ہمارے ذہنوں کی گندگی

میں جس جگہ رہتا ہوں وہ ایک بارونق سڑک ہے، ایک طرف دکانیں ہیں دوسری طرف مشہور ریستوران ہے جہاں ہر وقت گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں، ایک دو بیوٹی پارلر ہیں، ایک اکیڈمی ہے، ایک آدھ مہنگے فرنیچر کا شوروم بھی ہے۔ یہا ں سب پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں، جن میں سے اکثر ملک میں تبدیلی کے خواہش مند ہیں، سب کے پاس گاڑیاں اور نوکر چاکر ہیں، روپے پیسے کی کمی نہیں۔ اس علاقے کا مگر حال یہ ہے کہ سڑک کے کونے پر کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لیے جو بڑا سا ڈرم موجود ہے، نہ صرف وہ کوڑے سے بھرا رہتا ہے بلکہ اس کے اردگرد آٹھ دس میٹر تک گندگی کا ڈھیر لگا ہوتا ہے،

کوڑا اٹھانے والی گاڑی شاید دن میں ایک مرتبہ آتی ہے اور کوڑا اٹھا کر لے جاتی ہے مگر یہ جگہ کبھی صاف نہیں ہو پاتی، سڑک کے دیگر حصوں پر بھی اہلِ علاقہ حسب توفیق گند بکھیرتے رہتے ہیں، اس گند کو صاف کرنے کے لیے خصوصی شکایت کرنا پڑتی ہے، دو تین مرتبہ فون کرو یا کسی کو ان کے دفتر بھیجو تو بادل نخواستہ کوئی اہلکار آکر صفائی کر جاتا ہے، مگر کوئی بات نہیں، ہم سب اچھے اور محبِ وطن پاکستانی ہیں، مسلمان ہیں، صفائی ہمارے ایمان کا حصہ ہے، ہماری نیت اچھی ہے، ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک سنگاپور اور جاپان کی طرح ہوجائے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو جاپان بنانے کا کام ہم نے نہیں کرنا بلکہ کسی نے آسمان سے اتر کر یہ کام ہمارے لیے کرنا ہے اور تھالی میں رکھ کر ہمیں پیش کر دینا ہے کہ لے بھائی، پاکستان بن گیا جاپان، بس اب مزے لو۔

ہم پاکستانیوں نے تو اپنا گند نہ جانے کب صاف کرنا ہے، جاپانیوں نے البتہ یہ کام کب کا مکمل کرلیا ہے، اب وہ ایک نئی مہم پر ہیں، خلا کو صاف کرنے کی مہم پر۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری خلا(space) اب خالی نہیں رہی، ہماری زمین کے اردگرد خلا میں نہ صرف مختلف سیٹلائٹ گھوم رہے ہیں بلکہ ملبے کے ڈھیر بھی ہیں جیسے کہ مختلف راکٹوں کی باقیات اور بیکار سیٹلائٹ کے ٹکڑے، ان سب کی تعداد لاکھوں میں ہے، یہ اٹھارہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتے ہیں جو گولی کی رفتار سے دس گنا زیادہ ہے، اگر ان میں سے کوئی سیٹلائٹ آپس میں ٹکرا جائے یا ملبے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی کہیں جا لگے تو تباہی مچ سکتی ہے، 2009میں امریکہ کا ایک مصنوعی سیارہ روس کے سیٹلائٹ سے ٹکرا چکا ہے جس کا ملبہ اب بھی خلا میں گھوم رہا ہے۔ جاپانی یہی سوچ سوچ کر ہلکان ہوئے جاتے ہیں کہ اگر ایسا ہوگیا اور کوئی ٹکڑا کسی سیٹلائٹ سے ٹکرا گیا تو زمین پر جی پی ایس کا سارانظام درہم برہم ہو جائے گا، ہماری روزمرہ زندگی مفلوج ہو جائے گی، سمت شناسی (navigation) کی سہولت ختم ہو جائے گی، مواصلات اور دفاعی نظام خراب ہوجائیں گے، ایسی صورتحال کے بعد خلا میں نئے سیٹلائٹ یا انسانوں کی مہم بھیجنا مشکل ہوجائے گا۔

میکی ایتو جاپان کی ایک سائنسدان ہے جس کے دماغ میں یہ بات آئی اور اس نے سوچا کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے، سو اس خاتون نے ٹوکیو میں انجینئرز کی ایک ٹیم تیار کی ہے جو ایسا سیٹلائٹ تیار کر رہی ہے جو خلا میں جاکر بیکار ٹکڑوں کی صفائی کرے گا، اس سیٹلائٹ کے ساتھ مقناطیسی پلیٹ ہوگی جو بیکار سیٹلائٹ کے ٹکروں کو اپنے ساتھ چپکا کر واپس لے آئے گی تاکہ وہ خلا میں گھوم کر تباہی نہ مچا سکیں۔ خوش شکل اور خوش پوش میکی ایتو کی عمر فقط چھتیس برس ہے اور وہ ایک ایسی کمپنی سے وابستہ ہے جو خلا سے کوڑا اٹھانے کا کام کر رہی ہے اور مستقبل میں جس کا ارادہ لوگوں کے لیے خلا میں ہوٹل کے کمرے بنانا اور انہیں مختلف سیاروں کی سیر کروانا ہے۔ ستاروں پر کمند ڈالنا شاید اسی کو کہتے ہیں۔

میکی ایتو خوش قسمت ہے کہ جاپان میں پیدا ہوئی، اپنی مرضی کے شعبے میں تحقیق کے لیے اسے پانچ برس کے لیےا سکالر شپ مل گیا، چونکہ قابل تھی اس لیے پڑھائی کے فورا ًبعد کمپنی نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور منیجر بنا دیا، میکی ایتو اور اس کی کمپنی جو کام کر رہی ہے اس کے لیے جاپان کے ایک حکومتی ادارے نے انہیں لاکھوں ین کی امداد بھی فراہم کی ہے۔ یہی میکی ایتو اگر پاکستان میں کسی کی چوتھی بیٹی ہوتی تو پیدائش پر کہرام مچ جاتا، اس کی ماں کو کوسنے دئیے جاتے، باپ سے اظہارِ افسوس کیا جاتا، بڑی ہوتی تو کوئی منحوس کا لیبل لگا دیتا، شاید روپیٹ کر کسی اسکول میں پڑھ جاتی، قسمت اچھی ہوتی تو کالج کی شکل بھی دیکھ لیتی اور اگر بہت اچھی ہوتی تو کہیں شادی ہو جاتی اور پھر شوہر کی خدمت اور ہانڈی روٹی، فل اسٹاپ۔

ہاں، ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ میکی ایتو کسی اچھے روشن خیال کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہو جاتی، اس صورت میں پیدائش پر کسی کو افسوس نہ ہوتا، اسے اچھے اسکول میں پڑھایا جاتا، کالج بھجوایا جاتا، قابل ہوتی تو تحقیق کے لیے وظیفہ بھی مل جاتا، قسمت اچھی ہوتی تو کہیں ملازمت بھی مل جاتی، مگر اس کے بعد شادی، بچے، گھر داری، فل اسٹاپ۔

ایک تیسری صورت بھی ہوسکتی تھی کہ پاکستانی میکی ایتو شادی نہ کرتی اور اپنی زندگی اسی کام کی تحقیق کے لیے وقف کر دیتی، کوئی ادارہ اسے تحقیق کے لیے گرانٹ دے دیتا، وہ انجینئرز کی ایک ٹیم بھرتی کر لیتی اور پھر کسی غیر ملکی فرم سے رابطہ کرکے اپنے کام کو آگے بڑھاتی۔ ایسی صورت میں اس پر غیر قانونی بھرتیوں کا الزام لگایا جاتا، اس ادارے کے خلاف تحقیقات شروع ہو جاتیں جو اسے گرانٹ دیتا اور یہ چارج بھی ٹھوک دیا جاتا کہ بغیر اجازت غیر ملکی فرم سے رابطہ کیوں کیا اور پھر کچھ ثابت ہوتا یا نہ ہوتا، میڈیا پر البتہ یہ’’ثابت‘‘ ہوجاتا کہ میکو ایتو ایک کرپٹ عورت ہے جس نے قوم کا کروڑوں روپیہ ضائع کر دیا۔

دنیا بھر میں کامیابی کے کچھ رول ماڈل ہوتے ہیں، یہ سیاسی لیڈر ہوسکتے ہیں، محب الخیر (philanthropist ) افراد ہوسکتے ہیں، سائنسدان، فلسفی، ادیب، شاعر، ڈاکٹر، انجینئرز اور استاد بھی ہوسکتے ہیں اور وہ دولت مند لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو اپنی محنت کے بل بوتے پر صفر سے ارب پتے بنے۔ دنیا ایسے لوگوں کی زندگی پر فلمیں بناتی، ان پر کتابیں لکھتی ہے، ان کی ترقی کی مثالیں یونیورسٹیوں میں پڑھاتی ہے، ان کے خاکے بچوں کے نصاب میں شامل کرتی ہے۔ ہم البتہ ایسا کچھ نہیں کرتے، ہمارے نزدیک ہر کامیاب، ذہین، دولت مند، تخلیقی شخص کوئی نہ کوئی غلط کام کرکے ہی کامیاب ہوتاہے، اگر کسی کے پاس دولت ہے تو یقیناً وہ کرپٹ ہوگا، یہ گند ہمارے ذہنوں میں بھر دیا گیا ہے، ہم ہر شخص کی کردار کشی میں شریک ہو کر ایک طرح کی اندرونی خوشی اور فرحت محسوس کرتے ہیں،نتیجہ اس کا یہ نکلا ہے کہ آج ہم ایسے زندہ پاکستانی افراد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گن سکتے ہیں جنہیں ہم رول ماڈل کہہ سکیں، باقیوں کو ہم کرپٹ قرار دے کر مطمئن ہوگئے ہیں کہ دیکھو ہم اکیلے ہی کرپٹ نہیں تھے، دیکھو یہ شخص جو بہت رول ماڈل بنا پھرتا تھا وہ بھی کرپٹ نکلا۔

میکی ایتو، اچھا ہوا جاپان میں پیدا ہوئی، اس کی کمپنی خلا میں پھیلے ملبے کو صاف کرے گی تاکہ دنیا کا نظام ہمواری سے چل سکے، تاہم جاپان کی کسی کمپنی کو چاہیے کہ میکی ایتو کی طرح اب ایک ایسی خاتون تلاش کرے جو پاکستانیوں کے دماغ میں بھرے گند کو بھی صاف کرسکے، ویسے خلا کا ملبہ صاف کرنا آسان ہے، ہمارے ذہنوں کی گندگی صاف کرنا مشکل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے