا،تمام مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانا اور آخر میں افغانستان پر قبضہ کرکے وہاں سے اسلام مٹانا ہے۔ہندو انتہا پسندوں کے پاکستان کے بارے میں خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لیکن وہ افغانستان کے بارے میں اپنے خبث باطن کا کھل کر اظہار نہیں کرتے ۔ شُدھی تحریک کا مقصد اس خطے میں ہر اس مسلمان کو ختم کر دینا ہے جو گائے کا گوشت کھاتا ہے ۔ اس تحریک نے اسپین کو اپنا نمونہ بنایا تھا جہاں مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنایا گیا۔شُدھی تحریک کے بانی برصغیر کے تمام مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو ہندو بنانا چاہتے تھے اور آج بی جے پی کا خفیہ ایجنڈا بھی یہی ہے جس طرح تمام مسلمان انتہا پسند نہیں ہوتے اسی طرح تمام ہندو بھی انتہا پسند نہیں اور اسی لئے بی جے پی مسلمانوں سے زیادہ ہندوئوں کیلئے خطرہ بن رہی ہے ۔ بی جے پی پاکستان اور افغانستان کو کبھی قریب نہیں آنے دے گی۔ پاکستان اور افغانستان کی سیاسی قیادت کو آپس میں لڑنے کی بجائے ایک دوسرے کے قریب آنا چاہئے اور رحمان بابا کی شاعری سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی سرزمین کو جہنم نہیں بنانا چاہئے ۔رحمان بابا کئی صدیوں سے آنسو بہا رہا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے