ساہیوال واقعہ: 13 سالہ اریبہ کو قریب سے گولیاں ماری گئیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ

سانحہ ساہیوال میں مارے گئے افراد کی پوسٹ مارٹم اور زخمیوں کی میڈیکل رپورٹ میں بڑے انکشافات ہوئے ہیں جنہوں نے پورے واقعے میں پولیس کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔

مقتولین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سانحہ ساہیوال میں زخمی ہونے والی 6 سالہ منیبہ کے ہاتھ میں شیشہ نہیں بلکہ گولی لگی تھی جو اس کے دائیں ہاتھ میں سامنے سے لگی اور پار ہو گئی۔

زخمی بچوں کی میڈیکل رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ واقعے میں زخمی ہونے والے ننھے عمیر کو لگنے والی گولی داہنی ران کو چیرتی ہوئی دوسری جانب سے نکل گئی۔

رپورٹ کے مطابق واقعے میں فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی 13 سال کی اریبہ کو 6 گولیاں لگیں، پشت کی جانب سے سینے کی دائیں جانب 9 سینٹی میٹر کے ایریا میں 4 گولیاں پیوست ہوئیں جب کہ ایک گولی پیٹ کے درمیان اور ایک ٹانگ پر لگی۔

رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ اریبہ کو اتنی قریب سے گولیاں ماری گئیں کہ اس کی جلد بھی ہلکی سی جل گئی اور گولیاں لگنے سے اریبہ کی پسلیاں بھی ٹوٹ گئی تھیں۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بچوں کی والدہ نبیلہ کو 4 گولیاں لگیں، سر میں لگنے والی گولی آرپار ہو گئی اور خاتون کا بھیجا باہر آگیا۔

رپورٹ کے مطابق مقتول محمد خلیل کو 11 گولیاں لگیں اور ایک گولی سر میں بھی لگی جب کہ خلیل کو دائیں ہاتھ کے قریب سے گولی لگی جس سے جلد بھی جلی۔

کار ڈرائیور ذیشان کو 13 گولیاں لگیں، سر میں لگنے والی گولی سے ہڈیاں باہر آگئیں اور گلے پر دائیں جانب سے لگی گولی کی جگہ پر آنکھ جیسا زخم بن گیا، باقی گولیاں جسم کے دوسرے حصوں پر لگیں۔

19 جنوری کی سہہ پہر سی ٹی ڈی نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک کار پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں اس میں سوار 4 افراد جاں بحق اور تین بچے زخمی ہوگئے۔

واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا جب کہ بعد ازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔

[pullquote]سانحہ ساہیوال: خلیل کی فیملی اور وکیل کو دھمکیاں ملنے کا انکشاف[/pullquote]

لاہور: سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے تعاون پر عینی شاہدین کی جانب سے عدم دلچسپی سامنے آئی ہے۔

پولیس کے مطابق سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے سلسلے میں مساجد میں اعلانات اور علاقے میں اشتہار لگانے کے باوجود عینی شاہدین تھانہ یوسف والا نہیں پہنچے جس کے باعث مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے پیر کے روز صرف 2 عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کیے۔

جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی اعجاز شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واقعے سے متعلق شواہد کی تلاش جاری ہے اور جو کوئی سانحے سے متعلق بیان یا ویڈیوزد ینا چاہے وہ دے سکتا ہے۔

سانحہ ساہیوال کی کئی وڈیوز سامنے آنے کے بعد بھی جے آئی ٹی کی ٹھوس ثبوتوں کی تلاش جاری ہے اور آج ایک بار پھر ساہیوال کے تھانہ یوسف والا میں گواہوں کو بلایا گیا۔

تین بار بیان ریکارڈ کرانے والے عینی شاہدین بھی بار بار طلبی سے پریشان اور تحقیقات سے ہی مایوس ہونے لگے ہیں اور عینی شاہدین نے جے آئی ٹی کے کردار پر ہی سوال اٹھا دیئے ہیں۔

[pullquote]متاثرہ خاندان کے وکیل کی پریس کانفرنس[/pullquote]

دوسری جانب مقتول خلیل کے خاندان کے وکیل شہباز بخاری نے لاہور میں پریس کانفرنس کی اور سی ڈی ٹی کے افسران پر اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کا الزام لگایا۔

متاثرہ خاندان کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی اب تک ہونے والی تفتیش کے بارے میں آگاہ نہیں کررہی، خلیل کی فیملی اور مجھے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

وکیل کا کہنا ہے کہ لواحقین کی سیکیورٹی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کریں گے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے ارکان نے بھی سانحہ ساہیوال کی تحقیقات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے