نیلم جہلم پراجیکٹ،سنگین بحران کی دستک اورچند تجاویز

صوبہ کشمیر سے نکل کر پورے صوبے کو سیراب کرنے والے دریا نیلم اور جہلم صوبہ کشمیر کی پہچان ہیں – یہی دریا کشمیر کو پاکستان سے جوڑتے ہیں اور ان ہی کی وجہ سے پاکستان یہ دلیل دیتا ہے کہ کشمیر پاکستان کا قدرتی حصہ ہے- دریائے نیلم گریس ، ضلع بانڈی پور مقبوضہ کشمیر سے 9 ہزار جبکہ دریائے جہلم ویری ناگ ضلع اننت ناگ سے 6 ہزار فٹ کی بلندی سے نکل کر مظفر آباد میں 2400 فٹ کی بلندی پر ملتے ہیں . دریاوں کا مظفرآباد میں جہاں ملاپ ہوتا ہے ، اس جگہ کو دو میل کہتے ہیں-

دریائے نیلم نو سیری کے مقام پر مکمل طور پہ آزاد کشمیر کے حدود میں داخل ہوجاتا ہے، اس مقام کی بلندی 3161 فٹ ہے جبکہ شاردہ تا تاؤبٹ میں بھی اس دریا کے دونوں طرف آزاد کشمیر ہی ہے- باقی کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان یہ حد متارکہ ہے – دریائے جہلم چکوٹھی کے قریب 3638 فٹ کی بلندی پر آزاد کشمیر میں داخل ہوتا ہے -یہ دونوں دریا ، صوبہ کے پی سے آنے والے دریائے کنہار اور دریائے پونچھ کو شامل کرتے ہوئے منگلہ میرپور میں منگلا ڈیم میں گرتے ہیں جو 1184.2 فٹ کی بلندی پر واقع ہے-

میرا ان مقامات کی سطح سمند سے اونچائی لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ نیلم اور جہلم کا رخ موڑے بغیر اور دومیل سے منگلا تک پانی کی سطح کو مناسب مقامات پر ترتیب دے کر اتنی بلندی پر لیا جائے جس سے ایسی آبشار بن جائیں جن سے کم از کم دو سو میگا واٹ اور زیادہ سے زیادہ جتنا ممکن ہو بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی جیسے منگلا ڈیم جو 1100جبکہ ماہل 640، کروٹ 720، آزاد پتن 720اور گل پور 100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں – ان کے علاوہ دیگر پراجیکٹس جو مقامی دریاؤں یا نالوں پر بنائے گئے ہیں کسی بھی جگہ ان کے رخ نہیں موڑے گئے بلکہ مناسب جگہوں پہ پانی کے بہاؤ پر 75 سے 200 فٹ کی بلندی دے کر دریا کا رخ موڑے بغیر 50 میگاواٹ سے 4 سے 6 سو میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جارہی ہے یا وہ منصوبے زیر تکمیل ہیں – تو پھر نیلم اور جہلم جو اتنی بلندی سے آتے ہیں تاؤ بٹ اور چکو ٹھی سے میرپور بلکہ اس سے آگے تک اس سے زیادہ بجلی کیوں پیدا نہیں کر سکتے؟

اگر مجوزہ بالا طریقے پر کام کیا جائے تواس سے آبادی بھی متاثر نہیں ہوگی اور ماحول بھی محفوظ رہے گا ، اور اس سے کئی گنا زیادہ بجلی بھی پیدا کی جاسکے گی – ان دریاؤں کی گہری کھائیوں کی گزر گاہوں پر چھوٹے بند/ ڈیم بنائے جاسکتے ہیں جہاں نہ تو آبادی ہے اور نہ ہی آئندہ ہونے کا امکان ہے-اگر کسی جگہ متاثر ہوئی بھی تو وہ معمولی ہوگی جس کو معقول معاوضہ دے کر دوسری جگہ آباد کیا جا سکتا ہے جس کے لئے زمین بھی مختص کی جا سکتی ہے جیسے مقبوضہ کشمیر کے گریس علاقہ میں کشن گنگا کا رخ موڑے جانے سے متاثر ہونے والوں کے لئے کیا گیا-

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پر بہت زیادہ لاگت آئے گی لیکن دو دریاؤں کے رخ موڑنے سے تقریبآ 70 کلو میٹر علاقےکے دونوں طرف انسانی آبادی کے علاوہ، تمام Bio diversity چرند ، پرند ، نباتات، جمادات کا ان پر انحصار ہے ، بری طرح سے متاثر ہوکر یہ علاقے ویران، جنگلات ، آبی حیات ، پھول بوٹے، پینے کا پانی، زیر زمین پانی ، چشمے ، ماحول ، درجہ حرارت کا توازن بگڑ جائے گا –

انسانی آبادیاں دنیا بھر میں پانیوں کے آس پاس ہی بسائی گئی ہیں اور جہاں پانی نہیں وہاں کسی نہ کسی طریقے سے پانی پہنچایا گیا ہے- سندھ ، گنگا جمنا، دجلہ ، نیل و فرات کی آبادیاں اس لیے تاریخی اہمیت کی تہذیبیں کہی جاتی ہیں کہ یہ دریاؤں کے آس پاس آباد ہوئیں ورنہ صحراؤں اور بیابانوں میں کون بستا ہے؟ جن جن علاقوں میں اللہ نے دریاؤں کی گزر گاہیں مقرر کی ہیں وہ دریاؤں کی وجہ سے ہی آباد ہیں اور جہاں یہ گزر گاہیں نہیں ہیں وہ علاقے اللہ نے اسی مقصد کے لئے بنائے ہیں-

احتیاطی تدابیر کیے بغیر قدرت کی بنائی ہوئی چیزوں سے چھیڑ چھاڑ تباہی کا باعث بنتا ہے – اچھے وقتوں میں زمین کا بندوبست کیا گیا ہے جس میں دریاؤں اور ندی نالوں کے لئے زمین مختص کی گئی ہے جس کو بحال کرکے اس کے آس پاس جنگلات ، جنگلی و آبی حیات کو فروغ دیا جاسکتا ہے- دریا کے بہاؤ پر ڈیم بنا کر بجلی کی پیداوار کے علاوہ دیگر اقتصادی سرگرمیوں کا باعث بنے گا جن میں چھوٹے ڈیموں کے آس پاس سیر سیاحت فروغ پائے گا جس کی وجہ سے ہر قسم کا کاروبار بڑھے گا ، اس کے آس پاس کی آبادیوں کو تازہ پانی ، زراعت اور باغبانی کے مواقع میسر آئیں گے – سیلاب کے خطرات کم ہو جائیں گے – نئی آبادیاں بسیں گی –

نیلم کا رخ موڑتے وقت لوگوں کو اس کا احساس اور ادراک نہیں ہو سکا کہ کیا آفت برپا ہونے والی ہے ، جب اس کا سامنا کرنا پڑا تو لوگ حیرت زدہ ہوگئے ، اسی وجہ سے کوہالہ پراجیکٹ کے خلاف اس قدر مزاحمت ہورہی ہے – جو گنے چنے لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں ان کو بنجر اور بیابان زمینوں اور چٹانوں کا لاکھوں کروڑوں میں معاوضہ ملنا ہے ، جن کی اور کوئی بازاری قیمت اور افادیت نہیں ہے-حیرانگی کی بات ہے کہ دونوں پراجیکٹس کے لیے آزاد کشمیر حکومت سے کوئی معائدہ بھی نہیں کیا گیا -اتنے بڑے فیصلے کرنے میں آزادکشمیر کی کوئی نمائندگی نہیں ہے- فیصلہ کرنے والے کسی کو پاس جواب دہ نہیں، مقامی مسائل اور جذبات سے عاری لوگ ٹھیکہ لینے والی کمپنیوں سے مل کر اسلام آباد ، لاھور ، دوہا، دوبئی ، پیکنگ یا کوریا میں بیٹھ کر دریاؤں اور ان کے پانیوں کا سودا کرتے ہیں-

مقامی چیف سیکریٹری ، مالیات اور پلاننگ کے لوگ مرکزی حکومت کے لوگ ہوتے ہیں جو مرکزی اداروں اور ان کے ہمنواؤں کی مدد کرتے ہیں – کوئی مقامی نمائندہ ان پراجیکٹس کی حمایت نہیں کرتا نہ ہی عوامی غیض و غضب کا سامنا کر سکتا ہے- بیوروکریسی ایسا کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی – ہمسائیگی میں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے حقوق مانگنے والوں کو راہ دکھا کر بے خوف کردیا ہے-

ان علاقوں کے بیرون ملک آباد لوگ اور سوشل میڈیا نے ان کی آواز دنیا بھر میں پہنچا دی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ مزید دھندلا رہی ہے- لوگ بجلی کے بغیر صدیوں سے زندہ چلے آرہے ہیں اور رہیں گے لیکن فی زمانہ ملک بین الاقوامی ساکھ کے بغیر سانس نہیں لے سکتے- حُب الوطنی کا تصور گلوبلائیزیشن نے بدل کر خود غرضی اور موقعہ پرستی بنا دیا ہے- جس شخص کو دنیا میں جہاں بھی اچھے موقعے ملتے ہی نکل جاتا ہے یا دشمن کے آلہ کار بن جاتا ہے- پاکستان کو اس صورت حال کا انتظار نہیں بلکہ زمینی حقائق کا ادراک کرنا چاہیے.

موجودہ بحرانی صورت حال کا تقاضا ہے کہ:

1- نیلم جہلم پراجیکٹ کے لیے انوائرنمنٹ ایجنسی نے جو شرائط عائد کی ہیں ان پر بلا تاخیر کام شروع کردینا چاہیے اور وہ کام بھی واپڈا اپنی نگرانی میں مکمل کر کے دے جس کے لیے مقامی حکومت اور عدالتوں کے پاس جواب دہ ہو.

2- اس پراجیکٹ کی پیداواری صلاحیت کو 500 میگا واٹ تک لایا جائے تاکہ دریا کا رخ اور پانی کی مقدار پر فرق نہ پڑے جس پر ساری آبادی کی بود و باش کا انحصار ہے –

3- دھنی مائی صاحبہ سے امبور کے مقام تک کم از کم چار چیک ڈیم سائینٹفک بنیادوں پر بنائے جائیں جس سے شہر کا قدرتی ماحول بحال اور خوبصورتی میں اضافہ ہو –

4- اس پراجیکٹ کے لئے jaica سے جو سب سے پہلی اسٹڈی کرائی گئی تھی اسی ڈیزائین کے مطابق پراجیکٹ کو ڈھال دیا جائے ورنہ اس کی پیداواری صلاحیت پچاس فیصد کم کی جائے.

اس پر تسلی بخش کام ہونے کے بعد کوہالہ پراجیکٹ پر آزاد کشمیر ماحولیاتی اتھارٹی اور حکومت آزاد کشمیر کے ساتھ معاہدہ کے بعد اس پر کام کا سوچا جائے، وگرنہ اس کا خیال بھی ذہن سے نکال دیا جائے- واپڈا اور حکومت پاکستان کے چند دیگر اداروں کی وجہ سے اعتماد کا نا قابل عبور بحران پیدا ہوا ہے،اس کو عملی اقدامات سے دور کرنا پڑے گا- کوہالہ پراجیکٹ قومی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے جو ضرور بننا چاہیے لیکن ہم بھی قوم کا حصہ ہیں ، ہماری قیمت پر یہ نہیں بنایا جا سکتا-

ہمیں واپڈا اورآزاد کشمیر کے پانیوں کو استمعال کرنے والے کسی ادارے پر اعتماد نہیں رہا ہے کیونکہ واپڈا نے نہ تو منگلا ڈیم کے بنانے کے وعدہ وعید پورے کیے، نہ ہی منگلا ڈیم کی رائیلٹی اور بجلی پر کمائے جانے والا منافع دیا-آزاد کشمیر کی بجلی کی کل ضرورت 320 میگاواٹ ہے جبکہ یہاں سے نیشنل گریڈ 2200 میگا واٹ سے زائد بجلی جاتی ہے-اس کے برعکس یہاں 10 گھنٹے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو ہم اس نوع کی خانہ ویرانی کیوں کرائیں؟

جو سیاست دان یہ بیان دیتے ہیں کہ ہم پورا آزاد کشمیر پاکستان کو روشن کرنے کے لیے قربان کریں گے ، ان کےگھر راولپنڈی ، اسلام آباد اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں ہیں ، ان کی بات وہ لوگ نہیں مانتے جن کا گزر بسر صرف یہاں کے ماحول پر موقوف و منحصر ہے – اس کا ادراک پاکستان کے سب اداروں کو کرنا چاہیے

5- مستقبل میں اس طرح کے قومی اہمیت کے حامل منصوبوں اور تنازعات کے حل کے لیے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ان آئینی اداروں میں شامل کیا جائے جو ملک بھر کے لئے پالیسیز بناتے اور فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں تاکہ ملک بھر کے نمائندوں سے مل کے ایسے منصوبے بنائے اور چلائے جائیں- منگلا ڈیم سے میرپور کے لیے شہر کی ضرورتوں کے مطابق واٹر سپلائی کا اہتمام کیا جائے تاکہ اعتماد کے اس سنگین بحران کو پاٹا جائے-

زمینی حقائق سے ماورا فیصلوں نے گلگت بلتستان کے پر امن ، جان نثار اور مخلص پاکستانی سوچ رکھنے والے لوگوں کو بھی تحفظات کا شکارکر دیاہے ، آزاد کشمیر میں تو متبادل سوچ بھی موجود ہے اور دنیا اس کی تاک میں ہے، اس کا بھی ادراک کریں –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے