صدیوں پرانا شہر ، راولپنڈی

جڑواں شہر کہلائے جانے والے راولپنڈی ،اسلام آباد کی ہیت گزشتہ بیس سال سے تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ نئی تعمیرات،نئی آبادیوں سے جڑواں شہربہت پھیل گئے ہیں۔ایک طرف سے جڑواں شہر روات تک جا پہنچے ہیں،دوسری طرف بارہ کہو کی گنجان آبادی ،اسلام آباد کی آبادیاں گولڑہ تک پہنچ گئی ہیں اور اب نئے ایئر پورٹ کی وجہ سے ترنول کی طرف آبادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔اسلام آباد تو کراچی سے دارلحکومت کی منتقلی کی وجہ سے نئے شہر کے طور پر آباد کیا گیا تاہم راولپنڈی شہر قدیم تاریخ کا حامل علاقہ ہے۔اسلام آباد سے ملحقہ راولپنڈی کا ایک علاقہ پنڈورہ ہے جو کہ ایک یونانی نام ہے۔کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے راولپنڈی کے پرانے شہرکے سامنے اسی مقام پر پڑائو ڈالا تھاا۔اسی مناسبت سے اس علاقے کانام پنڈورہ پڑ گیا ۔ یہاں سے راستہ سیدھا قدیم شہر کے ایک دروازے بنی کی طرف جاتا ہے۔راولپنڈی محمود غزنوی کے ایک حملے میں تباہ کر دیاگیا۔وسط ایشیا،افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کی وجہ سے راولپنڈی کی آبادی باقاعدہ منظم علاقہ نہ بن سکی۔منگولوں کے حملے میں بھی راولپنڈی تباہ ہوا۔15ویں صدی میں راولپنڈی از سر نو تعمیر ہوا اور اس کا نام راول رکھا گیا جو اسی حوالے سے راول۔پنڈ (پنجابی میں گائوں) اور پھر راولپنڈی کہلایا۔2005ء کے تباہ کن اور ہلاکت خیز زلزلے سے پہلے کا راولپنڈی آج کے راولپنڈی سے قطعی مختلف ہے۔زلزلے کے بعد مختلف علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی میں تیزی آگئی۔یوں تو ملک میں شہریوں کے حوالے سے امن وامان کی بدتر صورتحال کی وجہ سے ملک کے ہر صوبے سے راولپنڈی،اسلام آباد منتقل ہونے کا رجحان ہے اس کے ساتھ ہی خیبر پختون خواہ ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے بڑی تعداد میں لوگوں نے والپنڈی،اسلام آباد نقل مکانی کی ہے۔ راولپنڈی اسلام آباد کے عقب میں مارگلہ کا پہاڑی سلسلہ ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے اور یہی پہاڑ اس علاقے کو ہزارہ سے جدا کرتا ہے۔

مغلوں اور سکھوں کے دور سے ہی صدر علاقے میں پرانی آبادی کے ساتھ، فوجی چھائونی کا علاقہ بھی قائم تھا۔پنجاب کی سکھ ریاست اور انگریزوں کی جنگ میں انگریزوں نے سکھ فوج کو شکست دی تو سکھوں کا بچا کچا لشکر میدان جنگ کے علاقے منڈی بہائوالدین،گجرات کے قریب کے علاقے سے راولپنڈی کے راستے صوبہ سرحد کی طرف بھاگ گیا۔انگریز فوج ان کا پیچھا کرتے کرتے صوبہ سرحد تک علاقوں تک قابض ہو گئی۔سکھ لشکر کے تعاقب میں انگریز فوج راولپنڈی پہنچی جہاں مارچ1849کو سکھ سلطنت کے سردار چھتار سنگھ اور راجہ شیر سنگھ نے جنرل گلبرٹ کے سامنے ہتھیار ڈالے اور اطاعت قبول کی۔اس موقع پر راولپنڈی میں موجود سکھ فوج نے انگریز فوج کو موجودہ ریس کورس گرائونڈ میں سلامی پیش کی گئی۔انگریزوں نے 1867کو راولپنڈی میں میونسپلٹی قائم کی ۔1868کی مردم شماری کے مطابق راولپنڈی کی آبادی 19ہزار228جبکہ کنٹونمنٹ کی 9ہزار 358تھی۔1880میں راولپنڈی ریلوے نظام کے ذریعے پشاور اور ہندوستان کے علاقوں سے منسلک ہو گیا۔انگریزوں نے تمام خطے کے لئے راولپنڈی میں ہی فوجی کنٹونمنٹ قائم کیا۔تجارتی مال کے حوالے سے راولپنڈی کو اہمیت حاصل ہوتی گئی اور1885میں ریاست کشمیر کی14فیصد برآمدات اور باقی27فیصد برآمدات راولپنڈی سے ہو کر جاتی تھی۔1883میں سردار سبحان سنگھ نے راولپنڈی میں ایک بڑی مارکیٹ تعمیر کرائی۔کنٹونمنٹ کے علاقے صدر کا تجارتی علاقہ بریگیڈیئر جنرل میسی نے تعمیر کرایا۔انگلستان سے آنے والے فوجیوں کو پہلے مرحلے میں راولپنڈی کی فوجی چھائونی میں رکھا جاتا تھا۔1921میں راولپنڈی پنجاب کے سات بڑے شہروں میں شامل تھا۔1947میں راولپنڈی میں مسلم آبادی42.79فیصد جبکہ ضلع راولپنڈی میں مسلم آبادی80فیصد تھی۔راولپنڈی میں ہندو33.72فیصد اور سکھ آبادی17.32فیصد تھی۔

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے مہاجرہونے والے،کشمیری اور پٹھان بھی راولپنڈی میں آباد ہوئے۔چند ہی عشرے پہلے راولپنڈی کے کنٹونمنٹ علاقے میں صبح کے وقت فوجی افسران سائیکلوں پر جی ایچ کیو جاتے نظر آتے تھے۔اس وقت سائیکل کو وہ مقام حاصل تھا جو آج کی گاڑی کو بھی حاصل نہ ہو گا۔موٹر سائیکل اور گاڑیاں بہت ہی کم ہوتی تھیں۔مصروف سڑکوں کے چوراہوں پہ چاک و چوبند ٹریفک پولیس کا سپاہی ہاتھوں کے مخصوص اشاروں سے ٹریفک کو کنٹرول کر رہا ہوتا تھا اور شہری اس کی اس مہارت کو تحسین کی نظروں سے دیکھتے تھے۔تفریح کے لئے سینما اور میلے ہوتے تھے۔لڑکپن تک معمول رہا کہ عید کے دوسرے دن فلم دیکھنے سینما جاتے اور وہاں آلو کے نمک و مرچ لگے خشک چپس اور چائے کے ساتھ پیٹیزکے مزے لیتے۔عید کے موقع پر میلہ لگتا تو وہ دیکھنے بھی جاتے۔راولپنڈی کا شہر آج کے پرانے شہر پر مشتمل تھا۔صرافہ بازار، کتابوں،سٹیشنری کا اردو بازار، ادویات اور ڈاکٹروں کی دکانوں کابوہڑ بازار، خواتین کاموتی بازار،راجہ بازار، سبزی منڈی، کنک منڈی،گنجمنڈی،پرنا قلعہ،باڑہ بازار،کوہاٹی بازار،پرانے شہر سے ملحقہ آبادیاں ،کرشن پورہ،آریہ محلہ،اکال گڑھ،موہن پورہ،امر پورہ ،کرتار پورہ،باغ سرداراں اور انگت پورہ قائم تھیں جو آج بھی انہی ناموں سے موجود ہیں۔تقریبا تین چار عشرے پہلے تک بنی سے پنڈورہ اور نیو کٹاریاں ایف بلاک کے لئے الگ الگ ٹانگے چلتے تھے۔بنی سے ہی ٹانگے کا ایک روٹ راجہ بازار تھا۔راجہ بازار کے ایک طرف فوارہ چوک سے سٹی صدر روڈ کے راستے صدر اور اسی چوک سے لیاقت روڈ سے مری روڈ تک بھی ٹانگے چلتے تھے۔یہ پرانے شہر سے آگے کی طرف جانے کے لئے ٹانگوں کے مرکزی روٹ تھے،اس کے علاوہ بھی کئی راستوں پر ٹانگے چلا کرتے تھے۔

گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس(GTS) نام کا ٹرانسپورٹ نظام تھا جس کی بسیں مختلف شہروں کو جاتی تھیں۔جی ٹی ایس کا اڈہ صدر میں اسی مقام پر تھا جسے بعد میں واران بس سروس کے لئے سیاسی مفادکے طور پر دے دیا گیا۔اندرون شہر بھی جی ٹی ایس کی بسیں چلا کرتی تھیں اور شہریوں کی اکثریت انہی بسوں پر سفر کیا کرتی تھی۔جی ٹی ایس کی اربن ٹرانسپورٹ سروس کا بڑا اڈہ بھی صدر میں ہی تھا،یہاں سے ایک روٹ بکرا منڈی کی طرف بھی تھا۔سب سے بڑا روٹ صدر سے اسلام آباد کے مقام آبپارہ تک تھا۔آبپارہ میں بھی جی ٹی ایس کا اڈہ قائم تھا۔میرے بچپن تک جی ٹی ایس کی بس کا ایک روٹ صدر سے سیٹلائٹ ٹائون ایف بلاک ہمارے گھر کے سامنے سے تھا تاہم بعد میں بسیں سید پورروڈ تک ہی جاتی تھیں۔راولپنڈی سے مختلف شہروں کی طرف جانے کے لئے قدیم اڈہ گنجمنڈی میں قائم تھا،بعد میں لیاقت باغ کے عقب سے بھی مختلف شہروں کے لئے بسیں چلنے لگیں اور بعد میں اسی بس اڈے کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی۔تقسیم برصغیر سے پہلے راولپنڈی سے سرینگر تک بسیں چلتی تھیں۔سرینگر تک جانے کے لئے براستہ مظفر آباد بیل گاڑیاں بھی چلتی تھیں۔1977ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پبلک ٹرانسپورٹ کے اڈے کولیاقت باغ کے عقب سے پیر ودھائی منتقل کیا تو لوگوں نے اس پر احتجاج کیا کہ بسوں کے اڈے کو شہر سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے جس سے لوگوں کو اتنی دور جانے آنے میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔اس وقت واقعی پیر ودھائی کا علاقہ شہر سے دور تصور ہوتا تھا۔پنڈورہ کے قریب سے ایک نہایت چھوٹی سے سڑک پیر ودھائی کی طرف جاتی تھی لیکن اس پر کبھی کوئی ٹریفک چلتے نہیں دیکھی۔اس تنگ سے سڑک کے دونوں جانب اتنے گھنے درخت تھے کہ دن کے وقت بھی سڑک پہ اندھیرا چھایا رہتا تھا۔نالہ لئی میں ایک طرف سے آنے والے پانی میں کھاد فیکٹری کا گندہ پانی ڈالا جاتا تھا جبکہ ذرا آگے چل کر کٹاریاں پل کے مقام پر اسلام آباد سے آنے والے نالے میں صاف پانی ہوتا تھا۔پرانے شہر کے گھروں کی تمام گندگی نالہ لئی میں ہی ڈالی جاتی تھی۔ہمارے بچپن میں ٹیکسی والے سیٹلائٹ ٹائون کے اسلام آباد سے ملحقہ آخری علاقے ایف بلاک تک نہیں آتے تھے کہ وہاں کی پرانی مقامی آبادیوں کے لوگ انہیں لوٹ لیتے ہیں،اسی طرح فیض آباد بھی ایسا ویران علاقہ تھا کہ ٹیکسی والے اس طرف جانے سے گریز کرتے ۔اس وقت رکشہ، چنگی جی تو کیا سزوکیاں بھی نہیں آئی تھیں۔ ۔ٹانگے تھے،ٹیکسیاں تھیں اور گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی بسیں۔

بڑے شہروں کے بڑے مسائل ہوتے ہیں جن میں سڑکوں،پانی،بجلی،گیس ،امن و امان صحت اور تعلیم کے امور بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں ایک بڑا مسئلہ ٹریفک ہے جس کا سامنا شہریوں کو راولپنڈی میں ہے۔اب روات سے لیکر براستہ آئی جے پی روڈ،پشاور روڈ تک کی سڑک اندرون شہر کی سڑک بن چکی ہے اور بیرون شہر آنے والے ہیوی ٹریفک بھی اسی راستے سے گزرتی ہے۔راولپنڈی میں روات سے موٹر وے (ترنول) تک رنگ روڈ کی تعمیر راولپنڈی کی اہم ضرورت ہے ۔اب راولپنڈی ،اسلام آباد اہم تجارتی علاقے بن چکے ہیں۔یہاں کی صرف نجی تعلیمی ادارے اور نجی و سرکاری ہسپتال ہی نہیں بلکہ صوبہ کے پی کے،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر تک کے لوگوں کے لئے یہ بڑا تجارتی مرکز بھی بن چکا ہے۔نئی مردم شماری کے مطابق راولپنڈی ضلع کی آبادی54لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ خاص راولپنڈی کی آبادی تقریباساڑھے32لاکھ بتائی جاتی ہے۔آج کا راولپنڈی چند عشرے پہلے تک کے راولپنڈی سے قطعی مختلف ہے ۔ پہلے راولپنڈی میں دو تین دن گرمی پڑے تو چوتھے دن لازمی بارش ہو جاتی تھی لیکن اب گنجان آبادیوں کے پھیلائو سے شہر میں موسمیاتی تبدیلیاں بھی رونما ہو چکی ہیں۔راولپنڈی شہر میں1968میں برف پڑی تھی جبکہ اسلام آباد آخری بار1979 میں برف کی سفیدی سے ڈھک گیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے