یکجہتی کشمیراورآزادکشمیرکی ڈھولچی حکومتیں

حقائق کی تلاش میں مصلحت یا ترجیحات کی تبدیلی،اسے کوئی بھی نام دیا جائے حقیقت یہ ہے کہ تنازعہ کشمیر کے حوالےسے باشندگان کشمیر سے زیادہ سرزمین کشمیر زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے ۔

مارنے اور مروانے کی مشق کا شکار ، اہل ریاست جموں و کشمیر بنیادی فریق ہونے کے باوجود مذاکرات کی میز پر اپنی نمائندگی خود کرنے سے محروم ہیں ۔ حق خود ارادیت کے دائرے کے قیدی اٹوٹ انگ اور شہ رگ کی صفوں میں کھڑے باہم دست و گریباں ہیں ۔ اسی وجہ سے گزشتہ سات دہائیوں میں مشترکہ بیانیہ سامنے نہ آ سکا۔سوال یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے نئی سوچ کو جگہ مل پائے گی یا 70 سال سے موجود جذباتی فضا اور انا کے کھیل کی مشق جاری رہے گی؟

ہندوستان کی طرف سے اٹوٹ انگ کا دعویٰ ظلم و جبر کے سہارے آخری سانسیں لے رہا ہے. بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے ۔اور آزادکشمیر میں اس عوامی مزاحمت اور خون کے صدقے اقتدار کا کاروبار جاری ہے ۔ معاہدہ کراچی جو حکومت آزادکشمیر اور حکومت پاکستان کے درمیان 28 اپریل 1949 کو ہوا اس کے تحت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے حکومت آزادکشمیر کے اختیارات لے لیے گئے تھے ۔ 1949 کے بعد کی آزادکشمیر کی حکومتوں سے ڈھولچی کا کردار ادا کروایا گیا ۔

باشندگان ریاست جموں و کشمیر سے عملی اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان کے حکمرانوں کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی ، اخلاقی اور سفارتی حمایت کے حقیقی تقاضوں کو پورا کرنا ہو گا، خارجی محاذ پر اخلاقی اور سفارتی حمایت کا دعویٰ اسی شکل میں عملی شکل اختیار کر سکتا ہے ، جب پاکستانی حکمران ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کی متفقہ قیادت کو عالمی سطح پر نمائندگی دلوانے میں اہل کشمیر کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ کسی بھی ایسی سوچ عمل یا پیش رفت کی مخالفت جس میں اہل کشمیر کو بطور فریق اپنی بات کرنے کا موقع مل رہا ہو ایسا رویہ ہے جو خارجی موقف سے متضاد ہے ۔

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکمرانوں کے بیانیے کو اگر دیکھا جائے تو مایوسی کے علاوہ کوئی لفظ نہیں ۔ 15اگست 1947 کو ہری سنگھ سے جو معاہدہ قائمہ کیا گیا اسے 22 اکتوبر 1947 کو کشمیر پر حملہ کر کے توڑ دیا گیا ، 24 اکتوبر 1947 کو اس خطہ میں ایک مبینہ نمائندہ حکومت قائم کی گئی ، اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر کے حوالے پہلی دو قراردادوں میں ریاست جموں کو کشمیر کا بھارت سے الحاق اہل کشمیر نے نہیں پاکستان کے حکمرانوں نے تسلیم کیا۔

ایوب خان اور نہرو کے درمیان 19 ستمبر 1960 کو جو سندھ طاس معاہدہ ہوا اس میں ریاست جموں و کشمیر کے تین دریائوں پر بھارت کا حق تو تسلیم کیا گیا مگر اہل کشمیر کا ان دریائوں پر آج تک حق تسلیم نہیں کیا جا رہا ، شملہ معاہدہ میں مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مسئلہ بنا دیا گیا ، 2003 کی فائر بندی کے بعد بھارت نے سیز فائر لائن پر باڑ لگا دی ۔

عالمی سطح پر اہل کشمیر کی طرف سے نمائندگی کی کوشش کی ہندوستان کی طرف سے مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے مخالفت ہمارے نزدیک المیہ سے کم نہیں .

فرسٹ آپشن مکمل آزادی یا حق خود ارادیت کی کبھی حمایت ، کبھی مخالفت یقینا طویل المدت حکمت عملی کا تقاضا ہے۔ لیکن ایک ایسی حکومت جو معاہدہ قائمہ کو توڑ کر تشکیل دی گئی جسے بعد ازاں انقلابی حکومت کا نام بھی دیا گیا اور اسے آزادی کے بیس کیمپ کی نمائندہ حکومت بھی کہاجاتا ہے ۔ ناقابل اعتبار کیوں؟ اس سے صرف ڈھولچی کا کام کیوں لیا جا رہا ہے ؟ کیا یہ سب کچھ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پیش کردہ بیانیے سے ہٹ کر نہیں۔

کیا اظہار یکجہتی اسے کہتے ہیں؟ نہایت ادب اور احترام سے گزارش ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کو زمین کا نہیں انسانوں کا مسئلہ سمجھا جائے۔ یہاں کے باشندگان کو بطور ٹشو استعمال نہ کیا جائے۔آپ کی اپنی تشکیل کردہ آزادکشمیر حکومت اگر بے اختیار ناقابل اعتبار ہو گی تو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے لیے اس میں کیا کشش ہو گی؟

قرون اولیٰ ، نشاط ثانیہ کی جاذب نظر عمارت کی تعمیر کے خواب زمینی حقائق کے ادراک سے ہی ممکن ہیں ، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی عوام کی اظہار یکجہتی کی حدود سیز فائر لائن کے اس پار ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی قراردادیں منقسم ریاست جموں و کشمیر کے تمام حصوں میں آباد باشندوں کے بنیادی حق’’حق خود ارادیت‘‘ کی ضامن ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے