عمران تو سلیکٹڈ ہیں، بلاول کیا ہیں؟

عمران خان تو ٹھہرے سلیکٹڈ وزیر اعظم ، سوال اب یہ ہے کہ قبلہ بلاول بھٹو کتنے لاکھ ووٹوں سے پیپلز پارٹی کے چیئر مین منتخب ہوئے تھے ؟ عمران خان پرہم خاک نشیں کچھ تنقید کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ بلاول ؟ چھاج بولے تو بولے چھلنی کیوں بولے جس میں کم از کم نو سو پچھتر چھید ؟

موروثی سیاست کا آزار نہ ہوتا ، سماج کی تہذیب ہو چکی ہوتی یا کم از کم ملک میں میرٹ ہوتا تو بلاول کیا ہوتے اور کہاں ہوتے ؟ نیم خواندہ سماج میں ، تماشا یہ ہے کہ وہ قائد محترم ہیں ۔ اعتزاز احسن اور رضا ربانی جیسے حضرات اب قائد محترم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور ہدایات کی صورت فیض پاتے ہیں ۔ عمر بھر کی محنت ، مبینہ فکر و دانش اور سفید بالوں کے باوجود ان میں سے ایک بھی اس قابل نہیں کہ پارٹی کا سربراہ بن سکے ۔ سربراہ بننا تو دور کی بات پارٹی کے ڈیڑھ درجن بزرگ رہنمائوں کو کسی نے اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ قائد محترم کے انتخاب میں ان سے مشاورت ہی کر لی جائے ۔ دربار سے ایک روز بلاوا آیا ، سب حاضر ہوگئے اور ایک وصیت پڑھ کر سنا دی گئی کہ آج سے آپ کے قائد محترم عالی جاہ بلاول ہوں گے۔

عمران خان تو سلیکٹڈ وزیر اعظم ہو گئے سوال یہ ہے بلاول زرداری خود کیاہیں ؟ عمران خان نے دو عشرے سیاسی جدو جہد کی ۔ بلاول کی اپنی مبلغ جدوجہد کیا ہے ؟ ایک حادثہ ہوا اور صاحب معتبر ہو گئے ، قائد محترم بن گئے ،مسند ارشاد تھی جو میراث میں آ گئی؟

25 اپریل 1996 کو عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ 22 سال کی جدو جہد کے بعد وہ وزیر اعظم بنے۔ ان بائیس سالوں میں عمران نے راکھ پر خوابوں کا محل تعمیر کیا۔ 1997 کے انتخابات میں عمران خان دو نشستوں پر کھڑے ہوئے اور دونوںپر ہار گئے۔ شکست کے بعد اگلی صبح کا احوال مجھے عمران کے ان زمانوں کے عزیز ترین دوست نوید خان مرحوم نے سنایا۔ نوید کہتے ہیں :’’صبح میں عمران کے کمرے میں گیا تو وہ نفل پڑھ رہا تھا۔ نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو کہنے لگا نوید! ہمت نہیں ہارنا ، اگلا الیکشن ہم جیتیں گے ۔اس دفعہ ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے کرکٹ کا میچ ہاکی کے کھلاڑیوں سے کھیلا‘‘۔ بعد میں کرکٹ کا میچ کرکٹ کے کھلاڑیوں سے کھیلنے کی کوشش میں عمران خان نے اپنی اخلاقی برتری کی متاع عزیزجس بے رحمی سے گنوائی ،وہ ایک الگ داستان ہے لیکن جس شخص نے اتنی طویل جدوجہد کی اسے وہ صاحب چور راستے سے اقتدار میں آنے کا طعنہ دیں گے جو خود ایک وصیت کے زور پر پارٹی پر مسلط ہو گئے اور نام کے سابقے لاحقے تک بدل دیے؟

عمران خان کی بائیس سال کی جدوجہد ہے، بلاول کو چھوڑیے سوال یہ ہے ان کے والد گرامی جو مبینہ طور پر سب پر بھاری ہیں خود ان کی سیاسی جدوجہد کیا ہے؟ ایک حادثہ ہوا، محترمہ شہید ہوئیں اور وہ ایک ہی ساعت میں معتبر ہو گئے ۔ اگر محترمہ آج حیات ہوتیں تو سیاست کی دنیا میںآصف زرداری کا مقام کیا ہوتا ؟ صدر مملکت کا منصب تو رہا ایک طرف کیا انہیں وزیر مملکت کا قلمدان دینا بھی کوئی گوارا کرتا ؟ محترمہ کی زندگی کے آخری ماہ و سال میں آصف زرداری کی سیاسی حیثیت کیا تھی؟

چشمِ بتاں سے کوئی پوچھے، ایسا بھی کیا تغافل؟ آئینہ دیکھنے کی فرصت اور نامہ اعمال دیکھنے کی ہمت نہ ہو تو ازرہ مروت گریباں میں تو جھانکا جا سکتا ہے۔عمران خان کو وزیر اعظم بنے چند ماہ ہوئے ہیں۔ جنہوں نے برسوں راج کیا وہ بد مزہ نہ ہوں تو اپنے اس با برکت دور میں جو دودھ اور شہد کی نہریں انہوں نے کھودیں اس کوہ کنی کا بھی کبھی تذکرہ فرما دیا کریں۔جو کارہائے نمایاں قبلہ آصف زرداری کے سنہرے دور جمہوریت میں انجام دیے گئے کبھی ان کی یاد میں بھی کوئی شامِ غم منا لیا کریں۔عمران کی آنکھ کے بال پر سینہ کوبی کرنے والے طفلان ِ سیاست کو اپنی آنکھ کے شہتیر کیوں نظر نہیں آتے؟

ڈائن کے بارے میں ھی کہتے ہیں سات گھر چھوڑ دیتی ہے ۔انہوں نے نواب شاہ کو نہیں چھوڑا۔ سید نواب شاہ نے 1912ء میں 200 ایکڑ زمین عطیہ کی تب یہ شہر بسا اور نواب شاہ سے منسوب ہوا۔ عا لی جاہ کے سنہرے دور حکومت میں اس پر بھی ہاتھ صاف کر لیے گئے۔ اس کا نام اب بے نظیر آباد ہے۔ آصف زرداری نے ایک ایکڑ کیا ایک مرلہ تک زمین عطیہ نہیں کی مگر نام بدل کر بے نظیر آباد رکھ دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو سے اتنی ہی محبت تھی تو اپنی جیب سے خرچ کر کے ایک نیا شہر آباد کر دیا ہوتا ۔ ایک زمانے میں گلاب دیوی اور گنگا رام جیسوں نے انسانیت کی خدمت کے لیے ادارے قائم کیے جو انہی سے منسوب ہو گئے۔یہاں جیب سے ایک دھیلا نہیں دیا گیا اور درجنوں ادارے خود سے منسوب کر لیے گئے۔کچھ بے نظیر کے نام سے ، کچھ بلاول اور بختاور کے نام سے۔

پارٹی ہی کو نہیں پورے ملک کو چراگاہ سمجھنے والے عمران پر فقرے اچھالتے ہیں تو آدمی کو نہ چاہتے ہوئے بھی خواجہ آصف یاد آجاتے ہیں۔ جی ہاں وہی خواجہ صاحب جنہوں نے سرکاری میڈیکل کالج کا نام اپنے ابا جی کے نام پر رکھ لیا اور اب اسے خواجہ صفدر میڈیکل کالج کہتے ہیں۔ ایک دور میں تعلیمی اداروں کے باہر لکھا ہوتا تھا: آئیے دیکھیے ہم فروغ تعلیم کے لیے کس قدر کوشاں ہیں۔ یہی حال رہا تو ایسے اداروں کے باہر لکھنا پڑے گا : کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ عمران کی جماعت بھی پانچ سال کے پی کے میں اقتدار میں رہی کیا کوئی ایک سرکاری ادارہ ایسا ہے جسے عمران خان ، اکرام اللہ نیازی یا شوکت خانم سے منسوب کیا گیا ہو؟

کل زرداری تھے ، آج بلاول ہیں ، بلاول کے بعد یقینا انہی کا بیٹا ہوگا جو قیادت کا اہل ہو گا۔ اعتزاز اور رضا ربانی تب تک زندہ ہوئے تو ہاتھ باندھے بلاول کے صاحبزادے سے اہم امور پر رہنمائی لے رہے ہوں گے۔ دوسری جانب عمران خان کے بعد کیا یہ ممکن ہے کہ سلمان اور قاسم پارٹی کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھیں؟ جمہوریت اور میراث کا فرق کیا ابھی تک واضح نہیں ہو سکا؟

عمران خان کی طرز حکومت میں بہت سے مسائل ہیں اور ان پر بات ہونی چاہیے ، بلکہ پوری شدت سے ہونی چاہیے لیکن جب چھلنی بولے گی تو سوال اٹھے گا کہ تو کیوں بولے، تجھ میں تو کم از کم نو سو پچھتر چھید؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے