حج سبسڈی کی کہانی

حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں شامل ہے جس کی اہمیت حضرت محمدﷺ نے یہ فرما کر واضح کر دی کہ جس شخص کو حج کرنے سے کسی بڑی ضرورت، کسی ظالم حکمران یا کسی بے بس کر دینے والی بیماری نے نہ روک دیا ہو اور وہ حج ادا کئے بغیر مر جائے تو اللہ کو اس کی پروا نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔(مفہوم)

حج پالیسی 2019ء میں وفاقی حکومت نے حج اخراجات میں اضافہ کرتے ہوئے شمالی ریجن کیلئے فی کس اخراجات 4لاکھ 36ہزار 975روپے جبکہ جنوبی ریجن کیلئے 4لاکھ 26ہزار 975روپے کر دئیے۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کی طرف سے ان اخراجات کی منظوری کے ضمن میں تین وجوہات بیان کی گئیں۔ پہلی وجہ سعودی ریال کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی ہے جس کی وجہ سے 63ہزار 110روپے فی کس لاگت بڑھ گئی، دوسری وجہ سعودی عرب میں رہائش، ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کی اشیاء پر ٹیکس میں اضافہ ہے جس سے فی کس اخراجات پر 76ہزار 846روپے کا فرق پڑ گیا، اسی طرح ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے ایئر لائنز کے کرائے 17ہزار روپے بڑھا دئیے گئے ہیں یوں فی کس حج اخراجات 1لاکھ 57ہزار روپے بڑھ گئے۔ حج چونکہ صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض ہے اس لئے وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ حج کی جو لاگت بڑھی ہے، وہ حاجیوں سے ہی وصول کی جائے۔موجودہ حکومت گزشتہ سال فی کس دی جانے والی 42ہزار 624روپے کی سبسڈی نہیں دے گی۔ ملکی معیشت کی موجودہ صورتحال ہرگز اس سبسڈی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بطور صحافی میری اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری اس سال سبسڈی دینے کے حق میں تھے، ان کی وزارت نے فی کس 45ہزار روپے سبسڈی دینے کی سمری بھی تیار کی اور اسے وفاقی کابینہ میں پیش کرنے سے قبل انہوں نے وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیراعظم عمران خان سے الگ الگ ملاقات بھی کی تاکہ انہیں قائل کیا جا سکے کہ وہ گزشتہ سال دی گئی سبسڈی کو جاری رکھیں، اسد عمر نے انہیں یقین دہانی کرا دی کہ اگر وفاقی کابینہ کو اس سبسڈی پر کوئی اعتراض نہ ہوا تو وہ اس کی مخالفت نہیں کریں گے لیکن وزیراعظم نے کوئی خاص امید نہ دلائی بلکہ قائل کرنے کی کوشش کی کہ حج پر تو سبسڈی دینا جائز ہی نہیں، جس پر نورالحق قادری بھی شش و پنج میں مبتلا ہو گئے۔

بعد ازاں انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے حج پر اجتماعی سبسڈی دینے کو جائز قرار دینے پر وفاقی وزیر مذہبی امور ایک بار پھر حجاج کرام کو رعایت دلوانے کی امید لئے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پہنچ گئے مگرڈاکٹر شیریں مزاری اور فواد چوہدری نے ان کی بھرپور مخالفت کی۔اس سے قبل کہ نورالحق قادری مزید بحث کرتے وزیراعظم عمران خان نے مداخلت کی اور کہا کہ ملک کی جو معاشی حالت ہے اور جس کو سنبھالا دینے کیلئے انہیں در در کے دھکے کھانا پڑ رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے قطعاً ان کا ضمیر مطمئن نہیں ہوتا کہ ایسے افراد کو سبسڈی دی جائے جو اپنے پیسوں سے حج کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کے خطاب کے بعد نورالحق قادری نے آخری کوشش کے طور پر درخواست کی کہ اس سبسڈی کو حکومت مرحلہ وار ختم کر دے لیکن ان کی یہ تجویز بھی یکسر مسترد کر دی گئی۔ یہ تو تھی مذہبی فریضے کی ادائیگی کیلئے ساڑھے 4ارب روپے کی سبسڈی نہ دینے کی کہانی! لیکن یہاں کہانی کا دوسرا رخ بھی پیش کرنا ضروری ہے کہ یہی تحریک انصاف رواں مالی سال میں مختلف شعبوں میں مجموعی طور پر 230ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے، جس میں سے 174ارب 74کروڑ 60لاکھ روپے کی سبسڈی کی منظوری پہلے مالیاتی بل میں شامل تھی جبکہ صنعتوں سمیت دیگر شعبوں میں مزید سبسڈی کا اعلان حال ہی میں دوسرے ترمیمی مالیاتی بل میں کیا گیا۔

مختلف شعبوں میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے آخری مالی سال میں یہ سبسڈی 138ارب 84کروڑ 60لاکھ روپے تھی جبکہ نظر ثانی کے بعد 147ارب 60کروڑ 40لاکھ بڑھ گئی تھی۔ قارئین! حج سبسڈی کیلئے جو حکومت ساڑھے چار ارب روپے دینے پر تیار نہیں، وہ صرف واپڈا اور پیپکو کو 134ارب روپے کی سبسڈی دینے پر مطمئن ہے۔ وزیراعظم بدانتظامی کی کلاسک مثال والے ادارے کے الیکٹرک کو 15ارب روپے کی سبسڈی دینے سے نہیں چوکتے، ریلویز کو بھی 55ارب روپے کی سبسڈی مل جاتی ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز کو 6ارب روپے، پاسکو کو 19ارب روپے، کھاد پہ 13ارب روپے، برآمد کنندگان کو 5ارب روپے سبسڈی دینے پر بھی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں، اور تو اور صرف چھ ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات پر 20ارب روپے اور حال ہی میں صرف پنجاب کی صنعتوں کو 44ارب روپے کی خطیر سبسڈی دینے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ جناب وزیراعظم صاحب! یہ درست ہے کہ حج صاحبِ استطاعت پر ہی فرض ہے لیکن پاکستان میں حج کی خواہش رکھنے والے تمام افراد صاحبِ استطاعت نہیں۔ اگر حج پر جانے والے تمام افراد صاحبِ استطاعت ہوں تو اس بار بھی 1لاکھ 12ہزار حجاج سرکاری حج کے بجائے بہتر سہولتوں کے ساتھ نجی ٹور آپریٹرز کے ذریعے ہی جاتے۔ اس لئے جناب وزیراعظم صاحب! اگر آپ کی حکومت کو 230ارب روپے کی سبسڈی دینے پر کوئی اعتراض نہیں تو حج جیسی افضل عبادت کو آسان بنانے کیلئے محض ساڑھے چار ارب روپے کی سبسڈی دینے پر غور کرنے میں کیا حرج ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے