دیوانہ بدخشانی

روس افغانستان سے نکل چکا تھا، افغان جنگجو سردار مختلف علاقوں پر قابض، خوفناک خونریزی و خانہ جنگی میں مصروف تھے، کفار کے خلاف اسلامی جہاد کا اسپانسر امریکہ تھا۔ پندرہ سالوں کے دوران پاکستان میں ڈالرز اور افغان مہاجرین کی کوئی کمی نہ تھی۔ کراچی میں جا بجا مہاجرین نظر آتے تھے بلکہ سہراب گوٹھ کا علاقہ چھوٹا افغانستان بن چکا تھا۔ قبائلی علاقہ جات کی صورتحال مختلف تھی جہاں عرب، ازبک، چیچن اور جانے کون کون سے ممالک کے جہادی جوق در جوق بسائے جا رہے تھے۔ بہرحال الآصف اسکوائر میں دوستوں کیساتھ افغانی کھانے کا لطف اٹھانے جاتے تو قبائلی ماحول مفت مل جاتا، بڑی بڑی پگڑیاں، اجنبی لہجے، چہرے اور روایات، الآصف اسکوائر کے پیچھے وسیع رقبے پر پھیلے کچے پکے مکانات، جھونپڑیوں پر مشتمل افغان بستی، جہاں سیکورٹی اداروں سمیت کسی کو داخلے کی ہمت تھی نہ اجازت، خیر جناب تین، چار ہوٹل تھے، افغانی پلائو، شوربہ، تکے اور پھر گرما گرم قہوہ خوب مزہ دیتے تھے۔ اس وقت افغان عوام جنگجو سرداروں کی وفاداریوں سے بندھے تھے، کسی ہوٹل پر عبدالرشید دوستم، کسی پر احمد شاہ مسعود، گلبدین حکمتیار اور دکانوں پر بھی اسی طرح جنگجو سرداروں کی بڑی بڑی تصاویر لگی ہوا کرتی تھیں۔ ہوٹل کا نام تو یاد نہیں، عروج، شہاب اور میں عبدالرشید دوستم والے ہوٹل میں کھانا کھاتے، ایسا نہیں کہ دوستم سے محبت تھی مگر وہاں کا ویٹر دیوانہ بدخشانی اتنی اپنائیت سے کھانا کھلاتا اور ایسی دلچسپ باتیں کرتا تھا کہ مزہ دوبالا ہو جاتا۔ تھوڑا پڑھا لکھا بھی تھا موڈ میں ہو تو افغان داستان گوئی کے جوہر بھی دکھلاتا تھا۔

ایس میں یکایک ملا عمر اور طالبان کا نام سامنے آیا، امریکہ کی آشیر باد، پاکستان کی سرپرستی، سعودی اور متحدہ عرب امارات کی تھپکی، قندہار سے اٹھنے والے طوفان کے سامنے افغان بے نامی حکومت زیادہ دیر نہ ٹہر سکی۔ افغانستان میں اسلامی حکومت کے نام پر طالبان کی سخت گیر حکومت سے مہاجرین کی واپسی کی امید پوری ہوئی نہ پاکستان کی سرحد محفوظ ہو پائیں۔ بہرحال ملا عمر 96 سے 2001 تک افغانستان کے سربراہ رہے، طالبان اور اسامہ بن لادن، دونوں انکل سام کے پروردہ لاڈلے، مگر نائن الیون کے بعد کایہ پلٹ گئی، اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار پر ملا عمر اور طالبان دنیا کیلئے عظیم خطرہ قرار پائے۔ امریکی فوج افغانستان میں اتار دی گئی، حامد کرزئی، اشرف غنی حکومتیں نیٹو فوج کی چھتر چھایہ میں کابل پر حکومت کرتی رہیں۔ سمجھ تو شاید بہت پہلے آگیا تھا مگر اب سترہ سال بعد امریکہ بہادر اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنے کیلئے بیتاب ہے۔ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ بالاخر امریکہ نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ جلد از جلد افغانستان سے نکلنے کا خواہشمند ہے، اشرف غنی حکومت اور کابل کی پرواہ کیے بغیر، ویسے بھی روس ہو یا امریکہ، دونوں کی حاکمیت صرف کابل تک ہی محدود رہی ہے۔ گزشتہ 40 سالوں سے کابل کے باہر یا کم از کم 80 فیصد افغانستان پر طالبان اور جنگجو سرداروں سکہ چلتا رہا ہے۔ جنرل ضیاالحق کی حکومت کیلئے نادر موقعہ، یہ وہی دور تھا جب بڑے بڑے مدبر اخبارات میں جہادی کالم لکھا کرتے تھے، عظیم صوفیانہ دانشور ٹی وی کیلئے مجاہدانہ کشف و کرامات سے بھرپور ڈرامے لکھتے تھے، گویا پورا ماحول بنایا گیا تھا۔ آج چالیس سال بعد 60 ہزار بیگناہ جانیں معاشرے سامنے سوالیہ نشان بنی ہم سے اپنا قصور پوچھ رہی ہیں۔ روایات، معشیت سب کچھ تباہ، پورا معاشرہ فرقہ وارانہ منافرت کا شکار، برادرانہ جذبات اپنی جگہ مگر کیا یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ طالبان کے پانچ سالہ دور حکومت میں ہمیں کوئی بھی فائدہ پہنچا، حتیٰ کہ ڈیورنڈ لائن تک کا مسئلہ حل نہیں کروا سکے، تو پھر یہ قربانیاں کس کیلئے؟

افغانستان میں روس کی آمد 1979، لگ بھگ 15 سال فوج کشی کے بعد گرم پانیوں تک پہنچنے کا خواب ادھورا چھوڑ کر واپسی، گویا امریکہ نے افغانستان کو روس کیلئے ویتنام بنایا اور شاطرانہ چال سے بغیر کسی جنگ کے سوویت یونین کے حصے بخرے کر ڈالے۔ 2001 میں نائن الیون کے بعد امریکی فوج افغانستان پہنچی، شدت پسند، جنگجو، عسکریت پسند یا دہشتگرد، جو کہنا چاہیں آپ کہیں، بہرحال ہوا یہ امریکی فوجی آپریشن کے بعد یہ عناصر جو افغانستان تک محدود تھے پوری دنیا میں پھیل گئے۔ پاکستان تو خیر اسلامی اخوت کے جذبے کے تحت مہاجرین، ہیروئن، کلاشنکوف اور جانے کیا کیا کچھ جھیلتا رہا اور جھیل رہا ہے مگر مشرق وسطیٰ سے لیکر یورپ تک، افریقہ سے امریکہ تک کوئی ملک محفوظ نہ رہا۔ اب 17 سال بعد امریکہ قطر میں طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے اور طالبان کی ہر بات ماننے پر بھی تیار ہے۔ روس اور امریکہ، دونوں سمجھتے تھے کہ افغانستان کو من پسند حکومت کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے مگر یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ سنگلاخ چٹانوں کے سرزمین کو کبھی جیتا نہیں جا سکا۔ نادر شاہ درانی اور احمد ابدالی کا افغانستان تاریخ میں ایک مشکل خطہ رہا ہے، جب ہندوستان میں انگریز کا راج تھا، 1839 سے 1842 تک انگریزی فوجیں افغانیوں سے بر سر پیکار رہیں۔ چھ سالوں بعد ساڑھے 18 ہزار میں سے صرف ایک انگریزاسٹنٹ سرجن ڈاکٹر برائڈن واپس ہندوستان پہنچ پائے تھے۔

روس گیا تو امریکہ بھی افغانستان میں ٹہر نہ سکا، بہرحال یہ بڑوں کی جنگ تھی، اسکے مقاصد اور مطالب بھی کچھ اور تھے۔ شاید اسی لیے آج تک یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ یہ جنگ ہماری تھی یا امریکہ کی اور شاید ایک کنفیوزڈ قوم یہ فیصلہ کبھی کر بھی نہ پائے۔ بہرحال اس وقت سب سے بڑا چیلنج پاکستان کیلئے ہے۔ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت بنے گی، موجودہ صورتحال میں افغانستان اور طالبان میں پاکستان کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم قطر مذاکرات کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ طالبان قیادت پاکستان سے خوش نہیں تو دوسری جانب اشرف غنی حکومت اور عام شہری پاکستان کو دوست تصور نہیں کرتے۔ ایران امریکا سے محاذ آرائی میں الجھا ہوا ہے، اس صورتحال میں بھارت نے نہ صرف خود کو تنازعات سے علیحدہ رکھا ہے بلکہ افغانستان میں ترقی کے متعدد منصوبوں کیلئے امداد بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ طالبان طویل جنگ کے بعد تھکے ہوئے ضرور ہیں مگر انہیں آس پاس ہمدردوں کی بھی ضرورت ہے، بھارت اس صورتحال کا پوری طرح فائدہ اٹھا کر پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کریگا۔ امریکی فوج کی واپسی کے بعد کا افغانستان کیسا ہو گا، اس بارے میں رائے مختلف ضرور ہو سکتی ہے مگر اس حقیقت سے بہرطور انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ خطے کی بڑی تبدیلی پاکستان پر براہ راست اثر انداز ہو گی۔ ہم میں ماضی اور غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں، ہمارا کپتان کی حکومت اندرونی و سیاسی مسائل میں ایسی الجھی ہوئی ہے کہ عالمی تبدیلیوں پر غور کرنے کی مہلت کہاں، حقیقت یہ ہے کہ نیا افغانستان، نئے پاکستان کیلئے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔

جب دوستم والے ہوٹل میں افغانی تکے اڑاتے تو ویٹر دیوانہ قریب بیٹھ کر اپنے ملک کی باتیں کرتا اور کھو جاتا، اس سے پوچھا جاتا کہ واپس کب جا رہے ہو تو پورا وجود کھل اٹھتا پھر دیوانہ علامہ اقبال کی شاعری لہک لہک کر گنگناتا

آسیا یک پیکر آب و گل است
از فساد او، فساد آسیا
ملت افغان در آن پیکر دل است
از کشاد او، کشاد آسیا

چمکتی آنکھوں میں وطن کے خواب سجائے کھڑی اردو میں ترجمہ بھی سناتا، تومارا داکتر اقبال بولا، ایشیا، مٹی اور پانی کی مورت اور افغانستان اسکا دل، افغانستان کا فساد پورے ایشیا کا فساد اور اسکا امن پورے ایشیا کا امن

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے