دل کا آوارگی پہ مائل ہونا

قوم کا درد سینے میں لیے بڑی مدت پھرے۔ جوانی اِسی میں گزر گئی اور بڑھاپا تو نہیں کہنا چاہیے لیکن بڑی عمر کی دہلیز پہ بھی قوم کا درد تڑپاتا رہا۔ ملکی حالات کیسے سدھریں گے، جمہوریت کیسے مضبوط ہو گی اور سوشل آزادیاں کیسے پنپیں گی‘ دل میں یہ فکر لاحق رہتی۔ لیکن جو عمر اَب ہے‘ اس کو پہنچے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دل اِس بیماری، یعنی قوم کے درد، سے آزاد ہو گیا ہے۔

اَب شام ڈھلے اور موضوعات دل کو گھیر ے میں لیے رکھتے ہیں۔ سیاسی بحث تو شام کو قطعاً اچھی نہیں لگتی۔ کوئی چھیڑے بھی تو منہ سے بے ساختہ آواز نکلتی ہے کہ یار جانے دو، کوئی اور بات کرو۔ اَب یہ یقین پختہ ہو چکا ہے کہ جو فیض صاحب نے اس ملک کے بارے میں کہا تھا‘ وہی درست تجزیہ ہے کہ حالات ایسے ہی رہیں گے اور یہ مملکت ایسے ہی چلتی رہے گی۔ انسانوں کا خمیر کبھی راتوں رات بدلا ہے؟ ہمارے قومی مزاج نے صدیوں کی تاریخ کے بعد موجودہ شکل اختیار کی ہے۔ کسی سیاسی جماعت کے جھوٹ اور مبالغے سے بھرے منشور سے تو یہ مزاج نہیں بدلے گا۔ پی ٹی آئی والوں کو دیکھیں تو ہنسی آتی ہے۔ دیگر باتوں کو چھوڑئیے اِن کی صرف شکلوں کو دیکھیے۔ کچھ خیال اُٹھتا ہے کہ تبدیلی کے پیغمبر ایسے ہو سکتے ہیں؟

بھٹو صاحب آئے تو ہماری ناتواں اور معصوم جوانی نے سمجھا کہ پتہ نہیں کون سا طوفان آنے والا ہے۔ اُن کا دور کیا گیا‘ جنرل ضیاء الحق کی رات میں ڈھل گیا۔ پھر منافقت کی ایسی لہر چلی کہ پورا ملک اُس کی لپیٹ میں آ گیا۔ لہر بھی اِتنی تیز تھی کہ اُس کے اثرات جانے کا نام نہیں لیتے۔ قوم نے کیا بدلنا تھا‘ جنرل ضیاء الحق کے رنگ میں گم ہو گئی۔ آج تک اُس دور کے اثرات سنائی دیتے اور نظر آتے ہیں۔

اُس کے بعد بھی بہت سی اُمیدیں دل میں اُٹھتی رہیں۔ ہم اپنی معصومیت میں سمجھتے تھے کہ ضیاء کا دور جائے گا‘ تو صحیح جمہوریت پروان چڑھے گی۔ جمہوریت ایسی آئی کہ قوم کی تقدیر میں جو کسر رہتی تھی‘ وہ پوری ہو گئی۔ اَب ایک لحاظ سے دل صاف ہو گیا ہے۔ کسی فضول اُمید کی جگہ اِس میں نہیں رہی۔ سیاست کے ساتھ ساتھ اخبارات سے بھی چڑ ہوتی جا رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا لگ بھگ ایک گھنٹہ اخبارات پڑھنے میں لگاتے تھے۔ اب عادت باقی ہے لیکن پندرہ منٹ میں پانچ اخباروں کو کھنگال کے پرے پھینک دیتے ہیں۔ پہلے اخباروں کا انبار لگا کے اُنہیں کچھ عرصہ رکھتے تھے کہ ریفرنس کیلئے کام آئیں گے۔ اَب پندرہ منٹ کے بعد شہزاداں جو ہماری منیجر ہے‘ اُسے کہتے ہیں کہ لو آج رات آگ جلانے میں کام آئیں گے۔ ٹی وی دیکھنے کی عادت تو کبھی پڑی نہیں۔ گاؤں اور شہر کے گھر‘ دونوں اس بیماری سے پاک ہیں۔ ٹی وی سیٹ پڑے ہیں لیکن الحمدللہ دیکھے نہیں جاتے۔

ہمارے ساتھ اُلٹا مسئلہ ہوا ہے۔ جوانی فکر اور قوم کے درد سے لبریز تھی۔ اِس عمر میں، اور ہماری عمر پاکستان کی عمر سے چند سال ہی کم ہے، فکر نام کی چیز دل سے دُور جا چکی ہے۔ محاورتاً تو یہ کہا جاتا ہے کہ سفید بال کے ساتھ پریشانیاں آتی ہیں۔ ہمیں تو سفید بالوں نے بہت سی پریشانوں سے آزاد کر دیا۔ اَب تو شامیں پسند کی موسیقی سُننے میں گزرتی ہیں یا آوارگی کے خیالات دل میں اُبھرتے ہیں۔ یہ بھی جی چاہتا ہے کہ دور دراز علاقوں کی سیر کی جائے‘ اور مختلف مزاروں پہ حاضری دی جائے۔ سیہون شریف جانے کو دل کرتا ہے اور بھٹ شاہ بھی۔ پرابلم ایک یہ ہے کہ ہمارا قومی ذوق ایسا ہے کہ ہم نے تمام پرانی جگہوں کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ پچھلے دنوں قصور جانے کا اتفاق ہوا‘ اور حضرت بُلھے شاہ کے مزار پہ حاضری دی۔ اوقاف والوں نے پرانے مزار کا ستیاناس کر دیا ہے۔ ہمارے محکمہ اوقاف اور اُن کے ساتھ منسلک آرکیٹکٹوں کی یہ سوچ ہے کہ ہر خالی جگہ پہ سنگ مرمر کا پتھر لگا دیا جائے۔ ایسی ہی تزئین و آرائش کی بدولت بُلھے شاہ کا مزار اپنی پرانی شکل کھو چکا ہے۔ حاضری تو دی لیکن دل نہ چاہا کہ وہاں زیادہ دیر رُکا جائے۔

یہی حال اسلام آباد میں مزار بری اِمام کا ہو چکا ہے۔ پرانا مزار بھی ہم نے ایامِ جوانی میں دیکھا اور اُس کی کیا خوبصورتی تھی۔ پھر اوقاف والوں کے ہتھے چڑھا اور اُس جگہ کا پرانا جادو گم ہو کے رہ گیا۔ داتا دربار کا تو پوچھیے ہی نہیں۔ وہاں بھی سنگ مرمر کا بے تکا استعمال ہر طرف نظر آتا ہے۔ یاد رہے کہ دورِ شریفاں میں اسحاق ڈار داتا دربار کے کسٹوڈین بنے ہوئے تھے۔ ایسے لوگوں کو ہمیشہ مصنوعی اخلاقیات کی لگی رہتی ہے۔ یہ اسحاق ڈار کا کرنا تھا کہ داتا دربار میں مرد اور خواتین کیلئے الگ الگ انٹری کے راستے رکھے ہوئے ہیں۔ مزاروں میں ایسا ہوتا نہیں لیکن اِن صاحب نے ایسا کر دیا۔

جو اُن کی پیسے کے حوالے سے اپنی اخلاقیات کے تقاضے اور معیار ہیں‘ وہ ہم سب جانتے ہیں۔ لیکن پاکستان کا یہ اعزاز ہے کہ ہر کوئی اہم پوزیشن والا قوم کی اخلاقیات کا ٹھیکہ اُٹھا لیتا ہے۔ جب قومی اسمبلی میں تھا تو میں نے اسحاق ڈار سے پوچھا کہ یہ تفریق داتا دربار میں کیوں رکھی ہے؟ کوئی ڈھنگ کا جواب نہ دے سکے۔
یہی ڈر سیہون شریف جانے سے روکتا ہے۔ کیا پتہ اُس کا حلیہ بھی اوقاف والوں نے برباد کر دیا ہو۔ لیکن پھر بھی ایک دن جائیں گے اور وہاں پیدل سیر کریں گے۔ ایک ہی دفعہ گیا 1981ء کی گرمیوں میں‘ جب وہاں کا عرس منعقد ہو رہا تھا۔ تمام سندھ سے خانہ بدوش وہاں جمع تھے۔ مرد تو دھمال ڈالتے تھے‘ لیکن کھلے عام خواتین بھی۔ جو سماں وہاں پیدا ہوا اُس کے نقوش آج بھی ذہن پہ ایسے ہی ہیں جیسا کہ چالیس سال پہلے۔

بدھ مت کی تلقین ہے کہ چالیس پچاس سال کی عمر کے بعد جب اپنی دنیاوی ذمہ داریاں پوری کر لی ہوں‘ تو انسان کو سفر پہ نکل جانا چاہیے۔ یہ خیال دل میں آتا ہے کہ بغل میں کشکول ہو اور ہاتھ میں مُطہر اور چل نکلیں سیہون کی طرف۔ ایک دفعہ اپنے گاؤں بھگوال سے بلکسر جا رہا تھا تو ایک نوجوان خانہ بدوش فیملی نظر آئی۔ کیا سجایا ہوا ریڑھا تھا اُن کا اور اُسے کھینچنے کیلئے ایک سفید رنگ کا خوبصورت گدھا اور ایک کالے رنگ کا۔ میں اُن کے پیچھے ہو لیا اور بلکسر اڈے کے پاس ہی اُنہیں کھڑا کر کے سوال جواب کیا۔ دنیا کی کوئی فکر اُن کے چہرے پہ نہ لگتی تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ موسم کے لحاظ سے فلاں فصل ہوتی ہے تو یہاں آ جاتے ہیں، رُت بدلتی ہے تو خوشاب چلے جاتے ہیں اور پھر کہیں اور۔ نوجوان لڑکا بھی خوبرو تھا اور اُس کی بیوی بھی بہت شکل والی۔ عجیب سا خیال دل میں اُٹھا کہ ہم بھی ایسے لاپروا اور بے فکر ہوتے۔

لیکن ہم نے بھی اپنی طرز کا ماحولِ آوارگی پیدا کر لیا ہے۔ لاہور مزدوری کے دن گزرتے ہیں‘ تو چکوال کے ہنگام کی بجائے سیدھا گاؤں آ جاتے ہیں۔ اِس موسم میں شام کی آگ جلتی ہے اور ظاہر ہے ساتھ میز پہ بھی شام کے لحاظ سے چیزیں سَجی ہوتی ہیں۔ ڈھنگ کی موسیقی سُنی جاتی ہے اور رات گئے کھانا آتا ہے۔ اَب دھراب جھیل کے قریب ایک چھوٹا سا ڈیرہ بنایا جا رہا ہے۔ مکمل ہو گا تو پھر پڑاؤ کبھی بھگوال میں ہو گا کبھی وہاں۔ اِس کے بعد اور آرزو کیا رہ جاتی ہے؟ کوئی پلاٹ شلاٹ اسلام آباد میں نہیں چاہیے۔ اسلام آباد تو ویسے ہی اَب رہنے کے قابل رہا نہیں۔ وہاں ہے کیا کہ لوگ مرے جاتے ہیں کہ کاش وہاں کوئی گھر ہو۔ لاہور دل کرتا ہے مسکن بنانے کو لیکن پھر جب اپنے گاؤں سے مقابلہ کرتے ہیں تو گاؤں ہی بھلا لگتا ہے۔ ویسے بھی مزدوری کی خاطر تین دن لاہور رہنا پڑتا ہے اور جس سرائے میں رہتے ہیں وہاں شہر رہنے کی تمنا پوری ہو جاتی ہے۔ تین دن بعد دل یہی چاہتا ہے کہ گاؤں واپس بھاگیں۔

قوم کیسے سُدھرے گی یا صحیح راستے پہ آئے گی یہ فکر دل سے جا چکی۔ اَب فکر ایک ہی ہے کہ شام اچھی گزر جائے اور صحت تندرست رہے۔ کھانا کھا لیں اور وہ ہضم ہو جائے۔ کچھ اور بھی استعمال کر لیں اور جگر بغاوت نہ کرے۔ انسان کو زندگی میں اورکیا چاہیے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے