محاورے اور معاشرے

(دوسری و آخری قسط)

30جنوری کو شائع ہونے والا کالم ’’محاورے اور معاشرے‘‘ خاصا سنسنی خیز یوں رہا کہ قارئین نے محاوروں، ضرب الامثال کے ڈھیر لگا دیئے ۔ فون پر بتائے گئے شروع کے چند محاورے تو میں نے نظرانداز کر دیئے لیکن پھر سنجیدگی سے نوٹ کرنا شروع کر دیئے کہ چلو دوسری قسط میں کام آئیں گے جو آپ زیر نظر کالم میں ملاحظہ فرمائیں گے۔دوسری اہم بات ایک ضروری تصحیح ہے، برادر عزیز ڈاکٹر حسین پراچہ نے فرمائی جو عربی زبان کے عالم ہیں۔عربوں کے حوالہ سے میں نے ایک جملہ لکھا ’’المثل فی الکلام کا لملح فی الطوام‘‘ جملہ تو درست تھا لیکن میں ترجمہ میں چوک گیا۔

میں نے لکھا کہ ضرب المثل کی کلام میں وہی حیثیت ہے جو طعام میں گوشت کی ہوتی ہے جبکہ ’’گوشت کی جگہ ’’نمک‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ پراچہ صاحب کا شکریہ، قارئین بھی نوٹ فرمالیں۔اب چلتے ہیں قارئین ہی کی ضرب الامثال کی طرف جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ کالم میرا اور میرے قارئین کا جائنٹ ونچر ہے۔’’نیت کھوٹی، رزق نہ روٹی ‘‘مطلب یہ کہ بدنیتی کا نتیجہ برا ہی ہوتا ہے ۔خود میں نے زندگی میں بہت سے محنتی اور قابل لوگوں کو بھی ناکام و نامراد دیکھا اور غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان کی نیتوں میں فتور تھا۔یہاں یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ ناکامی و نامرادی کا تعلق صرف تّمول کے ساتھ ہی نہیں ہوتا۔بامراد ہونا اک اور طرح کا پیکیج ہے۔’’جب آیا اس دیہہ کا انت..جیسا گدھا ویسا سنت‘‘موت سب کو برابر کر دیتی ہے۔مقبرے سونے کے بھی ہوں، اندر صرف مردے ہی ہوتے ہیں۔’’دل کو ہو قرار۔سوجھیں سب تہوار‘‘بے فکری ہو تو رسوم ورواج بھی اچھے لگتے ہیں۔ غریب آدمی کیلئے تو عید بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔

’’ایک بوٹی انیک کتے‘‘ایک انار سوبیمار و الی بات ہے جسے یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ ’’ایک سیٹ کئی امیدوار‘‘’’چنے چبالو یا بانسری بجا لو‘‘ایک ہی وقت میں دو دو کام کرنے سے دونوں کاموں میں پتلا پن رہ جاتا ہے یا کم از کم کمال نصیب نہیں ہوتا۔’’جٹی نے بھگوئی اٹی ۔کراڑ نے ماری بٹی‘‘بے ایمان جٹی نے سوت بھگو کر اس کا وزن بڑھایا۔ بنئے نے کم وزن کا باٹ رکھ کر ساری کسر نکال دی یعنی جیسے کو تیسا۔بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اس محاورے کی زندہ مثال ہے۔ سب کا ہاتھ ایک دوسرے کی جیب میں ہے۔یہاں تک کہ حکومتیں عوام کو اور عوام حکومتوں کو چونا لگا رہے ہیں۔قصائی ڈاکٹر کو، ڈاکٹر وکیل کو، وکیل پروفیسر کو، پروفیسر طلبہ کو ، طلبہ والدین کو علیٰ ہذا لقیاس شر کی سنو بالنگ ہو رہی ہے ۔’’کم کھائو پر غم نہ کھائو‘‘’’کم کھانا، قرض لیکر کھانے سے بہتر ہے‘‘لیکن جہاں کشکول کلچر ہی رگوں میںسرایت کر جائے وہاں تو قرضے ملنے پر بھی بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں۔

اے طائرِلاہوتی اس رزق سے موت اچھیجس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہیلیکن رینگنے والی مخلوق کا پرواز سے کیا لینا دینا؟’’جیسی مائی ویسی جائی ‘‘بیٹیوں پر مائوں کی تربیت اور صحبت کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے۔اسی لئے بزرگ کہا کرتے تھے کہ رشتہ کرتے وقت لڑکی سے زیادہ اس کی ماں کو جانچو، پرکھو، دیکھو’’سپوت کیلئے نہ جوڑ، کپوت کیلئے نہ چھوڑ‘‘قابل بیٹا خود سب کچھ بنا لے گا، نالائق بیٹا جتنا کچھ بھی ہواسے برباد کر دے گا۔’’گئے تھے پوت دکھّنــ۔قسمت کے وہی لکھّن‘‘بدقسمتی کہیں پیچھا نہیں چھوڑتی’’گنا لے نہ بھیلی دے ‘‘کسی سے تھوڑی شے بھی لیں تو اس کے زیادہ مانگنے پر انکار مشکل ہے۔’’چھپر پر تو پھوس نہیں پر ڈیوڑھی میں نقارہ ہے ‘‘اپنی اوقات اور حیثیت سے بڑھ کر دکھاوے سے کام لینا’’درپر ہے بارات ۔رنگو دلہن کے ہاتھ‘‘احمقوں کی طرح بغیر کسی مناسب تیاری کے کسی بڑے کام میں ہاتھ ڈال دینا جو PTIنے کیا اور اب سمجھ نہیں آ رہی کہ کدھر جائیں اور کیا کریں۔’’چار دن کی کوتوالی ۔

پھر وہی کھرپا اور جالی ‘‘نظام سقہ کی طرح مختصر سی حکومت اور پھر وہی سقائی۔’’دیگ ہوئی دم، حاضر ہوئے ہم‘‘موقع پرستوں کا منشور جس کی بہترین مثال ہمارے سیاست دان ہیں، جو حددرجہ ڈھٹائی سے کھونٹے بدلتے رہتے ہیں۔’’پہلے چٹی۔پھر ہٹی۔ پھر کھٹی‘‘کوئی بھی جینوئین کام راتوں رات منافع بخش نہیں ہوتا، کامیابی کیلئے شارٹ کٹ نہیں۔’’بھیڑ جہاں جائے گی وہیں مونڈ منڈائے گی‘‘کمزوری ہر جگہ استحصال کا نشانہ بنتی ہے۔’’عرضی دو حرفی، بحالی یا برطرفی‘‘لمبی تحریر ہو یا تقریر…لکھنے بولنے والے کے شایان شان نہیں لیکن ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، دونوں اس مرض میں بری طرح مبتلا ہیں۔’’بھوکے پیٹ بھجن نہ ہووے‘‘بھوک تو یکسوئی سے عبادت بھی نہیں کرنے دیتی۔ اسی لئے افلاس سے پناہ مانگی گئی ہے۔’’لاڈلا پوت کٹوری میں موت‘‘ضرورت سے زیادہ لاڈلی اولاد خود بھی خراب ہوتی ہے۔والدین کو بھی خراب کرتی ہے۔’’نند کا نندوئی، گلے لگ لگ روئی‘‘دور پار کے رشتہ داروں سے جعلی مصنوعی ہمدردی۔’’بوڑھی بھیڑ بھیڑیے سے ٹھٹھا‘‘کمزور کا زور آور کے سامنے بڑھکیں مارنا۔’’ڈوبتا بھانڈ چلائے۔

سب سمجھیں وہ گائے‘‘بندے کا تعارف اس کے تعاقب میں رہتا ہے اور کبھی کسی حال میں پیچھا نہیں چھوڑتا۔’’گٹھڑی حلال ہے۔ بقچہ حرام ہے‘‘تھوڑے میں ایمانداری، زیادہ میں بے ایمانی جو کلاسیکل قسم کے راشیوں کی جانی پہچانی نشانی ہے۔’’گھوڑا ملے تو کوڑا بھی ملے‘‘بڑا کام ہو جائے تو چھوٹا بھی ہو جاتا ہے’’پھٹا دودھ جما نہیں دیکھا‘‘رشتے میں بال آ جائے تو کبھی نہیں جاتاقارئین !کالم تو شیطان کی آنت ہوتا جا رہا ہے ۔

یار زندہ صحبت باقی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے