مسلم معاشروں میں جمود کیوں ہے؟

گلبدین حکمتیار نے افغانستان میں صدارت کا الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ مسلم معاشروں کے لیے اس فیصلے میں غوور وفکر کا بہت سارا سامان موجود ہے۔ یہ اب ہمارے اوپر منحصر ہے ہم اس فیصلے سے سبق حاصل کریں یا عبرت ۔

گلبدین حکمتیار 1993 میں افغانستان کے وزیر اعظم تھے۔ اب 2019 ہے ۔ 26 سال گزر گئے۔ ان چھبیس سالوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ، سوچوں کے محور تبدیل ہو گئے ، قیادتیں آئیں اور چلی گئیں ، دنیا بھر میں نئے لوگ نئے رجحانات کے ساتھ سامنے آئے اور قیادت پر فائز ہو گئے ۔ افغانستان میں مگر آج چھبیس سال بعد وہی صاحب صدر مملکت بننا چاہتے ہیں جنہوں نے ہوس اقتدار میں احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر کابل کو کھنڈر بنا دیا ۔ سوویت یونین جو دشمن تھا، اس نے ہنستا بستا کابل چھوڑا اور یہ جو اپنے تھے انہوں نے کابل کی اینٹ کی اینٹ بجا دی ۔

ہم سادہ لوح پاکستانی تو ان بزرگان کی پگڑیوں کے پیچ و خم میں اسلامی انقلاب برآمد کرتے رہے لیکن کابل میں انہوں نے اتنا لہو بہایا کہ قائد انقلاب کو وہاں ’’ کابل کے قصاب ‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا ۔ امریکہ میں جارج بش کے بعد بش جونیئر بھی آ کر چلا گیا ، کلنٹن اور اوباما بھی فعل ماضی ہو گئے لیکن افغانستان میں آج بھی وہی گلبدین حکمتیار۔ کوئی ارتقاء نہیں ، کوئی نئی قیادت نہیں ۔ سماج جب اس خوفناک حد تک منجمد ہو جائے تو اس میں اور جوہڑ میں آ خر فرق ہی کتنا رہتا ہے؟ مسلم معاشروں کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہ منجمد ہو چکے ہیں ۔ چند ایک مستثنیات کے ساتھ ،نہ کوئی فکر تازہ نہ کہیں نئی قیادت ۔ جوہڑ ہیں جو گویا تعفن دے رہے ہیں۔

تازہ فکر اور ندرت خیال کو مسلم معاشروں سے دانستہ طور پر دور رکھا گیا ہے۔ کہیں بادشاہتیں ہیں اور ان کی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ اپنی فکری صلاحیتوں سے دست بردار ہو کر حیوان کی طرح بس اپنے جسمانی تقاضے پورے کرتا رہا اور بادشاہ سلامت کے اقبال کی بلندی کے لیے دعا گو رہے۔ عشروں پہ عشرے گزرتے گئے اور فکر کی دنیا میں انقلاب آ گئے لیکن بادشاہتوں کی بقاء کے تقاضے پورے کرنے کے لیے مسلم معاشروں کو غار میں دھکیل کر باہر پتھر رکھ دیے گئے ۔ اندر کی خبر باہر نہ جا سکے اور باہر کے ماحول کے اثرات اندر نہ آ سکیں ۔ دنیا میں شعور اجتماعی نے بروئے کار آ کر ایسے ایسے فیصلے کر دیے کہ دنیا کے نقشے تک بدل گئے لیکن مسلم معاشروں کے گلے میں وہی ایک خاندان کی حکمرانی کا طوق موجود رہا ، ندرت خیال اور فکر تازہ اب کہاں سے آئے؟

پاکستان ہی کو دیکھ لیجیے ۔ اگست 1973 میں ذولفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم بنے اور آج تک اس منجمد معاشرے میں بھٹو زندہ ہے ۔ 46 سال بعد آج بھی بھٹو کے نام پر سیاست ہو رہی ہے اور زرداری کے صاحبزادے اپنے نام کے ساتھ بھٹو لگا کر سیاست فرما رہے ہیں ۔ اپریل 1985 میں نواز شریف وزیر اعلی پنجاب بنے آج تینتیس سال گزر گئے کوئی نئی قیادت سامنے نہیں آ سکی ۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بیانیہ تو صرف میاں نواز شریف کے پاس موجود ہے ۔ سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں اور پارلیمان بھی لیکن کسی کو اجازت نہیں وہ قائد محترم کے آگے سر اٹھا سکے۔ سیاسی جماعت کو اپنی جا گیر بنا دیا گیا ہے ۔ یہ تماشا بھی صرف ہمارے ہاں ہو سکتا ہے کہ وصیت میں سیاسی جماعت کی قیادت عطا فرما دی جائے اور عمر رسیدہ رہنما غلاموں کی طرح سر جھکائے دربار میں وفاداری کے حلف اٹھانے قطار اندر قطار موجود ہوں ۔نہ نئی قیادت سامنے آنے کی اجازت دی جاتی ہے نہ خیال تازہ کو گزرنے دیا جاتا ہے ۔ وہی چہرے وہی وچ وہی طرز فکر۔۔۔ نتیجہ منطقی تھا : سماج جوہڑ بنا اور بو آنے لگی۔

مغرب میں ایک عشرے کے اندر ایک سیاسی قیادت فعل ماضی بن چکی ہوتی ہے اور نیا خون نئی فکر اور جوان جذبوں کے ساتھ میدان عمل میں قیادت سنبھالنے کے لیے موجود ہوتا ہے ۔ مسلم معاشروں میں چالیس چالیس سال ایک ہی صاحب ناگزیر بن کر مسلط رہتے ہیں اور اہل دربار پکار اٹھتے ہیں : ’’ میاں صاحب میں آپ کا کتے سے زیادہ وفادار ہوں‘‘۔ کبھی خود مسند سے اعلان ہوتا ہے : بھٹوز حکومت کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔ امریکہ میں دو جماعتی نظام ہے ۔ کبھی ریپبلکن پارٹی جیت کر آتی ہے تو کبھی ڈیموکریٹک پارٹی ۔ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے ۔ ہر جگہ اس کی پالیسیاں زیر بحث ہیں لیکن اگر میں آپ سے پوچھوں ان دونوں جماعتوں کے سربراہوں کا نام بتائیں تو کیا آپ بتا پائیں گے ؟ کیا وہاں ممکن ہے کہ ڈیمو کریٹک پارٹی یا ری پبلکن کی سربراہی وصیت میں صاحبزادے کو دے دی جائے یا چھوٹے بھائی ، بھتیجے اور بیٹی کو سونپ دی جائے؟

سوال یہ ہے کہ مغرب میں یہ ارتقاء کیوں ہوا اور مسلمان معاشرے اس سے محروم کیوں رہ گئے؟ میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہ جمہوری عمل ہے۔ جہاں جمہوری عمل جاری رہتا ہے وہاں سماج ہر پہلو سے ارتقاء کے مراحل سے گزرتے ہوئے ترقی کرتا ہے اور جہاں یہ عمل روک دیا جاتا ہے وہاں سماج بھی منجمد ہو جاتا ہے۔افغانستان میں امریکہ نے فیصلہ ٹھونسنا چاہا نتیجہ یہ نکلا کہ عشروں کے بعد آج بھی وہی گلبدین ہے اور وہی طالبان ۔ سماج اپنا سفر وہیں سے شروع کرتا ہے جہاں سیاسے روک دیا گیا ہو۔ یہی کچھ پاکستان میں ۔ بھٹو کو پھانسی ہوئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے ۔ پرویز مشرف آئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک عشرے بعد پھر وہی نواز شریف تھا اور وہی پاکستان ۔ سفر وہیں سے شروع ہوا جہاں بارہ اکتوبر کو ختم ہوا تھا۔ حیات اجتماعی کے دس سال رائیگاں گئے۔

آصف زرداری کی حکومت ہمارے سامنے ہے ۔ اس بدترین حکومت کو اگر غیر فطری طریقے سے رخصت کیا گیا ہوتا تو زرداری آج اتنے قدآور ہو گئے ہوتے کہ سنبھالے نہ سنبھلتے۔ بجا کہ قوم کو ان کا دور بھگتنا پرا مگر جمہوری عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پیپلز پارٹی سمٹ کر رہ گئی ہے۔ بھٹو کو پھانسی نہ دی گئی ہوتی تو بھٹو بھی آج زندہ نہ ہوتا ۔ بارہ اکتوبر نہ ہوا ہوتا تو نواز شریف بھی پیچھے رہ گئے ہوتے اور سماج آگے بڑھ گیا ہوتا ۔ معاملہ یہ ہے کہ جب اور جہاں کچھ غیر فطری کام ہوتا ہے حیات اجتماعی کا سفر وہیں تھم جاتا ہے ۔ ترکی کی استثناء کے ساتھ اکثر مسلم معاشروں میں یہ سفر تھم چکا ہے اور وہ جوہڑ بن چکے ہیں ۔ ترکی میں یہ سفر اپنے فطری طریقے سے جاری ہے اور نتائج آپ کے سامنے ہیں ۔ ترکی کا سماج ترقی کی راہ پر دوڑے جا رہا ہے۔ پاکستان میں کچھ عرصے سے جیسا بھی تھا سفر جاری رہا اور بات آگے بڑھ کر عمران خان تک آ گئی۔ یہ سفر جاری رہا تو سماجی ارتقاء ہو گا اور بات عمران سے آگے بڑھ جائے گی ۔ یہ سفر جاری رہنا چاہیے۔ آج کے دور میںیہ صرف جمہوریت ہے جو تازہ خیال، نئے خون اور ارتقاء کی ضمانت دیتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے