کیا کشمیر’بارگین پوائنٹ’ بن رہا ہے؟

دنیابھر میں ظاہر ہونے والی تبدیلیوں اور مسائل کی بنیاد میں کہیں نہ کہیں معاشی اور اقتصادی معاملات کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے اور ان کو حل کرنے کے لیے بھی معاشی عنصر یا مفادات سے کام لیاجاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کمزورتخت برطانیہ نے جب برصغیر چھوڑا تو کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوگیااور اب علاقے میں پروان چڑھتا ایک اقتصادی منصوبہ اسے ایک نئے مرحلے کی طرف لے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔اس کے ساتھ اس خطے پر علاقائی اور عالمی طاقتوں کی دلچسپیاں بھی موجود ہیں ۔ ان دلچسپیوں کی وجہ اس خطے میں کئی طاقتورممالک کے اقتصادی و معاشی مفادات ہی ہیں۔

اس وقت جنوبی ایشیا میں دو بڑے مسئلے افغانستان اور کشمیر ہیں، جن میں سے ایک (افغانستان) پر دنیا کی نظریں تو مرکوزہیں ہی لیکن دوسرا مسئلہ(کشمیر) بھی علاقائی طاقتوں کی تجارتی پالیسیوں کے پیش نظر انتہائی اہم پوزیشن حاصل کر چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر چھ دہائیوں تک جنوبی ایشیا کے بڑے مسئلے کے طور پر جانا جاتا رہا اور اب بھی پاکستان میں اسے ایک بڑا مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے تاہم ایک عرصے سے دنیا کے نزدیک کشمیر کے بجائے جنوبی ایشیا کا بڑا مسئلہ افغانستان رہا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ وہاں سے انخلا کا رستہ تلاش کر رہا ہے اور اس کے ساتھ یہ خواہش بھی رکھتا ہے کہ ان کی عملداری قائم رہے یا نہ رہے ،یہ سرزمین البتہ کسی بھی طرح مغرب کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے اور اس کیلئے اسے پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کو افغانستان میں ایک مرتبہ پھر سے بڑا کردار ملنے کے امکانات واضح ہو چکے ہیں ۔

حالیہ پیش رفت(طالبان اور امریکہ کے درمیان کامیاب مذاکرات) کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے (18ماہ میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے معائدے)کے بعد مغرب اور بالخصوص امریکہ کو اس سرزمین کے’ غلط‘ استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی صرف اور صرف پاکستان ہی کروا سکتا ہے (جس کا اعتراف ٹرمپ کے بدلتے بیانات اور خلیل زلمے کا پاکستان کیلئے یکدم نرم رویہ اور طالبان سے مذاکرات کیلئے پاکستان میں قیام ہے)اور اس ضمن میں پاکستان کو جو ایک بڑا کردار مل رہا ہے اس کی ابتدا پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر آہنی باڑ لگا کر کی جارہی ہے۔ 2800 کلومیٹر لمبی سرحد پر باڑ لگانا اور اس کے بعد کے کئی مراحل طے کرنے کیلئے افرادی قوت اور بھاری وسائل درکار ہوں گے جو بنا کسی سپورٹ کے نہیں چل سکتے۔ یہی کردار نبھانے کیلئے مغربی دنیا اور امریکا پاکستان کو امداد مہیا کریں گے۔ افغانستان میں مغربی دنیا کے ساتھ علاقائی دلچسپی بھی برقرار ہے کیونکہ جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا سے ملانے کیلئے رستہ افغانستان سے ہو کر گزرتا ہے اور علاقے کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کو اس رستے وسطی ایشیا تک رسائی درکار ہے اور یہ رسائی پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے علاقائی اور مغربی طاقتوں کی مشترکہ طور پر امیدیں پاکستان کے ساتھ وابستہ ہوں گی کہ کسی طرح افغانستان میں امن قائم رکھ سکے ۔ ساتھ ہی علاقائی طاقتوں کی امن میں دلچسپی اس لیے بھی ہے کہ تجارت میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

بھارت کو تو پاکستان کے ساتھ تجارتی معائدے کسی لین دین کی بنیاد پر کرنے ہونے گے تاہم چین نے خطے میں ون بیلٹ ون روڈ (OBOR)منصوبہ (پاک چین اقتصادی راہدری جس کا اہم حصہ ہے)پر کام شروع کر رکھا ہے اور بھارت کو بھی اس کا حصہ بننے کی دعوت بارہا دی گئی ہے ۔ بھارت اس منصوبے کا حصہ بنے بغیرزمینی راستوں سے وسطی ایشیا تک رسائی کسی صورت حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی چین کے ساتھ زمینی تجارت کا کوئی سلسلہ بنا سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں بھارت کو بھی مجبورا سی پیک کا حصہ بننا ہو گا ۔ اس رستے سے بھارت ، افغانستان سے فقط350 کلومیٹر کے زمینی فاصلے سے مل سکتا ہے اور اسی طرح بھارت اور چین کی سالانہ 250ملین ڈالر کی تجارت بھی پاکستان کے رستے ہو سکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پاک بھارت سالانہ تجارت 48 ملین ڈالر تک بڑھ سکتی ہے جو ابھی صرف دو ملین ڈالر سالانہ ہے۔

اس سارے نئے گٹھ جوڑ میں پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اہمیت کی حامل ہے اور اس کے ساتھ متنازع ریاست جموں کشمیرکی ایک اکائی گلگت بلتستان کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ چین کے ساتھ ملانے کا زمینی راستہ گلگت سے ہو کر گزرتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ معاشی محرکات کے زیر اثر بننے والی نئی سیاسی نقشہ بندی میں کشمیر ہر لحاظ سے اہم ہے اور ہموار معاشی سرگرمیوں کے لیے خطے میں امن کا راستہ کشمیر ہی سے ہو کر گزرے گا۔

افغانستان میں پاکستان کو ملنے والے ممکنہ کردار اور بھارت اور چین کی اقتصادی اور تجارتی دلچسپی تنازع کشمیر کے حل کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ کیونکہ پاکستان اور کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کی اہمیت کے تناظر میں علاقائی طاقتوں اور عالمی طاقتوں سے کشمیر مسئلے پر بارگین کر سکتا ہے۔(گو کہ پاکستان کو اس کیلئے اپنے ستر سالہ موقف سے پیچھے ہٹنا ہو گا اور جس مسئلے کو آج تک کبھی زمینی ، کبھی مذہبی اور کبھی انسانی حقوق کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا اسے خالصتا معاشی بنیادوں پر دیکھا جائے گا اور عملاً کشمیر کے تنازع کے حل کی جانب بڑھنا ہو گا) ۔ کیونکہ گلگت بلتستان اور کشمیر کی موجودہ حیثیت کے برقرار رہنے کی صورت میں خطے کی طاقتیں کسی بڑی سرمایہ کاری کا رسک لینے کو تیار نہیں ہوں گی چونکہ یہ علاقہ خطے کی تین بڑی طاقتوں کے سنگم پر موجود ہے اور یوں متنازع حیثیت میں اس علاقے کو اس قدر کردار سونپا جاناممکن نہیں ہے۔اس بنیاد پر علاقائی طاقتیں ہر صورت میں اس تنازع کا حل چاہیں گی اور گلگت بلتستان اور کشمیر کے مستقل حل کی طرف دیکھیں گی تاکہ خطے میں امن قائم ہو اور تجارت کیلئے ماحول سازگار رہے۔ یہ حل کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے(قوی امکان مشرف فارمولے پر عملدرآمد کا ہی ہے)۔

چین کو علم ہے کہ جب تک گلگت بلتستان کی حیثیت متنازع ہے تو سی پیک منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا، اسی طرح بھارت کو علم ہے کہ جب تک ہندوستان پاکستان کے ساتھ تنازعات حل نہیں کرے گا تب تک وہ زمینی راستوں سے وسطی ایشیائی ممالک اور چین تک رسائی حاصل نہیں کر پائے گااور پھر پاکستان کو افغانستان میں ملنے والے کردار کے بعد کشمیر پر یوں توجہ دینا ممکن نہیں رہے گا کیونکہ پاک بھارت مستقل سرحد پرکبھی تنازع سامنے نہیں آیا صرف لائن آف کنٹرول یا ورکنگ باؤنڈری پردفاعی افرادی قوت موجود رہتی ہیں۔ جو اب آہستہ آہستہ پاک افغان سرحد کی طرف شفٹ ہوتی جائے گی کیونکہ 2800 کلومیٹر لمبی سرحد کی حفاظت کرنا ہو گی۔

یوں علاقائی طاقتوں کی دلچسپیوں اور پڑوسیوں کو ملنے والے نئے کرداروں کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو تنازع کشمیر کے حل میں زیادہ دیر نظر نہیں آتی اور بھارت کو بھی30 سالہ زور آزمائی سے کشمیر میں سوائے رسوائی اور کشمیری باشندوں کی نفرت کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ تحریک کی باگ ڈور اب پڑھے لکھے نوجوانوں کے ہاتھ میں آنے کے بعد بھارت کیلئے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا۔ ایسے میں اگر بھارت کو سیف ایگزٹ ملتی ہے تو بھارت اس پر ضرور سوچے گا۔ اس سلسلے شاید بنیادی بات چیت جاری بھی ہو تاہم کسی بڑے بریک تھرو کی توقع ہندوستان کے انتخابات کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے کیونکہ وہاں کے انتخابات ’پاکستان مخالف جذبات‘ کے تحت ہی لڑے جاتے ہیں اور کوئی بھی سیاسی جماعت اس نازک وقت میں پاکستان سے دوستی کی بات کر کے اپنا ووٹ بنک تباہ کرنے کا رسک نہیں لے سکتی۔

اس ساری صورتحال میں کچھ نئے سوال بھی ابھرتے ہیں ۔ سب سے بڑا سوال یہ ہو گا کہ امریکا کے چلے جانے کے بعد افغانستان کی اندرونی صورتحال کیا ہو گی ؟ کیا وہاں ایسی مستحکم حکومت قائم ہو جائے گی جو امن وامان یقینی بنانے کی اہلیت رکھتی ہو، جس کی بنیاد پر علاقائی طاقتوں کے زمینی راستوں سے تجارت کے خواب شرمندہ تعبیر ہو سکیں۔ اور یہ بھی بنیادی سوال ہو گا کہ امریکی بلاک میں موجود بھارت خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے خواب سے دستبردار ہو گا اور امریکا مخالف کیمپ میں شامل ہو سکے گا؟ کیونکہ تین طاقتوں کے درمیان تنہا بھارت کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے