کیاخدا اور مذہب پہ اٹھنے والے سوالات کا رخ درست ہے؟

انسانوں کے درمیان جب جب کسی معاملے میں بحث کی سی کیفیت پیدا ہوئی تو انسانوں نے اپنے موقف کے حق میں اور بعض نے اسکے خلاف بڑے غیر معملولی دلائل پیش کئے۔

بعین ہی معاملہ مذہب کا ہے۔ تحقیق اور جراتِ تحقیق ہر کسی کو نصیب نہی ہوتی۔اور اس سب میں خلوصِ نیت ہی وہ واحد چیز ہے جو انسان کو حق کی صیح پہچان کرواسکتی ہے۔

الحاد نے جب جب خدا کی موجودگی کا انکار کرنا چاہا تو انہوں نے فلسفے اور سائنس کو بطور دلائل پیش کیا۔ دلائل کا رد جب بھی کیا جاتا ہے تو ایک بات پیش نظر رکھی جانی ضروری ہوتی ہے جو الحاد نے ہمیشہ نظر انداز کی ہے کہ سامنے بیٹھا شخص یا کوئی بھی علم کس طریق پہ اپنی بات کو واضح کر رہا ہے۔

مثلاَ اگر میرے سامنے بیٹھا شخص مجھے کوئی دلیل فلسفے سے دے رہا ہے اور میں اسکا رد سائنس سے کرکے الٹی قلابازیاں لگا رہا ہوں تو علمی دنیا میں میرے ان دلائل کی کچھ اہمیت نہی۔ شائد میں کچھ وقت کے لئے اپنے آپ کو یا سامنے بیٹھے لوگوں کو مطمن تو کرلوں لیکن اصل میں ان دلائل کی کوئی اہمیت نہی۔۔

مذہب کے بارے میں ہماری بدقسمتی ہی کہہ لجیئے کہ ہم اسکی اصل کو کبھی سمجھنا نہی چاہتے۔ ہمیں ہر حال میں اسکا رد چاہیے کیونکہ اب الحاد اور مذہب کا مسئلہ ایک علمی مسئلہ نہی یہ ایک جنگ بن چکی ہے جو ہمیں ہر دو صورت میں جیتنی ہے۔جب علمی دنیا میں ایسی کیفیات پیدا ہو جائیں تو حق تک پہنچنے کے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں خواہ وہ مذاہب کی دنیا ہو یا الحاد کی۔

شائد اسکی وجہ ہماری انا ہے۔ ہم نے اگر درس ںظامی کر رکھا ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ دین کو ہم سے بہتر کوئی نہی جانتا اور اگر سائنس کی کوئی ڈگری حاصل کرلی تو تو ہم ہی سائنس کے سٹیفن ہاکنگ ہیں۔

یہی وہ چیزیں ہیں جو حق کے راستے میں رکاوٹ بن کے کھڑی ہیں۔
بات کو سمجھانے کے لئے میں اکثر ایک مثال دیا کرتا ہوں۔

"فرض کریں میں آپ سے کہتا ہوں کہ میرے پاس ایک بوتل ہے میں اسمیں پانی ڈالتا ہوں تو اسکا رنگ کھٹا ہو جاتا ہے۔”
آپ نے میری بات نہی مانی!
اب میرے پاس دو راستے ہیں۔
1: میں آپکو بوتل لا کہ دکھا دوں اور وہ سارے عمل کا تجربہ کروا دوں۔
2: میں آپکو بتاؤں کہ اصل معاملہ ایسا ہے کہ میرے پاس جو بوتل ہے اسکا رنگ کھٹا ہے جب میں اسمیں پانی ڈال دیتا ہوں تو پانی بھی کھٹا دکھائی دینا شروع ہو جاتا ہے۔

اب اگر میری بات کا آپکو رد کرنا ہے تو آپکے پاس صرف ایک راستہ ہے جس سے میں نے آپکو بات واضح کی۔ پہلی صورت میں آپ مجھے تجربہ کروا دو گے اور دوسری صورت میں آپ مجھے عقلی دلیل دے دو گے کہ ایسا ناممکن ہے،

کسی بھی دلیل کے رد کے لئے جس انداز میں دلیل دکی گئی اسکو سمجھنا اور پھرا سکے قریب قریب کے طریق پہ اسکا رد بہت ضروری ہے اور میرے نزدیک یہی اصولی بات ہے۔اب مجھے بتائیں اس پورے معاملے کے رد یا ثبوت میں کسی لمبی چوڑی بحث کی ضرورت ہے؟

نہی ناں، میں نے ایک تجربہ کیا آپ اسکے مخالف دوسرا تجربہ کردیں یا دوسری صورت میں بہتر عقلی دلیل فراہم کردیں۔ وہ کسی صورت میں بھی ہو سکتی ہے، لیکن اس بات کا خیال رکھا جانا ضروری ہے کہ علم ریاضی کا رد علم فلسفہ یا کوئی ایسا علم نہ بنایا جائے بلکہ ریاضی کا رد ریاضی، اور مشاہدے کا رد مشاہدہ ہی ہونا ایک صیح بات ہے!

ہاں اگر کوئی چاہے تو کیمسڑی، کاسمولوجی، فزکس اور جو بھی علوم اسے صیح معلوم ہوں انکی بحثیں ان میں شامل کرکے بات کو جتنا مرضی پیچیدہ بنا لے۔

یہی معاملہ ہم نے مذہب کے ساتھ کیا۔ مذہب اپنی بات کے حق میں جب جب عقلی دلائل دیتا ہے تو اسکے لئے انسانی مشاہدے کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔

قران کو اٹھا کہ دیکھ لیں اسنے کہیں بھی علت و معلول کی لمبی بحثیں چھیڑی ہی نہی کہیں اسنے خدا کی موجودگی کی دلیل کے لئے سائنس اور فلسفے کو نہی چھیڑا ہے۔ (وہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ قران میں ان علوم کا اگر ذکر آیا ہے تو کیوں آیا ہے)

قران نے جہاں بھی دلیل دی اسنے یہی طریق اپنا کہ ذرا اپنے اردگر نگاہ دوڑاؤ، ذرا مشاہدہ کرو، ذرا اپنے اردگرد دیکھو۔ معاملہ اتنا پیچیدہ ہے ہی نہی تھا۔ قران نے مشاہدہ کروایا۔ آپ اٹھتے اور اس مشاہدے کو غلط ثابت کرنے کے لئے دوسرا مشاہدہ کرواتے بات ختم ہو جاتی۔

مثلاَ خدا کی موجودگی میں اکثر ایک مشاہدہ پیش کیا جاتا ہے کہ کوئی چیز بھی بغیر بنانے والے کہ نہی بن سکتی تو یہ دنیا کسے بن گئی؟

(سائنس اور مذہب کے تعلق کے دلائل کی حقیت کے لئے میں نے ایک مکالمہ لکھا تھا وہ بھی ہوسکا تو جلد آپکی نظر کردونگا)

اس بات کے رد کے لئے فلسفے اور سائنس کی گود میں بیٹھنا ضروری ہی نہی تھا۔ آپ اہل مذاہب کا بازو پکڑتے اور کوئی ایسی دنیاوی دلیل پیش کرتے مثلاَ کوئی موبائل، گھڑی، لیپ ٹاپ یا ایسی انسانی اشیاء خود بنتی دکھا دیتے۔

اگر نہی، تو سوال ویسے ہی موجود ہے۔ کیا پھر اس کائنات کا خود بخود بن جانا بغیر کسی کے ممکن ہے؟ کیا صرف اپنی دلیل کے لئے اپنے روزمرہ کے مشاہدات کو ٹھکرا دینگے؟

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر یہ کائنات اور اسکا نظام خود بخود بن گیا اور چل بھی گیا تو آپ بھی کچھ ایسی چیز دکھاتے جو بخود بن جاتی اور چل بھی جاتی۔ پھر اگر میں آپکو یہ کہتا

"میں کل ایک جگہ کھڑا تھا اچانک وہاں ایک مشین گری اور کھڑ کھڑ کی آوازوں سے چلنا شروع ہو گئی۔ اسکے ساتھ ہی اس میں سے ایک موبائل بن کے نکلا اور موبائل میں بیڑی اور سافٹ وئیر ہو چکا تھا۔ یہ رہا موبائل اور بغیر مشاہدے کہ میری بات مان لو”

میں موبائل دکھا کہ سائنس اور فلسفے کی لاکھ تاویلیں گڑھ کے آپکو قائل کرلیتا۔ آپ میری بات مان بھی لیتے لیکن کیا آپ بغیر مشاہدے کہ مطمن ہو جاتے؟

ایک ذی شعور انسان کبھی بھی مطمن نہ ہوتا کیونکہ یہ بات اسکے روزمرہ کے مشاہدے کے خلاف ہے۔ اس مشین کو آنکھوں دیکھ لینے کے بعد بھی انسان کو تب تک چین نہ آتا جب تک وہ اس معاملے کہ تہہ تک نہ پہنچ جاتا اور تب بھی اسے ڈر رہتا کہ کہیں اسکے ساتھ دھوکہ نہ ہو رہا ہو۔

لیکن مذہب کے معاملے میں ہم مشاہدے کو چھوڑ کہ چند ایک سائنسی اور فلسفلیانہ دلائل پہ کیوں اکتفا کرلیتے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے