ویلٹانئز ڈے ، فحاشی،عیاشی یا مجبوری

ویلنٹائنز ڈے کسی اجنبی دیار سے آئے عجیب و غریب حلیہ رکھنے والے شخص کی طرح نمودار ہوا اور ایک مختصر عرصے میں معاشرے کا ایک مقبول فرد بن گیا۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کلچر سے آنے والے ثقافتی مظاہر کو قبول عام حاصل نہیں ہوتا۔

زیادہ تر انہیں اشرافیہ کا طبقہ اپنا لیتا ہے جبکہ معاشرے کے دیگر دیگر طبقے اسے رد کر دیتے ہیں اور کچھ عرصے بعد یہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔

بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ ایک طویل عرصے کی مزاحمت کے بعد اس اجنبی ثقافتی قدر کی ایک مقامی شکل جنم لیتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے معاشرہ اسے قبول کر لیتا ہے۔

ویلنٹائنز ڈے کا معاملہ اس لحاظ سے منفرد رہا کہ اس نے غیرمعمولی تیزی سے سماج کی چادر پر کاڑھے ہوئے اقدار کے نقش و نگار میں اپنی جگہ بنا لی۔ اس کی کوئی مقامی شکل بھی سامنے نہیں آئی اور اسے اشرافیہ کے ساتھ ساتھ دیگر طبقوں نے بھی اپنا لیا۔ ہم نے شروع میں ڈنڈے کے زور پر اسے بھگانے کی کوشش کی، وہاں ناکامی ہوئی تو سسٹر ڈے اور حیا ڈے جیسے فرسودہ ہتھیاروں کے ذریعے اس کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور نتیجتاً سماجی اقدار کے میدان میں ہاری جانے والی جنگوں میں ایک اور شکست کا اضافہ ہو گیا۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے، ایسی شکستوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو صدیوں سے ہمارا نصیب بن چکا ہے۔

ویلنٹائنز ڈے کا ایک پہلو فرد کی آزادی سے جڑا ہے۔ اس آزادی اور اختیار کو فکری سطح پر ہم تسلیم کرنے سے انکاری ہیں جبکہ عملاً اسے تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے منافقت اور دورنگی بھی پھیل رہی ہے اور جدید دور کے مسائل کا حل تلاش کرنا بھی دشوار تر ہوتا جا رہا ہے۔ وقت کا جبر ہمیں اپنے تیز دھارے میں بہائے جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ فرسودہ اقدار کے تنکوں کو چپو کی جگہ استعمال کر کے مراجعت کا سفر کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

ویلنٹائنز ڈے کا دوسرا سرا نوجوانوں کی جنسی ضروریات سے جڑا ہے اور یہی اس کی غیرمعمولی مقبولیت کا حقیقی سبب ہے۔ ماضی میں ہمارے معاشرے نے اس مسئلے کا حل کم عمری کی شادی کے ذریعے تلاش کیا تھا۔ ایک زرعی معاشرے اور مشترکہ خاندان کی بدولت یہ حل صدیوں اور ہزاروں سال تک کامیابی سے چلتا رہا۔ جدید دور میں ایسا کرنا ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے تعلیم اور اس کے بعد اچھی جابز حاصل کرنے سے پہلے شادی کرنا ممکن نہیں رہا۔

مغربی معاشروں کو بھی ہماری طرح اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے اسے گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کلچر کے ذریعے کامیابی کے ساتھ حل کیا۔ہماری سماجی اقدار کے موجودہ ڈھانچے میں یہ راستہ اختیار کرنا ممکن نہیں۔ چونکہ ہمارے پاس کوئی متبادل حل بھی موجود نہیں اس لیے یہ مسئلہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ ویلنٹائنز ڈے اسی پیچیدگی کو بار بار سطح پر لا کر ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔

ماضی میں عورت اور مرد کا میل جول بہت کم ہوا کرتا رہا جس کی وجہ سے نوجوانوں کی جنسی ضروریات غیرفطری راستے اختیار کرتی رہیں۔ معاشرہ بھی اپنی نظریں چرا کر ان کراہت آمیز اور غیر فطری مظاہر کی اجازت دیتا رہا۔ اب تعلیم اور ملازمتوں کے ساتھ ساتھ موبائل کی دستیابی کے باعث دونوں کا میل جول بہت آسان ہو چکا ہے۔ اب اس مسئلے سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ اگر مسلمان معاشرے کوی حل تلاش نہ کر سکے تو گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا کلچر ہی واحد رستہ بچ جائے گا۔

جس طرح مسلمان معاشروں نے پردے اور عورتوں کے لباس سے لے کر خواتین کے گھر سے باہر نکلنے جیسے معاملات پر ایک طویل مزاحمت کے بعد ہتھیار ڈال دیے ہیں، اسی طرح مستقبل قریب میں اس معاملے پر بھی سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔

اس لیے ویلنٹائنز ڈے کو ایک مسئلہ سمجھنے کے بجائے ایک وارننگ یا اشارہ سمجھیں جو ہمیں بار بار اس جانب متوجہ کر رہا ہے کہ نوجوانوں کی جنسی ضروریات کا حل تلاش کیا جائے۔ اس صدا پر کان دھرنے کے بجائے اسے دھتکار دیا گیا تو یہ فطری جذبہ ہماری سماجی اور تہذیبی اقدار کے آخری قلعہ کو بھی مسمار کر دے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے