میں مذہب سے بیزار کیوں ہوں

ساتویں جماعت میں تھا _ شام کو پڑھنے ٹیوشن جاتا تھا _ایک دن ٹیوشن والے انکل نے مذہب سے متعلق ایک سوال کیا _ وہ سوال کم اور اعتراض زیادہ تھا _ گھر آیا ابو اور بڑے بھائی کو بتایا _ ابو نے جواب تو بتا دیا پر بڑے بھائی نے مزید ویسے چار سوال کر ڈالے _ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ خود پڑھو _ وہ دن تھا اور آج کا دن ہے روز مذہب کو کچھ نہ کچھ پڑھتا ہوں _ مجھے مذہب پڑھتے ہوۓ ١٣ سال گزر گے ہیں _ لکن مجھے ”اس” مذہب نے بیزار کر دیا _
آخر کیوں …….
ایک منٹ یہیں رک جائیں …!!
یہ بات تسلیم شدہ ہے _ اسلام کا آغاز عرب سے ہوا _ وہ اسلام جب ہندوستان آیا _ تو یہ انڈین ورژن اف اسلام بن گیا _ ایران میں جب یہی اسلام گیا -تو ایک نیا ورژن آیا _جس کو ایرانی ورژن اف اسلام کہا جاۓ تو غلط نہ ہو گا _

آگے چلیں …..!!

تہذیبی روایات کی اسلام میں ایک اپنی اہمیت ہے _ کوئی ذی شعور ان کی اہمیت سے منکر نہی _ لکن جب انہی روایات کو تعلیمات پر غالب کیا جاۓ _ تو فساد فی الارض حتمی ہے _ تہذیبی اور اسرائیلی روایات کا اگر معجون بن جاۓ تو پھر اسلام کا ماشاءاللہ وہی حال ہوتا ہے _جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے _ !!

میں اسلام کی ساری کی ساری تعلیمات کا محل نظر دوسرے کو تکلیف سے بچاؤ کا ذریعہ سمجھتا ہوں _ نجی زندگی سے قومی امور تک ایک مثال ایسی نہی _جس سے فرد کو تکلیف پُہنچی ہو _ بدقسمتی کہہ لیجیے _ہمارے ہاں مذہب کے باب میں ریاست بھی مفلوج ہے _

ریاست سب کو خوش رکھنا چاہتی ہے _ ہمارے ہاں مذہبی گروہ اپنی اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے اسلام کے نام پر مختلف سرگرمیاں کرتے ہیں _ عوام کو یہ لولی پاپ دیا ہوا ہے _یہی اسلام ہے _یہ سرگرمیاں نہ رہی _تو اسلام گیا _ اسلام کی بقا کے لیے یہ تمام سرگرمیاں جاری رکھنا ”فرض عین ” کے درجے میں ہے _

دو عام مثالیں لیجیے _ نماز اجتماعی معاملہ ہے _ حکم ہے نماز سے بھی غیر نمازی کی لائف میں خلل نہی ہونا چاہے _ قرآن لا ریب آخری کتاب ہے _ حکم ہے کتاب کوئی آرام کر رہا ہو تو کتاب بھی آہستہ پڑھو _ آج کے مذہب علمبردار اس وقت ہوتے تو کہتے _جناب کتاب افضل ہے یا سونا ؟؟؟

مذہب کے نام پر یہ سب سرگرمیاں _ نظام زندگی معطل ،مواصلات کا نظام تعطل پذیر ، کوئی مرے یا جئے ، غریب کے گھر روٹی پکے یا وہ مذہب کے ان نعروں تلے فاقہ کشی کرے _ معاشی قتل ہو یا ہر سال کرفیو کا سماع _ مجھے تو اب اپنا دیس بھی کربلا لگتا ہے _

اس عنوان پر ریاست بھی توتلی ہے _ عظیم منصف فاروق اعظم کے نام پر جلوس ہو یا امام عالی مقام کے نام پر جلسوس ہو یا ربیع الاول میں انسانیت کے امام اور ہمارے ایمان رسالت ماب (ص) کے نام پر سڑکیں بلاک ہو _ میں اس کو مذہب تسلیم کرنے سے قاصر ہوں _ میں ایسے مذہب اور اس کے علمبرداروں سے بیزار ہوں _

ریاست کو چاہے وہ بلا تفریق تمام مسالک و مکاتب کو کہے _آپ نے مذہب کے نام پر جو سرگرمیاں کرنی ہیں _وہ اپنے اپنے عبادت خانوں میں کریں _ اگر پھر بھی کسی کی روح باہر آنے کو بے چین ہے _ تو ہر ڈسٹرکٹ لیول پر گراؤنڈ اس کام کے لیے مختص کر دیں _ جہاں مطلقہ ڈپٹی کمشنر سے اجازت لیں کر اپنی سرگرمیاں کریں _ کاش اس ملک کے وصی تر مفاد میں یہ بات نیشنل ایکشن پلان میں بھی زیرے بحث آے _

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے