اورصحافی لاپتہ

شاہی فرمان کے تحت سعودی عرب میں نئے حکومتی ڈھانچے اور اصلاحات کا عمل جاری ہے‘اقتصادی اور سماجی تبدیلیاں بڑے پیمانے پرہو رہی ہیں‘ایسا سعودی عرب کودرپیش چیلنجز سے نمٹنے اور دنیا میں ہونے والی ترقی سے خود کو شانہ بشانہ رکھنے کے تقاضوں کے مطابق کیا جا رہا ہے‘ تاکہ ایک ایسے مستقبل کے خدوخال بن سکیں ‘جن سے صرف روشنی ہی نظر آئے ‘ایک ایسا مستقبل ‘جس کے خواب سعودی عرب نے ہمیشہ دیکھے ہیں۔

وزارتیں نظم ونسق اور کارکردگی دکھانے کے لیے سعودی فرمان کے مطابق کام کررہی ہیں‘قیادت کی ناہمواریوں اور عدم توازن کی نشان دہی ہو رہی ہے اور پھر ان میں اصلاحات وقت کے مطابق کی جا رہی ہیں‘ایک ایسے ہم آہنگ معاشرے کی تشکیل وقت کی ضرورت سمجھا جا رہا ہے‘ جس کو کسی سازش یا غیر منصفانہ مہم کے ذریعے اکھاڑ پچھاڑ کا شکار نہ کیا جاسکے‘جہاں سعودی عرب کو معاشی بحران کا سامنا ہے‘ وہیں ریاست کے بجٹ میں شہریوں کو شاندار خدمات مہیا کرنے پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔سعودی شہری ایک بنیادی حق کے طور پر اپنے ملک کی بہتری کے ہمیشہ منتظر رہتے ہیں‘حکام بہتری کے لیے مسلسل پالیسیاں تبدیل کر رہے ہیں ۔

سعودی عرب میں خواتین کچھ عرصہ سے کاریں چلا رہی ہیں ؛حالانکہ بہت سے لوگ خیال کرتے تھے کہ یہ ناممکن تھا‘الریاض‘ جدہ‘ الخوبر‘ جازان اور دوسرے سعودی شہروں کی شاہراہوں پر خواتین مردوں کے سا تھ کاریں چلاتی نظر آتی ہیں۔ سعودی معاشرہ مثبت انداز میں تبدیل ہورہا ہے۔سعودی عرب کے نئے تشخص کا جب عوامی تعامل سے مشاہدہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سعودی شہری کیسے اس تبدیلی کا خیر مقدم کررہے ہیں ۔ گویا وہ ایک طویل عرصے سے اس کے منتظر تھے۔چند روز کے فرق سے منعقد ہ واقعات ”فارمولا ای کار‘‘ دوڑاور ”طنطورا میں خزاں‘‘ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی بھر پور انداز میں شرکت ‘ان کے ذوق وشوق کی مظہر تھی‘ اس سے ان کے ملک میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں قابل ِ دید جوش وخروش کا بھی بہ خوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

سعودی عرب میں اقتصادی اور سماجی اصلاحات کے عمل کو سیاسی ا صلاحات سے جوڑا جا رہا ہے‘کسی حد تک یہ درست ہے‘اصولی طور پر اصلاح کی بھی ضرورت ہے‘ لیکن یہ ایک ذریعہ ہے اور اس تبدیلی کے عمل کا کوئی اختتام نہیں ‘تاہم اپنی ترجیحات کو متعیّن کرنا ہر معاشرے کی ذمے داری اور حق ہے‘دوسری جانب سعودی بادشاہت کے عمل کو مضبوط کرنے کے لیے‘ یہ تبدیلیاں وقت کی ضرورت بھی بن چکی تھیں۔تمام عرب ریاستوں کے پاس کوئی قاعدہ موجودنہیں ہے کہ وہ اصلاحات کے منصوبے کو کیسے عملی جامہ پہنائیں ‘معاشرے اپنی ضروریات اور ثقافت کے مطابق پروان چڑھتے اور ارتقا ء پذیر ہوتے ہیں‘جو بات فرانسیسی معاشرے کے لیے درست ہے‘ ضروری نہیں کہ وہ امریکی معاشرے کے لیے بھی درست ہو‘ چین میں ہونے والی وسیع تر اقتصادی اصلاحات دنیا بھر میں ہونے والی اقتصادی اصلاحات جیسی نہیں ہوسکتیںاور نہ انھیں ہونا چاہیے ‘اگر بعض پالیسیاں یا ایجنڈے کسی معاشرے پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ غیر حقیقت پسندانہ ہوں‘ تو وہ سود مند ثابت ہونے کے بجائے ضرررساں ثابت ہوتے ہیں‘ہر معاشرہ اپنی خاص ضروریات کے مطابق اپنی ترجیحات کے تعیّن کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔

سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل پرمغرب کے بظاہر تین ماڈل سامنے آئے تھے۔روس نے سعودی عرب کی حمایت کا ماڈل پیش کیا تھا۔امریکا نے اپنے دیرینہ تعلقات میں ایک طرح سے توازن قائم کرنے کی کوشش کی تھی اور الریاض کو سزا دینے کے مطالبے کا بھی جواب دیا تھا۔یورپ کے بڑے ممالک نے سعودی عرب کے خلاف کھڑے ہونے سے اتفاق کیا۔سعودی عرب کے خشوگی کیس سے متعلق اقدامات کے اعلان کے بعد‘ چند ہفتوں ہی میں منظرنامہ تبدیل ہونا شروع ہوگیا تھا۔سعودی عرب نے واقعے میں ملوث مشتبہ ملزمان کی گرفتاری اور سیاسی طور پر ذمے دار افراد کی برطرفی کا اعلان کیا‘ جو کچھ رونما ہوا ‘اس کی ابتدائی تفصیل کا اعلان کیا گیا‘اس سے عرب ممالک کی جانب سے الریاض کی حمایت میں اضافہ ہوا۔امریکا نے اس کی حمایت کااعادہ کیا‘ یورپ کے موڈ میں بھی تبدیلی رونما ہوئی اور اس نے سعودی مملکت کی اس کیس سے متعلق اقدامات کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کی ۔

آج صورت حال یہ ہے کہ مغرب نے ٹھنڈا پڑنے کے بعد پسپائی اختیار کرلی ہے” تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو ‘‘اب دلیرانہ آوازیں اٹھ رہی ہیں اور وہ انقرہ میں سیاسی چھیڑ چھاڑ کی جانب اشارے کررہی ہیں ‘جس کے نتیجے میں قتل کے جرم کا ایک واقعہ مغربی دارالحکومتوں میں الریاض کے خلاف ایک سیاسی کھیل میں تبدیل ہو کر رہ گیا تھا۔

ان آوازوں میں سے ایک آواز فرانسیسی وزیر خارجہ کی تھی‘انھوں نے کھلے عام وہ بات کہی ‘جو ان کے ہم منصب سعودی حکام یا سعودی مملکت کے اتحادیوں سے بند کمروں کی ملاقات میںکہہ رہے تھے‘تاہم وہ اپنے داخلی تحفظات کے پیش نظر اس کا کھلے عام اظہار کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔فرانسیسی وزیر خارجہ نے ان سب کی جانب سے ہی بات کی ۔ یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ ان کے ملک نے ‘برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ مل کر بحران کے ابتدائی دنوں میں سخت الفاظ پر مبنی بیانات جاری کیے تھے‘مگر وقت کے ساتھ سعودی حکام کی خارجہ پالیسوں اور بیک ڈور سفارتکاری کے ذریعے اس معاملے کو دباتے ہوئے ‘سعودی عرب آگے بڑھ گیا۔خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب میں رونما ہونے والی تبدیلیاں مستقبل میں نیا سعودی عرب پیش کریں گی‘ جہاں بادشاہت تو قائم رہے گی ‘مگر لوگوں کا طرز زندگی بدل چکا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے