تحریک آزادی کشمیر کا خطرناک موڑ!

ریاست جموں و کشمیر آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد کو ایک صدی ہونے کو ہے ، اس دوران آزادی اور حق خودارادیت کے جذبے کو دبانے کے لئے ڈوگرہ اور بھارت سرکار نے ہر حربہ استعمال کیا مگر ریاست جموں و کشمیرکے عوام کے جذبہ حریت ختم اور نہ کم کیا جاسکا،اگر ہم کشمیریوں کی 90سالہ جدوجہد کو مدنظر رکھیں تو تحریک آزادی کشمیر کو کئی نشیب و فراز سے گزرنا پڑا، لیکن قیادت نے کبھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے تحریک آزادی کو نقصان پہنچے۔ بھارت نے آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے لوگ بھی خریدے ، لسانی ، مذہبی اور علاقائی تفریق بھی پیدا کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ مظالم کی انتہا کردی ، 30سال سے 7 لاکھ بھارتی فوجی وادی میں موجود ہیں اور اس دوران ایک لاکھ سے زائد افراد نے قربانی دی، لاکھوں متاثر اور کھربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا مگر جذبہ حریت میں کمزور نہیں کیا جاسکا۔

بھارت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ کسی طرح تحریک آزادی کو عالمی برادری کے سامنے آزادی کی بجائے دہشت گردی یا بھارت کے اندر بد امنی کی کوشش قرار دیا جائے مگر 1998ء تک سفارتی میدان میں بھارت کو زیادہ کامیابی نہیں ملی ۔ کرگل جنگ میں ہماری کمزور پالیسی نے پہلی بار ہمیں عملاً دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کردیا اور 9/11کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف عالمی سازش کا فائدہ اٹھایا اور ہم مزید دفاعی پوزیشن میں چلے گئے، کیونکہ بھارت دنیا کے سامنے یہ تاثر دینے میں کسی حدتک کامیاب رہا کہ اس تحریک میں اصل کردار بیرونی قوتوں یعنی پاکستان کا ہے اور رہی سہی کسر کچھ تنظیموں کے دعووں اور اعلانات نے نکال لی ۔ بھارتی سفارتی کامیابی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی برادری میں نہ صرف ہماری پوزیشن کمزور ہوئی بلکہ تحریک آزادی کشمیر کو بھی شک سے دیکھا جانے لگا۔ اس مشکل مرحلے پر تحریک آزادی کشمیر کی قیادت نے انتہائی سنجیدگی سے ایک مرتبہ پھر تحریک کو منظم کیا اور 2008ء کے بعد پھر تحریک سیاسی میدان میں نئے جوش و جذبے سے اٹھی ۔

9/11سے پہلے اور بعد تقریباً دو دہائی تک بھارت نے کشمیر میں طالبان اور القاعدہ کے نام پر دنیا کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی مگر کشمیری قیادت نے اس سازش کو ناکام بنادیا۔2014ء کے بعد’’ داعش‘‘ کے نام پر بلیک میلنگ شروع ہوئی۔ بھارت نے تحریک آزادی کو ’’داعش‘‘ سے جوڑ نے کی بہت کوشش کی مگر کشمیری سیاسی اور عسکری قیادت نے کمال دانشمندی سے بھارت کی اس سازش کو ناکام بنادیا مگر خوف برقرار تھا۔ 14فروری 2019ء کو سرینگر۔جموں شاہراہ پر واقع لیتہ علاقے میں جموں سے ’’ سی آر پی ایف‘‘ سرینگر جانے والے بھارتی نیم فوجی دستوں پر مبینہ خودکش حملے نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نیا موڑ آیاہے۔ ڈہائی ہزار فوجیوں کے درجنوں گاڑیوں پر مشتمل اس قافلے کی دو بسیں نشانے پر آگئی اور تادم تحریر 49 بھارتی فوجیوں کے مرنے کی تصدیق ہوچکی ،جبکہ درجنوں زخمی ہیں ۔

عام حالات میں کسی بھی عسکری تحریک میں اس طرح کی کارروائی بہت بڑی کامیابی قرارپاتی ہے مگر تحریک آزادی کشمیر کے لئے یہ کارروائی خوفناک ثابت ہوسکتی ہے بالخصوص جب ایک عسکری تنظیم کی قبولیت کے دعوے بھی سامنے آ ئے ہیں۔ کشمیری مجاہدین میں جھڑپوں کا سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے مگر 1990ء کے بعد سب سے بڑی اور اس نوعیت کی یہ پہلی کارروائی ہے جس میں خودکش حملہ ہوا ہو۔بھارتی دعوے کے مطابق مبینہ خود کش حملہ پلوامہ کے عادل احمد ڈار نے کیا جس کا تعلق جیش محمد سے تھا۔اس واقع کے بعد بھارت نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے خلاف بھرپور انداز میں اپنا محاذ کھولا ہے۔

بیشتر مبصرین اور تحریک آزادی کشمیر پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کا بھارت کو فائدہ اور تحریک آزادی کو نقصان ہوسکتا ہے ۔ بھارت میں رواں برس عام انتخابات ہیں اور مبصرین ایک سال سے دعویٰ کر رہے تھے کہ مودی حکومت بھارت کی ناکام حکومتوں میں سے ایک ہیں اور مودی دوبارہ کامیابی کے لئے کئی آپشن استعمال کرسکتے ہیں ،جن میں بھارت میں ہندو مسلم فسادات، کشمیر میں تحریک آزادی کو دبانے کی کوشش، کشمیر میں پہلی بار ہندو وزیر اعلیٰ کا انتخاب اور پاکستان کے خلاف کوئی بڑی کارروائی جو سرجیکل اسٹرائک ، محدود جنگ یا پاکستان کے اندر خلفشار پیدا کرنے کی کوشش کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو مودی نے ابتدائی تینوں حربے استعمال کئے مگر ناکامی کا سامنا رہا اور حالیہ مبینہ خودکش حملے کو آخری منصوبے کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔حالات پر غور کیا جائے تو اس میں عالمی دیگر کردار بھی نظر آتے ہیں ۔

مبصرین سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان سے چند روز قبل (13 فروری کو)ایرانی بلوچستان میں خود کش حملے میں 41ایرانی پاسداران انقلاب کے اہلکاروں کی ہلاکت اور اس کی ذمہ داری ’’جیش العدل‘‘ اور پھر14فروری کو کشمیر پلوامہ میں اسی نوعیت کی کارروائی اور اس کی ذمہ داری ’’ جیش محمد ‘‘سے منصوب کرنے کو ایک ہی منصوبے کا حصہ قرار دے رہے ہیں ۔ اگر سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان پر ایران اور اس کے حامیوں کے سخت ردعمل اور18فروری کو عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبوشن جادیوکے کیس کی سماعت کو مد نظر رکھا جائے تو بات کسی حد تک واضح ہوتی ہے۔

یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ جن دو تنظیموں نے دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے دونوں ممالک (بھارت اور ایران)ان کا تعلق پاکستان سے جوڑتے رہے ہیں اور دونوں ممالک کے ردعمل میں بھی تقریباً یکسانیت ہے ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ دونوں حملوں کی نوعیت تقریباً ایک طرح کی ہے ۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اب ایران پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پر نہ صرف شدید خدشات کا اظہار کرے گا بلکہ پاکستان نے اس کے خدشات کو سنجیدہ نہ لیا تو سخت ردعمل بھی ظاہر کرسکتاہے ، جبکہ بھارت تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دلانے اور پاکستان کو دبائو میں لانے کی کوشش کرے گا اور مودی اپنی اس کوشش کو انتخابات میں کامیابی کے لئے استعمال کرسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت سعودی عرب کے ولی عہدہ محمد بن سلمان کے دورہ بھارت کے موقع پر اس کو اہم ایشو کے طور پر پیش کرے اور اسلامی دنیا کو بھی تحریک آزادی کشمیر سے بد ظن کرنے کی کوشش کرے ۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان اور متوقع بڑی سرمایہ کاری سے مذکورہ دونوں ممالک کو سخت خدشات اور پریشانی ہے اور اس لئے ہر دوطرف سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہوگا، مگر سب سے زیادہ امتحان کشمیریوں کے لئے ہوگا کہ وہ اپنی ایک صدی کی تحریک آزادی اور حق خودارادیت کو حالات کے شر سے کیسے محفوظ رکھیں ۔ تحریک آزادی کشمیر میں یہ ایک خطرناک موڑ ہے ، اس موقع پرکسی طرح کی کوتاہی اور غیر سنجیدگی ’’لمحوں نے خطاء کی، صدیوں نے سزاپائی ‘‘کے مصداق ہوسکتی ہے اور صبر و تحمل ، دانشمندی اور سنجیدگی سے بھارتی سازش کو ناکام بنایا گیا تو تحریک آزادی کے لئے ’’غیبی مدد ‘‘ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

اس لئے تحریک آزادی کشمیر کی قیادت اور پاکستان کو انتہائی ہوشیار رہنے کے ساتھ ساتھ بھارتی پروپیگنڈے کا صبر و تحمل ، دانشمندی اور سنجیدگی کے ساتھ بھرپور جواب دینا ہوگا، مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز قیادت بھی حالیہ واقعہ کو پاکستان سے جوڑنے کو مسترد کرچکی ہے اور ہمیں ان کے اس موقف سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ اس بار ہم نے دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے سابق آمر مشرف والا رویہ اختیار کیا تو پھر ہماری مشکلات میں اضافہ ہو نا یقینی ہے۔ ہمیں مشکلات سے بچنے کے لئے تمام اختلافات اوراندرونی خلفشار سے بچتے ہوئے یک زباں ہوکر دونوں ممالک کو ان کے رویوں کے مطابق جواب دینا ہوگااور اسی میں ہماری کامیابی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے