محاورے اور معاشرے

محاورے، ضرب الامثال صدیوں پر محیط انسانی تجربات کا نچوڑ، خلاصہ اور عطر ہوتے ہیں اور کمال یہ کہ زبان اور اندازِ بیان جتنا بھی مختلف ہو، بات ایک سی ہی ہوتی ہے یعنی محاوروں اور ضرب الامثال میں گہری مماثلت و مشابہت پائی جاتی ہے کیونکہ بنیادی طور پر انسانی فطرت ہی ایک سی ہوتی ہے۔

وہی محبت، وہی نفرت، ایثار، انتقام، غصہ، لالچ، حسد، خوف یعنی مخصوص جبلّتوں کے قیدی انسان۔ قدیم عرب کہا کرتے تھے ’’اَلمثَلُ فِی الْکلَامِ کا لملح فِی الطَّعَامِ‘‘ یعنی ضرب المثل کی کلام میں وہی حیثیت ہے جو طعام میں گوشت کی ہوتی ہے سو آج سیاست سے ذرا بچتے بچتے ضرب الامثال کی روشنی میں معاملات کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً’’راج ہٹ، بال ہٹ اور تریاہٹ ٹالے نہیں ٹلتے‘‘مطلب یہ کہ راجہ، بچہ اور عورت کسی بات پر اڑ جائے تو آخری حد تک جاتے ہیں اس لئے بہتر ہو گا کہ عثمان بزدار پر جزبز ہونے کی بجائے اس وقت کا انتظار کریں جب مچھلی پتھر چاٹ کر واپسی کا فیصلہ کرے یا پھر وہ واقعی وسیم اکرم پلس نکل آئے۔

’’ڈوم بجاوے چپنی، ذات بتاوے اپنی‘‘کسی کی ذات اور اصل نامعلوم ہو تو اس کی حرکتوں، عادتوں، رویوں پر غور کرو، تمہیں پوچھے بغیر اس کی اصلیت معلوم ہو جائے گی۔’’ڈوم کے آگے ڈوم کا گانا خالی ہاتھوں واپس جانا‘‘ہم پیشہ لوگوں میں عموماً

ایک خاص طرح کی چشمک ہوتی ہے جیسے حاجی کی مکہ میں وہ قدر نہیں ہوتی۔ بہت کم لوگوں میں اتنا ظرف ہوتا ہے کہ وہ ’’حریفوں‘‘ کو بھی کھل کر داد دے سکیں لیکن دوسری طرف یہ محاورہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’’سانپوں کی بھی برادری ہوتی ہے۔ ‘‘’’کھانے کے گال نہانے کے بال چھپائے نہیں چھپتے‘‘حقیقت سامنے آ ہی جاتی ہے چاہے آمدنی سے زیادہ اثاثوں کی صورت میں ہی جلوہ گر کیوں نہ ہو یعنی ’’جو چپ رہے گی زبان خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا‘‘’’پاپی صرف پاپ کا، بھائی کا نہ باپ کا‘‘بدخصلت اپنی بدخصلتی کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے جیسے بچھو کچھوے کا واقعہ۔

کچھوا بچھو کو دریا کی سیر کراتا لیکن بچھو ڈنک مارنے سے باز نہ آتا۔ کچھوے نے کہا ’’یہ کیا کرتے ہو‘‘ بچھو نے کہا ’’عادت سے مجبور ہوں‘‘ کچھوے نے غوطہ لگایا تو بچھو چلایا، تب کچھوے نے کہا ’’میں بھی غوطہ لگانے کی عادت سے مجبور ہوں‘‘۔ عادی مجرموں سے ترک عادت کی توقع حماقت اور جہالت کے سوا کچھ نہیں۔’’آٹا بیچ کے گاجر کھانا‘‘ضروری چیزوں کی بجائے غیرضروری ثانوی چیزوں پر پیسہ خرچ کرنا جیسے کوئی ہسپتالوں اور سکولوں کی بجائے اورنج ٹرینوں اور میٹروز پر اربوں روپیہ غارت کردے۔

’’حاکمی گرم کی، دکانداری نرم کی، ناری شرم کی، دولت کرم کی، ریاکاری بے شرم کی‘‘اس ضرب المثل کو وضاحت کی ضرورت نہیں سو آگے چلتے ہیں۔’’نائیوں کی بارات میں سبھی راجے‘‘سب ہی ایک جیسے ہوں گے تو ایسے ویسے کام کون کرے گا۔ اس لئے قدرت نے طبقاتی نظام یقینی بنایا ہے کیونکہ اس کے بغیر انسانی معاشرہ کا قیام و دوام ہی ممکن نہیں۔ مساوات کا مطلب برابری ہرگز نہیں سوائے اس کے کہ جہاں تک بنیادی ضروریات کا تعلق ہے، وہ ہر کسی کو مہیا کی جائیں مثلاً روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم، تفریح، عزت نفس وغیرہ ورنہ مجھ جیسا جاہل کسی جینوئن عالم کی برابری کیسے کر سکتا ہے۔

’’اناج کال نہیں، راج کال کا رونا ہے‘‘بھوک، ننگ، غربت، افلاس، عسرت کسی معاشرہ میں اس لئے نہیں ہوتی کہ قدرت اس معاشرے پر نامہربان ہے۔ یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ حکمران نااہل ہوتے ہیں۔ عوام کو سزا اس لئے ملتی ہے کہ وہ ان نااہلوں کے گریبانوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے بلکہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے معجزوں کے منتظر رہتے ہیں۔’’سب کتے ہی کانشی گئے تو ہنڈیا کس نے چاٹی؟‘‘سب ہی شریف النفس ہیں تو بدمعاشی کس نے کی؟ سب ہی ایماندار تھے تو ملک کنگال اور مقروض کس طرح ہو گیا؟’’ٹھنڈا لوہا گرم لوہے کو کاٹتا ہے‘‘سادہ سی بات ہے۔ کوئی راکٹ سائنس نہیں لیکن خدا جانے ان کو سمجھ کیوں نہیں آ رہی جو صبح دوپہر شام تین تین شفٹوں میں گرم توے پر پھدکتے رہتے ہیں۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ نودولتیوں کی طرح ’’نو اقتداریئے‘‘ بھی ہوتے ہیں جنہیں نیا نیا اقتدار ملتا ہے اور انہیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ اس کا کرنا کیا ہے۔ یہاں ایک بھولی بسری دلچسپ بات یاد آئی۔ ہمارے لڑکپن میں سدھیر نامی ایک سپرسٹار ہوتے تھے جن کی وجہ شہرت ایکشن فلمیں تھیں جن کی وجہ سے انہیں ’’جنگجو ہیرو‘‘ کا عوامی خطاب بھی ملا ہوا تھا۔ کبھی کبھار سدھیر صاحب کو ہیروئن کے ساتھ کوئی رومانٹک گانا پکچرائز کرانا پڑ جاتا تو ان کے ہاتھ پائوں پھول جاتے کیونکہ وہ تو لاٹھی، بندوق، تلوار، برچھی، کلہاڑی چلانے کے عادی تھے سو انہیں گانا دوگانا بہت اوپرا اوپرا لگتا جس سے فلم بین بھی محظوظ ہوتے اور کہتے—- ’’ہیروئن بیچاری نہ بندوق ہے نہ لاٹھی، سدھیر صاحب کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اسے کدھر سے چلائیں‘‘ —- یعنی کیسے ہینڈل کریں۔’’جتنا چھانو، اتنا ہی کرکرا‘‘یہ محاورہ ہمارے سیاستدانوں پر خوب جچتا ہے کہ جتنا بھی آزمائو، اتنے ہی ناقص اور نالائق ثابت ہوتے ہیں۔’’سب باتیں کھوٹی پہلے دال روٹی‘‘۔

اسی طرح کا ایک اور محاورہ بھی ہے ’’پہلے پیٹ پوجا پھر کام دوجا‘‘۔حکومت معیشت پر فوکس کرے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کو چاند بھی روٹی کی طرح گول دکھائی دینے لگے گا’’بیٹی سلکھنی۔ دونوں جانب رکھنی‘‘اچھی بیٹیاں میکے اور سسرال دونوں کو خوش رکھتی ہیں۔’’کچی سرسوں پیل۔ کھلی ہوئی نہ تیل‘‘خام کاروں کے سارے کام ادھورے رہتے ہیں۔اللہ ای خیر کرے۔ خام کار ہی برسر اقتدار ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے