جنگ سے پناہ مگر…

اللہ تعالیٰ اِس خطے کو اُن لوگوں کے فہمِ دین سے محفوظ رکھے جو یہاں کے مکینوں کو جنگ کی آگ کا ایندھن بنا دینا چاہتے ہیں۔ جنگ اہلِ اسلام کا کبھی انتخاب نہیں ہو سکتا۔ ہاں اگر سر پڑ جائے تو فرار بھی اہلِ اسلام کا انتخاب نہیں۔ عمران خان صاحب نے بہت متوازن بات کہہ دی۔ یہی ایک مسلمان کے شایانِ شان ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ ایک معاملے میں پوری پاکستانی قوم یک زبان ہے۔ سب متفق ہیں کہ پلوامہ کے واقعے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ وہ لبرل بھی، جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، واضح ہیں کہ کوئی ایسی واقعاتی یا عقلی شہادت موجود نہیں جسے پاکستان کے خلاف پیش کیا جا سکے۔ مذہبی جنون میں مبتلا ایک گروہ، البتہ ایسا ہے جو اسے جہاد اور اسلام کے سر ڈالنے پر تلا بیٹھا ہے اور اس واقعے کو روایات کی من مانی تاویل کی بنیاد پر، الہامی فیصلہ قرار دینے پر مصر ہے۔ بین الاقوامی تناظر میں اس موقف کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں، انہیں اس سے زیادہ سروکار نہیں۔

بھارت کے شہریوں سے کبھی سامنا نہیں ہوا۔ ایک آدھ بار کسی تقریب میں یا بیرون ملک ملاقات ہوئی بھی تو ایسا موقع نہیں تھا کہ بات ہو سکتی۔ دل چاہتا ہے کہ کبھی آمنا سامنا ہو تو ان سے ایک سوال پوچھوں ”گاندھی اور نہرو سے نریندر مودی تک کا سفر، بھارت کی ترقی ہے یا تنزل؟‘‘ میں جانتا ہوں اس کا جواب کیا ہو گا۔ وہ مجھ سے سوال کرے گا ”قائد اعظم سے نواز شریف اور عمران خان تک کا سفر، پاکستان کی ترقی ہے یا تنزل؟‘‘ یہ دونوں سوال ہم سب کیلئے اہم ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس خطے کو ایک بار پھر، اعلیٰ فکری و سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔

یہ تین موضوعات ہیں جو خلطِ مبحث کا شکار ہو گئے ہیں۔ بھارت کا مفاد اس میں ہے کہ یہ اختلاط باقی رہے۔ عقل کا تقاضا ہے کہ انہیں الگ الگ سمجھا جائے۔ پاکستان کا مفاد بھی اسی میں ہے۔ ایک موضوع ہے‘ عالمی دہشت گردی۔ دوسرا موضوع ہے‘ اہلِ کشمیر کی تحریکِ آزادی۔ تیسرا موضوع ہے‘ پاک بھارت تعلقات۔ ہمیں دنیا کو باور کرانا ہے کہ ان تینوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔

اس وقت دنیا میں بین الاقوامی دہشت گردی کی جو تحریک برپا ہے، اس کا تعلق کسی ریاست سے نہیں ہے۔ وہ دنیا کے ہر خطے میں پائی جاتی ہے اور دنیا کی ہر حکومت سے برسرِ پیکار ہے۔ اس میں مسلم‘ غیر مسلم کی کوئی تمیز ہے اور نہ عرب و عجم کی۔ یہ تحریک کئی تنظیموں پر مشتمل ہے جو باہم دست و گریباں ہونے کے باوجود، فکری ہم آہنگی رکھتی ہیں۔ ان کے نزدیک یہ بھارت کی حکومت ہو یا پاکستان کی، طاغوت ہی کی مختلف شکلیں ہیں‘ جن کے خلاف تلوار اٹھانی چاہیے۔

بطور ریاست، پاکستان نے ان عناصر سے جتنا نقصان اٹھایا ہے، دنیا کے کسی ملک نے نہیں اٹھایا۔ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ کو برباد کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی‘ مگر ہمارا معاملہ سنگین تر ہے۔ ہماری ریاست ان کی تاخت سے محفوظ رہی نہ معاشرہ۔ ان گنت جانیں اور بے پناہ وسائل قربان کرنے کے بعد، ہم اس عفریت سے نجات پانے میں، کسی حد تک ہی کامیاب ہوئے ہیں۔ ان تحریکوں سے ظاہر ہے کہ ریاست پاکستان کا ان سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے نہ پاکستانی قوم کا۔ یہ تحریک عالمی نظم کے لیے خطرہ ہے‘ اور اس کے خلاف ساری دنیا متحد ہے۔ پاکستان بھی اور بھارت بھی۔

لازم ہے کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو زیرِ بحث لاتے وقت، اس دہشت گردی کو الگ کر دیا جائے۔ اس تحریک سے وابستہ لوگ بھارت کے شہری ہو سکتے ہیں اور پاکستان کے بھی‘ امریکہ کے ہو سکتے ہیں اور برطانیہ کے بھی۔ اگر پاکستان میں ان تنظیموں سے متعلق کوئی فرد پایا گیا تو ظاہر ہے کہ اس کا کوئی الزام پاکستان کو نہیں دیا جا سکتا۔ پلوامہ جیسے واقعات کی تفہیم میں، اس پہلو کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔

اب آئیے مقبوضہ کشمیر کی طرف۔ کشمیریوں نے زبانِ حال سے بتا دیا ہے کہ وہ مر تو سکتے ہیں، بھارت کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس باب میں جو یک سوئی گزشتہ چند سال میں سامنے آئی ہے، اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ جولائی 2016ء کے بعد، کوئی ایک ایسی شہادت پیش نہیں کی گئی جو کسی واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کی دلیل بن سکے۔ پلوامہ کے واقعے کے بعد جس خود کش بم بار کی وڈیو سامنے آئی ہے، وہ کشمیری ہے۔ یہ تحریکِ آزادی، اب پاکستان کی حمایت کی محتاج نہیں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ پچھلے تین سال سے، یہ جنگ اپنی شناخت میں غیر مسلح ہے۔ یہ سوشل میڈیا پر لڑی جا رہی ہے اور سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں کی صورت میں بھی برپا ہے۔ مسلح واقعات اب اکا دکا ہیں۔ مظاہروں اور احتجاج کی لہر کہیں زیادہ توانا ہو چکی۔

کشمیر کی صورتِ حال کا کوئی عملی تعلق اب پاک بھارت تعلقات سے باقی نہیں رہا۔ یہ بات بھارت کی سیاسی قیادت اور اہلِ دانش کو سمجھنا ہو گی۔ آج اگر اس تحریک کی سیاسی و سفارتی حمایت بند کر دی جائے تو بھی یہ تھمنے والی نہیں۔ یہ اب فلسطینیوں کی تحریک کے مشابہ ہے۔ فلسطینی کئی برسوں سے تنہا لڑ رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ اس حکمتِ عملی پر بات ہو سکتی ہے مگر یہ اس وقت میرا موضوع نہیں۔ یہاں ایک مماثلت کو بیان کرنا مقصود ہے اور وہ یہ کہ اہلِ فلسطین کو دنیا کی کسی ریاست کی حمایت حاصل نہیں، اس کے باوجود وہ ختم نہیں ہو سکی۔ اسی طرح کشمیریوں کی تحریکِ آزادی بھی اب کسی کی تائید و نصرت کی محتاج نہیں۔ کشمیریوں نے اپنے لہو سے اپنے چراغ جلانا سیکھ لیا ہے۔ بھارت کو ان سے براہ راست معاملہ کرنا ہی پڑے گا۔

کشمیر تاریخی طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ ایک زندہ مسئلہ بھی ہے۔ اس کی نوعیت اب تبدیل ہو چکی ہے۔ حالات نے کشمیریوں کو ایک فریق بنا دیا ہے۔ کشمیریوں نے مروجہ مفہوم میں خود کو ایک قوم ثابت کر دیا ہے۔ قوموں کے حقِ خود ارادی کو اقوامِ متحدہ قبول کرتی ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت نئے حقائق کی روشنی میں، کشمیریوں کو فریق مان کر، ان کے حق خود ارادیت کو تسلیم کر لیں تو یہ تنازعہ حل ہو سکتا ہے۔ یہ محض اتفاق ہو گا کہ پاکستان کا تاریخی موقع بھی نئے حقائق سے ہم آہنگ ہے۔

اگر یہ دو پہلو سامنے رہیں تو پھر پاک بھارت تعلقات پر غور و فکر کا زاویہ بدل سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ باہمی تعلقات کے ضمن میں تجارت سے لے کرخفیہ ایجنسیوں کے کردار سمیت، تمام امور پر کھل کر بات کر سکتے ہیں۔ بھارت کی خواہش ہے کہ خلطِ مبحث باقی رہے۔ اسی صورت میں، وہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف عالمی اتفاق رائے کا ہدف بنا سکتا ہے۔ اسی طرح جب کشمیر انسانی حقوق کی پامالی اور حق رائے دہی کا مقدمہ بنے گا‘ تو بھارت کے لیے اس کا دفاع مشکل ہو جائے گا۔ وہ چاہتا ہے کہ دہشت گردی کی آڑ میں وہ بھارتی مظالم دب جائیں جو اہلِ کشمیر پر ڈھائے جا رہے ہیں۔

اس وقت اس خطے کو اعلیٰ سیاسی و فکری قیادت کی ضرورت ہے‘ جو انتخابات میں کامیابی جیسی سطحی سوچ سے بلند ہو سکے۔ پاکستان کو بھی ایسی قیادت چاہیے جو ”پیغامِ پاکستان‘‘ کے مطابق اس بات کو عملاً قبول کرے کہ جہاد ریاست کے بغیر نہیں ہو سکتا اور اس سے صرف فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ ”پیغامِ پاکستان‘‘ کا یکساں اطلاق پاکستان کی ضرورت ہے۔ مودی جانتے ہیں کہ وہ انتخابات کے بعد اگر جیت جاتے ہیں تو اس فضا کو بر قرار نہیں رکھ سکیں گے۔ لیکن وہ تاریخ کو جو نقصان پہنچائیں گے، اس کے اثرات برسوں پر محیط ہوں گے۔

(پسِ تحریر: عمران خان صاحب نے جس سادگی اور خوب صورتی کے ساتھ، سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کا مقدمہ شہزادہ محمد کے سامنے رکھا ہے، اس نے لوگوں کے دلوں کو چھو لیا ہے۔ پہلی بار الفاظ کے چناؤ میں انہوں نے اس توازن اور حکمت کا مظاہرہ کیا ہے، جس کی ایک لیڈر سے توقع ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ محبت سے بڑھ کر کوئی قوت ایسی نہیں جو دلوں کو پھیر سکے۔ میری دعا ہو گی کہ یہ اسلوبِ کلام، ان کی گفتگو کا غالب انداز بن جائے۔)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے